پرائم منسٹر اور پانچ پیارے


ویسے تو ماشا اللہ تینتیس رکنی وفاقی کابینہ ماضی کے مقابلے میں صرف سترہ وفاقی وزرا، دس وزرائے مملکت، دو مشیروں اور چار خصوصی معاونوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس وقت کاروبارِ حکومت کی نگرانی و پرداخت و منصوبہ بندی و پالیسی سازی کا بیشتر بوجھ وزیرِ اعظم اور ان کے پانچ رفقا یعنی انچارج وزیر کیبنٹ ڈویڑن، وفاقی وزیرِ قانون، وفاقی وزیرِ مواصلات، وفاقی وزیرِ دفاع اور وزیرِ خارجہ نے اٹھا رکھا ہے۔ ان پانچوں کو آپ وزیرِ اعظم کے کان، ناک، آنکھ، دست و بازو، کور گروپ یا کچن کیبنٹ کچھ بھی کہہ لیں۔ چاہیں تو وزیرِ اعظم کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر خیال کرکے ان پانچوں وزرا کو اس گھنٹہ گھر تک پہنچنے والے مرکزی راستے تصور کرلیں کہ جن پر باقی وزرا اور مشیروں نے بھی اپنی دوکانیں، کھوکھے اور ڈھابے وغیرہ سجائے ہوئے ہیں۔

اٹھارہ کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک اور ساتویں ایٹمی طاقت کے معاملات وزیرِ اعظم پلس فائیو کے پاس ہونے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ کور ٹیم مستقل وزیرِ اعظم کے ساتھ رہتی ہے اور اس کا اجلاس ہنگامی طور پر چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت اور کہیں بھی اندرون و بیرونِ ملک فضا، زمین، زیرِ زمین، سمندر، زیرِ آب اور خلا میں طلب کیا جاسکتا ہے۔ یوں کلیدی اور اہم فیصلے برق رفتاری سے ہوسکتے ہیں اور پھر ان فیصلوں کے بارے میں کابینہ کے دیگر ارکان کو بذریعہ ای میل، سکائپ، ٹویٹر، خط، اشارتاً و کنائتاً یا فالتو وقت ہو تو رسمی اجلاس طلب کرکے اعتماد میں لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح نا صرف قیمتی قومی وقت بچتا ہے بلکہ کابینہ کے سفری و قیامی اخراجات و مراعاتی فوائد میں بھی معتدبہ کمی ہوجاتی ہے۔ اور کون نہیں جانتا کہ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ قیمتی وقت اور اخراجات میں کمی کی ہی ضرورت ہے۔

چونکہ کاروبارِ حکومت وزیرِ اغطم پلس فائیو جانفشانی سے چلا رہے ہیں لہذا حاسدوں کا جلاپا بھی ان کے پہلے دو ادوارِ حکومت سے زیادہ ہے۔ جیسے اور کچھ نہیں تو یہی اعتراض کہ وزیرِ اعظم نے گذشتہ ساڑھے پانچ ماہ کے دوران قومی اسمبلی میں صرف پانچ مرتبہ اور سینیٹ میں ایک بار بھی درشن نہیں دیا۔ یہ اعتراض نہایت بودا ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ معترضین آدابِ حکمرانی کی تاریخ و جغرافیے سے کس قدر نابلد ہیں۔ کاش انھیں معلوم ہوتا کہ آج سے نہیں بلکہ ہزاروں سال سے یہ اصول طے شدہ ہے کہ ایک مضبوط حکومت چلانے کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی کردار اپنے قلعے میں جما رہے اور کاروبارِ حکومت چلانے والے کارندوں کی رہنمائی کرتا رہے۔ اب اگر وزیرِ اعظم پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں ہی شرکت کرتا پھرے گا تو پھر نظم و نسق پر نگاہ کیسے رکھے گا۔ علاقائی امور پر غوروفکر کب کرے گا اور ملکی ترقی و تعمیر کے بارے میں کب یکسوئی سے سوچے گا۔ ویسے بھی پارلیمنٹ غیر تھوڑا ہی ہے۔ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کے جو ارکان ہیں ان کو اس لیے وزیرِ اعظم کو بنفسِ نفیس دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ وزیرِاعظم تو ہر وقت ان کے دل و دماغ میں ہی رہتے ہیں۔ جہاں تک حزبِ اختلاف کا معاملہ ہے تو جو تنقیدی لچ انھیں وزیرِ اعظم عرف قائدِ ایوان کی موجودگی میں تلنا ہے وہ ان کی غیر موجودگی میں بھی تو تلا جاسکتا ہے۔ بلکہ بخوبی تلا بھی جارہا ہے اور پارلیمنٹ کے اندر باہر تلا جارہا ہے۔

ویسے بھی گورنمنٹ کسی ایک شخص کا نہیں ادارے کا نام ہے۔ اگر وزیرِ اعظم خود آنے کے بجائے کسی کو پارلیمنٹ میں اپنی نیابت کے لیے بھیج دیتے ہیں تو یہ کافی کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ پرانے زمانے میں کیا سمن دینے حکمران گاؤں میں جاتا تھا یا کوئی پولیس والا شاہی نمایندے کے طور پر احکامات و ہدایات رعایا تک پہنچاتا تھا؟ بادشاہ کے سات پردوں میں بیٹھنے کے باوجود حکومتیں پانچ پانچ سو سال چلتی تھیں۔ بولیے چلتی تھیں کہ نہیں؟ لیکن آپ موجودہ حکومت کو کچھ بھی کہہ لیں اسے بادشاہت پھر بھی نہیں کہہ سکتے۔ جو کچھ بھی ہے جمہوری ہے، سب کے سامنے ہے اور کھلا پڑا ہے۔

وزیرِ اعظم یہ بھید بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو اندرونی سے زیادہ بیرونی امیج سازی کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس کام پر پچھلے پانچ ماہ میں کماحقہ توجہ دی ہے۔ وہ چاہتے تو یہ کام کسی اور کے سپرد بھی کرسکتے تھے۔ لیکن جس سماج میں سیٹھ صاحب کی نظر ہٹتے ہی کارندے رفو چکر ہونے اور رفوچکری کی جادوئی تاویلات دینے کے ماہر ہوچکے ہوں۔ وہاں امورِ مملکت چلانے کے لیے ہر کام کی ذاتی نگرانی اور ہر کام اپنے ہاتھ میں رکھنا اور کرنا ایک مجبوری بن جاتا ہے۔ ویسے بھی حکومت کو کاروبارِ حکومت ہی کہا جاتا ہے اور کاروبار تب ہی ٹھیک ٹھیک چلتا ہے جب سیٹھ گلے پر بیٹھے اور تمام کاروباری معاملات بنفسِ نفیس طے کرے اور اپنی غیر موجودگی میں کوشش کرے کہ کوئی فیملی ممبر ہی اس کی جگہ گلے پر بیٹھے۔

دیکھئے خوا مخواہ کی باتوں میں الجھنے کا یہ نقصان ہوا کہ بات میں وزیرِ اعظم پلس فائیو کی کررہا تھا اور جانے کہاں سے کہاں نکل لیا۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اطلاعات کے مطابق وزیرِ اعظم اور ان کے پانچ معتمدینِ خاص میں مثالی ہم آہنگی ہے۔ لیکن کبھی کبھی مثالی انسانوں کے درمیان کنفیوژن بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے پچھلے دنوں ہوا کہ وزیرِ دفاع کے دفتر سے رپورٹ آئی کہ پچھلے پانچ برس کے ڈرون حملوں میں دو ہزار سے زائد دہشت گرد اور صرف سڑسٹھ سویلین ہلاک ہوئے۔ لیکن وزیرِ خارجہ کے دفتر نے ان اعداد و شمار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ چنانچہ وزیرِ اعظم کو مداخلت کرنی پڑی۔ تب کہیں جا کے بین الاقوامی آنکڑوں کی روشنی میں سرکاری آنکڑوں کا فرق ختم ہوا اور طے ہوا کہ سڑسٹھ سویلینز کو بڑھا کر اگر چار سو سے نو سو کے درمیان کردیا جائے تو لوگ قبول کرلیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور وزیرِ اعظم کی فراست سے وزیرِ دفاع و خارجہ کی من و تو حل ہوگئی۔ لیکن ہمارا مشورہ ہے کہ اگر وزیرِ اعظم اپنے وزیرِ خارجہ سے درخواست کریں کہ بیرونِ ملک سفارتی عملے کی تعیناتی کے انڈوں پر کڑک مرغی کی طرح بیٹھ کے سوچ بچار کی طوالت کو ذرا کم ہی رکھا جائے تو اس سے بھی بیرونی دنیا میں پاکستان کی ساکھ مزید بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔

اسی طرح جب وزیرِ مواصلات نے گوادر اور چین کے مابین انرجی کاریڈور اور ریلوے لائن اور بلٹ ٹرین کا تصور پیش کیا تو بہت سے لوگوں کے ذہن میں شیخ چلی کی کہانیاں گھومنے لگیں۔ لیکن وزیرِ اعظم نے وزیرِ مواصلات کا خم ٹھونک کر ساتھ دیا اور اب کوئی ان عظیم الشان مواصلاتی منصوبوں کے مستقبل پر سوال نہیں اٹھاتا کیونکہ اس سے بھی اہم معاملہ طالبان سے مواصلات کا درپیش ہوگیا ہے۔

جہاں تک نئے چیف آف آرمی اسٹاف اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیرمین کی تقرری کا سوال ہے تو روایت تو یہی ہے کہ نئے عہدیداروں کا تین ماہ پہلے اعلان ہوجاتا ہے۔ لیکن سنا یہ جارہا ہے کہ وزیرِ اعظم نے اصولی طور پے تو ناموں کی منظوری دے دی ہے تاہم یہ فائلیں وزیرِ دفاع کی میز پر دستخطوں کے انتظار میں ہیں جس کے بعد ہی یہ نام وزیرِ اعظم کے دفتر سے ہوتا ہوا صدرِ ممنون کی میز تک پہنچے گا۔ تب کہیں جا کے کیبنٹ ڈویژن کے امور کے ذمے دار وفاقی وزیر کے دفتر سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہو پائے گا۔ اب اگر اس پروسس میں کوئی تاخیر ہو بھی رہی ہے تو اس کی ذمے داری وزیرِاعظم کے بجائے وزیرِ دفاع کے قلم دان پر آتی ہے۔

ایک اور معاملہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس مجریہ دو ہزار تیرہ کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا ہے۔ مجھ جیسے بہت سے کم عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وفاقی وزیرِ قانون کے ہوتے ہوئے اس بل کا مسودہ وزیرِ سائنس و ٹیکنولوجی زاہد حامد کو پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ حالانکہ وزیرِ قانون بھی وزیرِ اعظم پلس فائیو کچن کیبنٹ کے اہم رکن ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیرِ قانون بنفسِ نفیس یہ بل پارلیمنٹ میں متعارف کراتے تاکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے مذکورہ بل پر بعض اہم بنیادی تحفظات پر رائی کا پہاڑ بنانے کی ماہر حزبِ اختلاف کو حکومت کی طرف سے مدلل جواب مل جاتا۔ اب سائنس و ٹیکنولوجی کا وزیر کس حد تک انسدادِ دہشت گردی بل کا دفاع کرپائے گا؟ مگر ہوسکتا ہے کہ وزیرِ اعظم نے سوچا ہو کہ جب انسدادِ دہشت گردی کے لیے امریکا ڈرون ٹیکنولوجی استعمال کرسکتا ہے تو ہم انسدادِ دہشت گردی بل متعارف کروانے کے لیے وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی کیوں استعمال نہیں کرسکتے۔ اگر اس بل کے پیچھے یہی سوچ ہے تو پھر اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس دوران وفاقی وزیرِ قانون کی کیا مصروفیات رہیں؟ کیا وہ اب تک قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے سانچے خریدنے میں مصروف ہیں؟

بہرحال ہمیں امید ہے کہ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف، وزیرِ دفاع محمد نواز شریف، وزیرِ خارجہ نواز شریف، وزیرِ قانون قبلہ نواز شریف، وزیرِ مواصلات محترم نواز شریف اور وزیرِ امورِ کیبنٹ ڈویڑن جناب نواز شریف سمیت وزیرِ اعظم پلس فائیو کی یہ مثالی ٹیم دیگر تینتیس ہم نواؤں کے تعاون سے مکمل ہم آہنگی اور برق رفتاری کے ساتھ ملک کو اگلے ساڑھے چار برس میں دہشت گردی، معاشی بدحالی اور توانائی کے بحران سے نکالنے میں یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیاب ہوجائے گی۔

پیر 11 نومبر 2013


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).