ماضی کے واقعات اور حال کے پیمانے


گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک محترم دوست قائد اعظم پر بات کر رہے تھے۔ ان کے دوستوں نے اس پر تبصرے کرتے کرتے بات کو قائد اعظم کی جوانی تک پہنچا دیا اور کسی نے جوش جذبات میں لکھ ڈالا کہ قائد اعظم نے لنکنز ان نامی ”تعلیمی“ ادارے سے بار ایٹ لاء کی ”ڈگری“ حاصل کی تھی۔ اس پر کسی دوست نے توجہ دلائی کہ نہ تو لنکنز ان معروف معنی میں کوئی تعلیمی ادارہ ہے نہ بار ایٹ لاء کوئی تعلیمی سند ہے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو قائد اعظم کا میٹرک کرنا بھی ثابت نہ ہو پائے۔ اسی ضمن میں علامہ اقبال کی ڈاکٹریٹ کا بھی ذکر آیا جو انہوں نے کیمبرج سے حاصل کردہ ”آنرز“ ڈگری کی بنیاد پر ”ایران میں مابعد الطبعیات کا ارتقا“ نامی مقالہ ایک جرمن یونیورسٹی میں داخل کر کے پائی تھی اور متداول طریقے یعنی مقالہ لکھنے سے قبل تین سال تک تحقیق اور رسمی تعلیم سے استثنی حاصل کیا تھا۔

یہ خیالات ان دونوں حضرات کے غالی عقیدت مندوں کو ہضم نہ ہوئے اور انہوں نے اپنے خیال میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی ”توہین“ کرنے والوں کے لتّے لینے شروع کر دیے۔ اس پر اس خادم کو بار بار سر اٹھانے والی وہ بحث یاد آ گئی جس میں لوگ اسلام پر اعتراضات اٹھاتے ہوے کہتے ہیں کہ مثلاً ابتدا ہی میں غلامی کا قلع قمع کیوں نہ کیا گیا، یا کم عمری کی شادیاں کیوں ہوتی رہیں؟ علی ہذا القیاس۔ ایک ذرا سے گریز کی اجازت دیجیے اور ایک برطانوی صحافی کا تذکرہ سنیے۔ بڑھاپے میں یہ ہوتا ہے کہ واقعہ یاد رہ جاتا ہے مگر کرداروں کے نام بھول جاتے ہیں، چنانچہ بزرگ اکثر نوجوانوں کو ایک ہی قصہ سنا سنا کر دق کر دیتے ہیں۔ سو اس خادم کو بھی صحافی کا نام مستحضر نہیں رہا، مگر یہ یاد ہے کہ وہ انیسویں صدی میں مانچسٹر گارجین کی جانب سے عثمانی سلطانِ ترکی کی افواج کے اندر متعین تھا۔ آج کل کی اصطلاح میں ”ایمبڈڈ“ تھا اور سلطان کی افواج کی یونان کے علاقے کی مہمّات میں عثمانی دستوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہیں سے اپنے اخبار کے نام مکتوبات روانہ کرتا تھا جو بعد میں مجموعے کے طور پر مدوّن کر دیے گئے۔ اردو ترجمہ بھی اسّی کی دہائی میں لاہور کے کسی ناشر نے چھاپا تھا۔ وہ رقم طراز ہے کہ سلطان ترکی نہایت با اصول، قناعت پسند اور منصف مزاج آدمی ہیں۔ ہوس ملک گیری یا شوق جدال انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے اور علاوہ نو آبادیات پر قبضے کے بین الاقوامی مسلّمہ حق کو استعمال کرنے کے، انہوں نے آج تک کسی ہمسایہ ملک پر ”ناجائز“ حملہ نہیں کیا۔

ذرا سوچیے کہ آج کے سماجی اور سیاسی اخلاق کی رو سے ”نو آبادیات پر قبضے کا مسلّمہ حق“ کس قدر مضحکہ خیز اور قابل اعتراض معلوم ہوگا، مگر اس دور میں یہ عمل بالکل جائز اور مباح تھا۔ یہ گریز کرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ یہ ”اصول“ کہ اعلی پائے کا وکیل ہونے کے لیے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل لازمی ہے، یا پی ایچ ڈی کے لیے کم از کم ایک سال باقاعدہ کلاسز لینا شرط ہے، ابھی کل کی پیداوار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تعلیم اور پیشہ ورانہ معیار بندی کا رواج ماضی قریب میں ہی پڑا ہے۔ یہ تو آج کی نوجوان نسل کو بھی یاد ہوگا کہ بی اے کے لیے کالج کی تعلیم کا دورانیہ دو سال ہوا کرتا تھا جسے حال ہی میں چار سال تک بڑھا دیا گیا ہے۔ انہیں البتہ یہ علم نہ ہوگا کہ بی اے کی ڈگری کا دورانیہ چار سے کم کر کے دو سال کروانے کا فیصلہ سن پچاس کی دہائی کی ایک طلبا تحریک کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ سو عرض یہ ہے کہ دو سال میں حاصل کی گئی جو ڈگری ہماری نسل تک بالکل معیاری مانی جاتی تھی، آج وہ کچھ جعلی جعلی سی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح قائد اعظم اور علامہ اقبال کے زمانے میں بار ایٹ لا کرنے یا پی ایچ ڈی کرنے کا مروجہ طریقہ کار وہی تھا جو ان بزرگوں نے اختیار کیا۔ آج کے اصول ماضی کے واقعات پر لاگو کرنا، یا اس کا بالعکس، ایک لغو عمل یا کم از کم ایک مغالطہ ضرور ہے۔

اس لغو عمل کو معروف دانشور سیّد سبط حسن نے ”ذہنیتِ حاضرہ“ کا نام دیا تھا۔ انسانی اجتماعی اخلاق کوئی جامد چیز نہیں ہے اور ہر دور میں، تبدیل شدہ معروضی حالات کے زیرِ اثر ان میں تغیر ہوتا رہتا ہے۔ انہی تبدیلیوں کے تحت کل کا ناخوب آج کے خوب میں بدل جاتا ہے اور اس کا الٹ بھی رونما ہوتا ہے۔ اس گزارش کا ماحصل یہ ہے کہ جو واقعات جس دور میں رونما ہوئے ہیں، ان کی اخلاقی قدر اسی دور میں مروج پیمانوں میں ماپنا ہی درست ہے۔ آج کے اخلاقی معیارات ایک طول طویل سماجی ارتقا سے گزر کر موجودہ نہج تک پہنچے ہیں اور عین ممکن ہے کہ کل کلاں کو ان کی شکل مکمل معکوس ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).