ملالہ فینامنا، شعیب منصور اور آسکر


پاکستان میں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں

ایک وہ جن کو پتا ہے کہ ملالہ کا ڈرامہ سارا جھوٹ پر مبنی ہے، فراڈ ہے

دوسرے وہ جو اتنے بے خبر، جاہل، بے وقوف اور پیپلز پارٹی کے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتا نہیں کہ یہ سب فراڈ تھا اور بڑی ہوشیاری سے اس کو حقیقی جیسا بنایا گیا

ویسے جن بے چاروں کو نہیں پتا، اس فراڈ کا، میں انہیں زیادہ الزام بھی نہیں دیتا کیونکہ اس سارے ڈرامے کی ہدایتکاری اتنی باریک بینی اور مہارت سے کی گئی کہ یہ ریئل (حقیقی) ہی لگتا ہے

اور تو اور میں خود بھی سب کچھ پتا ہونے کے باوجود کبھی کبھی دھوکہ کھا جاتا ہوں اور یہ سارا فراڈ حقیقت لگنا شروع ہو جاتا ہے۔

پھر میں اپنے آپ کو بتاتا ہوں، ہاں ہاں بتانا پڑتا ہے بھئی، کہ کدھر پھنس رہے ہو بے وقوفوں کے ٹولے میں، سیدھی سائیڈ پر رہو۔ ہاں جی اتنے بڑے بڑے صحافیوں سے دشمنی مول لینے کا کیا فائدہ۔

جب فراڈ ہے تو ہے۔ ملالہ نہ فراڈ کرتی اور نہ اتنی بدنامی کراتی

اس نے اپنی، اپنے خاندان کی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی بدنامی کرائی ہے۔

ویسے جن لوگوں کو پتا ہے کہ ملالہ ڈرامہ اور فراڈ ہے ان کے سامنے ہماری بلے بلے بھی بڑی ہوئی ہے۔ بڑا رعب پڑا ہے ہمارے ٹیلنٹ کا۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ یار کتنا زبردست ڈرامہ کرتے ہو تم پاکستانی لوگ، سب کچھ حقیقی لگتا تھا۔

اس ڈرامے کو کرنے کے لیے سب سے کمال بات ایسی ٹیم اکٹھی کرنا تھا۔

اور یہ ٹیم والا پورا آئیڈیا مجھے بھی پتا نہیں تھا

یہ تو بھلا ہو مسرت احمد زیب صاحبہ کا کہ انہوں نے بھانڈا پھوڑا ان لبرلوں کا اور وہ بھی بیچ چوراہے میں۔ انہیں بھی اس سازش کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے خاندان کی عزت بچا لی ورنہ وہ بھی آج ملالہ کے خاندان کی طرح پوری دنیا میں بدنام ہو چکے ہوتے۔

آپ لوگوں کے چہروں پر سوال نظر آ رہا ہے کہ انہیں (مسرت احمد زیب صاحبہ کو) اس ڈرامے میں کیا رول آفر کیا گیا تھا۔

انہوں نے ملالہ کی دوست کا کردار ادا کرنا تھا۔ وین میں ملالہ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر زخمی ہونے کا رول ان کا تھا۔

حالانکہ وہ لگتی تو ستیھارتی انکل کی کلاس فیلو تھیں لیکن پھر بھی ساری ڈرامہ ٹیم نے منظوری دے دی تھی۔

وہ تو جو طالب لڑکا اپنا اصلی رول کر رہا تھا، وہی جس نے وین کو روک کر اندر بیٹھی ہوئی بچیوں کو پستول دکھا کر ڈرانا تھا اور ڈانٹ کر پوچھنا تھا کہ تم میں ملالہ کون ہے، اس نے انکار کر دیا۔

صحیح بتا رہا ہوں اسی نے انکار کیا تھا۔

وہ کہتا تھا کہ مسرت زیب کی شکل اس کی سب سے ظالم پھپھو سے ملتی ہے اور اپنی اس پھپھو سے بہت ڈرتا ہے۔ اسی پھپھو سے بھاگ کر تو وہ طالبان میں شامل ہوا ہے۔

اس لیے اگر مسرت زیب بیٹھی ہوں گی وین میں تو وہ گولی چلانا بھول جائے گا اور عین ممکن ہے اس کے ہاتھ سے پستول ہی گر جائے اور سارا ڈرامہ ہی فیل ہو جائے۔

ورنہ مسرت زیب تو پکی ”ان“ تھیں۔

اور مسرت زیب صاحبہ کو ”ان“ رکھنے کے لیے ایک اور تجویز یہ آئی کہ گولی مارنے کا رول کسی اور کو دے دو، یہ طالب لڑکا ضروری تو نہیں۔ لیکن اس پر پہلے تو شعیب منصور نے کہا کہ وہ تو صرف اصلی کرداروں کے ساتھ ہی کام کریں گے ورنہ جائیں کسی اور سے ”ڈائریکٹ“ کروا لیں یہ ڈرامہ۔

اور دوسرا پھر نوبل پرائیز کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے بھی کہا کہ اگر نوبل پرائیز ڈرامے کا حصہ بنانا ہے تو اصلی طالبان ہی استعمال کرنے ہوں گے۔

وہ کہتے تھے کہ نقلی طالبان کے خلاف نوبل پرائیز دیتے ہوئے وہ کانفیڈینٹ محسوس نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ بہت غیر اخلاقی حرکت ہے کہ نوبل پرائیز ایک نقلی طالبان کے خلاف دیا جائے۔

طالبان کے اندر سے کوئی اور لڑکا اتنا دلیر نہیں تھا کہ وہ سکول جاتی ہوئی لڑکیوں کا سامنا کر سکے۔ (آپ کو تو پتا ہے کہ طالبان سکول جاتی ہوئی لڑکیوں سے کتنا ڈرتے ہیں، اسی لیے تو انہوں نے لڑکیوں کے سکولوں کو سرے سے ہی ختم کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری) اس لیے اسی طالب کے ساتھ بھی گزارا کرنا تھا۔

تو مسائل بہت گمبھیر تھے۔ مسرت احمد زیب صاحبہ اس سارے چکر میں تھوڑی سی کننفیوز ہو گئیں اور غصے میں آ کر اپنا رول کرنے سے ہی انکار کر دیا۔

کہنے لگیں بھاڑ میں جائے نوبل پرائیز، میں جا رہی ہوں۔ پی ٹی آئی جائن کروں گی اور ریحام خان سے بھی ملاقات رہے گی۔ ادھر زیادہ مشہوری کا چانس ہے۔

انہیں اس وقت تک ریحام خان کے مشہور اینکر بننے کا اندازہ ہو چکا تھا۔

خیر تو ڈرامہ صرف ملالہ کے رحم و کرم پر رہ گیا۔ اور پھر اس نے آدھا نوبل پرائز ساتھ میں ایک انڈین ہندو ستیھارتی جی کو دے کر پاکستان کی رہی سہی عزت کا بھی جنازہ نکال دیا۔

ملالہ ڈرامے کا ایک اہم کردار ڈاکٹرز تھے، بھانت بھانت کے ڈاکٹر۔ لیکن آپ کو بتاؤں سارے ڈاکٹروں کو علم نہیں تھا کہ یہ ڈرامہ ہے یا حقیقت۔

اور پھر شعیب منصور کی ضد یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر اصلی ہوں تو وہ ہدایت کاری کریں گے ورنہ جائیں کسی اور سے کروا لیں۔

خیر وہ تو شکر ہے کہ میڈیکل ڈاکٹر کو ”داؤ“ لگانا بہت آسان ہوتا ہے۔

بیماری کے بارے میں مریض اپنے کسی حکیم کو دھوکہ نہیں دے سکتا لیکن ڈاکٹر کو چیٹ کرنا تو مریضوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر لوگوں کو تو آپ نے جو بتانا ہے وہی انہوں نے یقین کرنا ہے۔ اور دوائی لکھ کر دے دینی ہے۔

لیکن حکیم لوگ مریضوں سے دھوکہ نہیں کھاتے۔ کیونکہ وہ تو مریض کی بات پر یقین نہیں کرتے۔ مریض جو مرضی ہے بتائے لیکن وہ خود جب تک نبض پر ہاتھ رکھ کر مریض کے اندر موجود ساری بیماریوں کا مکمل اور صحیح اندازہ نہ لگا لیں، دوائی نہیں دیتے۔ اس لیے سوات، پشاور اور برمنگھم تک ڈاکٹروں کو جو بتاتے گئے وہ یقین کرتے گئے۔ اسی حساب سے اپریشن وغیرہ بھی ہوتے گئے اور سارا معاملہ اتنا اچھا ہو گیا کہ حقیقی لگنے لگا اور دنیا کے بہت سارے بے وقوفوں کو ذرا برابر بھی شک نہیں۔

آخر میں شعیب منصور تھوڑے پریشان تھے لیکن حسب معمول خاموش رہے۔ کیونکہ انہوں نے تو یہ سارا کام آسکر کے لیے کیا تھا اور کیس نوبل پرائیز کمیٹی کے پاس چلا گیا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik