رسوا مت کیجیے


ڈینیئل بلیک ایک اچھا خاصا صحت مند نوجوان تھا۔ فارغ وقت میں اسے سائیکلنگ کرنے کا بہت شوق تھا۔ جیسے ہی پڑھائی یا نوکری وغیرہ سے فرصت ملتی وہ پیڈل گھماتا سائیکلنگ کلب پہنچ جاتا یا اکیلا ہی کسی نہ کسی مہم جوئی کو نکل پڑتا۔ وہ زندگی سے بہت مطمئن تھا اور فارغ وقت کو بھرپور انجوائے کرتا تھا۔ ایک دن سائیکل چلاتے ہوئے پیچھے سے آتی کسی گاڑی نے اسے ٹکر مار دی۔ وہ ہوا میں اچھلتا ہوا دور جا گرا، کئی جگہ چوٹیں آئیں، لیکن وہ ہوش میں تھا۔ لیٹے لیٹے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا دایاں بازو اور ٹانگ حرکت نہیں کر رہے ۔ وہ حرکت پھر کبھی نہیں ہوئی۔ اٹھارہ ماہ اس نے ہسپتال میں گزارے لیکن وہ بس اس حد تک ٹھیک ہوا کہ وہیل چیئر کے سہارے اپنے تھوڑے بہت کام کر سکتا تھا۔ روزمرہ زندگی کے بہت سے کاموں میں اب بھی اسے کسی نہ کسی کی مدد چاہیے ہوتی تھی۔ وہ اس لیے پورا ٹھیک نہ ہو سکا کہ جو آخری آپریشن اس کا ہونا تھا اس میں تقریباً پچاس ہزار پاؤنڈ لگنا تھے اور وہ ان اٹھارہ ماہ میں بالکل پھانک ہو چکا تھا۔ اس کے پاس ایک نئی میز کرسی خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے کجا وہ پچاس ہزار پاؤنڈ ہسپتال والوں کو دیتا۔
بہت سوچ سمجھ کر اس نے لوگوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کا چلنا پھرنا تو ویسے ہی گھر تک محدود تھا، دنیا سے اس کا رابطہ نرا کمپیوٹری تھا۔ ڈین نے کمپیوٹر کو ہی استعمال کرنے کا سوچا۔ اس نے مختلف ویب سائٹس پر جا کے اپنی کہانی شیئر کی اور لوگوں سے التجا کی کہ وہ اس کی جتنی ہو سکے مدد کریں۔ اگر نہ بھی کریں تو کم از کم اس کہانی کو پھیلا دیں کہ ایک اچھا بھلا چلتا پھرتا آدمی کس طرح سے بیڈ رڈن ہو چکا ہے اور ہر کام کے لیے دوسروں کا محتاج ہے ۔ اس کی یہ داستان مختلف چیریٹی ویب سائٹس پر بھی پہنچی اور کسی نہ کسی طرح تین چار برس میں اس نے انچاس ہزار پاؤنڈ جمع کر لیے ۔ اب اس کے سٹیم سیل ٹریٹمنٹ کی راہ میں صرف ایک ہزار پاؤنڈ حائل تھے ۔
جس ویب سائٹ پر ڈین بلیک نے اپنی کہانی لکھی وہیں ایک بچے کے والدین نے اپنا کیس بھی لکھا ہوا تھا۔ وہ بچہ چھ برس کا تھا اور وہ اب تک چل نہیں سکتا تھا۔ اس کی ہڈیوں میں کچھ ایسا نقص پیدا ہو گیا تھا کہ وہ پورے جسم کا بوجھ نہیں اٹھا پاتی تھیں۔ اسے بھی لگ بھگ وہی علاج اور اتنی ہی رقم درکار تھی جتنی بلیک کو ضرورت تھی۔ “میں جانتا ہوں کہ چلنا کیا ہوتا ہے ، میں اپنے پیروں پر چل سکتا تھا۔ بریکن ابھی بہت چھوٹا ہے ، اسے مجھ سے کہیں زیادہ ان پیسوں کی ضرورت ہے ۔” اس کومنٹ کے ساتھ بلیک نے اپنے جمع کیے ہوئے تمام پاؤنڈز بریکن کے والدین کو ٹرانسفر کر دئیے ۔
چھوٹے بچے بریکن کی ماں اگر میڈیا کو یہ سب نہ بتاتی تو بلیک کی یہ قربانی کبھی بھی ہمیں معلوم نہیں ہو سکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ بلیک نے یہ سب خود کیوں نہیں دنیا کو بتایا؟ اس نے تو اپنا سارا اثاثہ، اپنے ٹھیک ہونے کی مکمل امید، اپنے چلنے پھرنے کے سارے خواب، اپنی صحت مند زندگی کی ہر امنگ، ایک نارمل روٹین پر آنے کا ہر خیال ان پیسوں کے ساتھ دان کر دیا۔ جب اس نے اتنی بڑی قربانی دی تو آخر اس نے یہ بات مشہور ہونے کے لیے استعمال کیوں نہیں کی؟ صرف اس لیے کہ یہ خالصتاً اس کے اپنے جذبات تھے، اپنی فیلنگز تھیں جو وہ دوسروں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ خاموشی سے مدد کرنا چاہتا تھا اور اس نے کر دی۔ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوتی کہ دائیں نے کیا دے دیا اگر بریکن کی ماں میڈیا تک یہ خبر نہ پہنچاتی۔ یہ برطانیہ میں رہنے والے ایک نوجوان کی کہانی تھی جس نے ایک امریکی بچے کی خاموش مدد کی۔
فرنود عالم دوست سے بڑھ کر بھائی ہیں، بھائی سے بڑھ کر دوست ہیں، وہ جو بھی ہیں، کل انہوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں ایک غریب عورت کو چند مخیر حضرات آٹے کی بوری دے رہے تھے ۔ ساتھ یہ الفاظ لکھے ، “اس تصویر کو دیکھیں۔ آٹے کی ایک بوری ہے ، اس کے پیچھے آنکھیں جھکائی ہوئی عمر رسیدہ مجبوری ہے ۔ اس کے گرد ایک خلقت کھڑی ہے جو اپنی نیکی اور خاتون کی لاچاری کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا چاہتی ہے ۔ کچھ نہ دیکھیں، مائی کے چہرے پر دیکھیں۔ دیکھیں کہ اس پر کیا گزر رہی ہے ۔ لوگوں سے منہ چھپانا پڑ رہا ہے ۔ کیمرے سے آنکھیں چرانی پڑ رہی ہیں۔ اس کے بچے بھوکے ہیں، انہیں روٹی چاہئے ۔ ماں نے کسی بھی طور آب و دانہ کرنا ہے ۔ ماں کے پاس جو آخری سکہ دستیاب ہے وہ عزت نفس ہے ۔ روٹی دینے والوں نے اس سے وہ سکہ وصول کرنا بھی ضروری سمجھا ہے ۔ اے نیکی کرنے والو۔ اے نیکی کرنے والو۔”
ایک طرف وہ نوجوان تھا اور دوسری طرف یہ تصویر ہے ۔ ایک طرف بل گیٹس اور مارک زکر برگ اپنی کمائی کا اسی نوے فیصد سادگی سے دان کرتے ہیں دوسری طرف ہمارے مخیر حضرات ہیں۔ بل گیٹس اٹھائیس ارب ڈالر سے زیادہ رقم اب تک ڈونیٹ کر چکے ہیں جو دنیا بھر کے مختلف فلاحی پراجیکٹس میں لگی ہوئی ہے ۔ مارک زوکر برگ، کل کا بچہ، فیس بک کا مالک، اپنی آمدنی کا ننانوے فیصد حصہ جو اربوں ڈالر بنتا ہے ، اسے وقف کر چکا ہے ۔ آج بھی اس کی جو ویڈیو آتی ہے وہی گرے سی ٹی شرٹ میں لگڑ بگڑ بنا ہوا کھڑا ہوتا ہے ، دو تین جینز ہیں دو تین شرٹیں ہیں اللہ اللہ خیر سلا۔ اب ایک نظر ادھر ڈال لیجیے ۔
رمضان سے پہلے مختلف گھروں کے باہر کڑکتی دھوپ میں لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ کیا ہوا ہے ؟ صاحب راشن بانٹ رہا ہے۔ بھئی بہت نیک کام ہے لیکن ذرا طریقے سے کر لیجیے ، کچھ چھاؤں کا بندوبست ہو جائے ، کچھ بیٹھنے کا سین ہو جائے ، سکون سے لوگوں کو راشن دے دیجیے ۔ پھر یہ قطاریں سارا سارا دن بھی کھڑی دیکھی جاتی ہیں۔ یہ افسوس ناک سٹیٹس سمبل ہے ۔ بیواؤں کو سلائی مشین دینی ہے تو تصویر کھچے گی، چاول کی بوری دیں گے تو چھتیس بندے ساتھ تصویر کھچوائیں گے ۔ سیلاب زدگان کی مدد کریں گے تو بڑے بڑے پوسٹر لگ جائیں گے ۔ قربانی کے جانور کے ساتھ سیلفیاں اپ ڈیٹ ہوں گی، خانہ کعبہ کی طرف کمر ہو گی اور احرام کے ساتھ مقدس سیلفی سوشل میڈیا پر لگائی جائے گی۔ کیا ہے بھائی یہ سب کیا ہے ؟ لوگوں کی مدد کرنا یا کوئی مذہبی فریضہ ادا کرنا قطعی طور پر آپ کا ذاتی فعل ہے ۔ اگر قسمت سے کوئی آپ کی امداد کا محتاج ہو ہی گیا ہے تو اسے اس قدر ذلیل مت کیجیے ۔ اطمینان سے راشن پانی اس کے گھر جا کر دے دیجیے یا اپنے گھر بلائیے تو انہیں خدا کا مہمان سمجھیے ۔ خیرات، صدقات، زکوٰۃ آپ کے وہ معاملے ہیں جن کا ثواب ملنا ہی ملنا ہے۔ تصویریں کھینچ کر آٹے کی بوریوں اور غریبوں کو رسوا مت کیجیے ، خدا بہتر اجر کا وعدہ کرتا ہے ۔

(بشکریہ: روز نامہ دنیا)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain