مشال خان کا سامان گھر آتا ہے!
ایک خستہ حال چارپائی پر بیٹھا ہے
بیٹے کے اثاثہ جات آج وصول کر لئے ہیں
ایک لفافہ ہے
کچھ کرنسی نوٹ ہیں
کل ملا کے دو سو ستر روپے
لرزتے ہاتھوں سے
کاغذ کے یہ ٹکڑے
الماری میں رکھ دے گا
مشال خان نے آخری سگریٹ خریدتے ہوئے یہ نوٹ
گن کر بٹوے میں رکھے تھے
سو سو روپے کے دو نوٹ
ایک پچاس کا روکڑا
اور کچھ ریزگاری
کل دو سو ستر روپے
دیانت اور غربت کے درمیان خلیج بیان کرتے ہیں
ایک نظم لکھے گا
پختون زلمے
اگر جیب میں صرف 270 روپے ہوں تو
حق کے لئے آواز نہ اٹھانا
اس دیس میں اب باچا خان پیدا نہیں ہوتے
عبدالولی خان یونیورسٹی میں اشتعال کا درس دیا جاتا ہے
سچ کا بھاؤ گر گیا ہے
منافقت اور ریاکاری
کا بھاؤ چڑھ گیا ہے
قصہ خوانی کا قہوہ بد ذائقہ ہو چکا ہے
کارخانو ایمان میں بہت رونق ہے
ضمیر بیچو،
اپنے گلے پھاڑ کر چیخنا سیکھو
اور اپنی آنکھیں لال کر لو
پختون ولی کے پیڑ میں ملائیت کا کیڑا لگ گیا ہے
کانپتے ہاتھوں سے اس کی قمیص اٹھاتی ہے
اس کا رومال چھوتی ہے
اس کی آنکھیں خشک ہو چکی ہیں
اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا ہے
اسے ڈر ہے کہ
اچانک مشال خان شہید کے کپڑے
اس کی بے گناہی کے لہو میں لال ہو جائیں گے
مشال خان کی بہن
بالکل خاموشی سے
اس کی کتابیں سلیقے سے اوپر تلے رکھ رہی ہے
اس نے مشال خان کی کوئی کتاب کھول کر نہیں دیکھی
اسے ڈر ہے کہ
ان کتابوں میں کہیں سچ کا وہ ٹکڑا رکھا ہے
جو پتھر بن کر مشال خان پر برسایا گیا
ان کتابوں میں کہیں مشال خان کا جرم لکھا ہے
مشال خان کی بہن اب کالج نہیں جا سکتی
مشال خان کی بہن کتاب سے ڈرتی ہے
قلم کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس کی سسکی سنائی دیتی ہے
اس گھر میں کتاب اقبال خان لایا
اس گھر میں مشال خان نے کتاب بند کر دی
مشال خان کی گلی کے ایک مکان میں
ایک اداس لڑکی چپ چاپ بیٹھی ہے
اسے ڈر لگ رہا ہے
مشال خان کے سامان میں کہیں وہ خط نہ نکل آئے
ہاسٹل کے پتے پر بھیجا تھا
معصوم گل جانہ نہیں جانتی
اگر عبدالولی خان یونیورسٹی میں
کسی کے نام محبت نامہ پہنچ سکتا تو
قاتل ہجوم کی آنکھ میں جلتے انگارے
مشال خان پر پھول برساتے
- سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے - 22/07/2023
- مذہبی روادری کیسے کیسے نبھائی گئی - 22/11/2022
- کربلا کی داستان کا ایک کردار زعفر جن - 05/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).