گلا گھونٹنے کا موسم !


پہلے ہم جیسے سمجھتے تھے کہ یہ بس ہمارا مسئلہ ہے۔ مگر اپنے اردگرد دیکھ کر اطمینان سا ہوتا ہے کہ ہم اکیلے نہیں۔ ٹیکنالوجی بھلے کوئی بھی ہو اس کا اصل ہدف آواز اور سوال کا نشانہ باندھنا ہے۔ جب صرف اخبارات کا زمانہ تھا تو شروع شروع میں حکومتوں کو بھی تمیز نہیں تھی لہٰذا وہ فوری طور پر اخبار کا اشاعتی اجازت نامہ منسوخ کر دیا کرتی۔ پھر کسی نے حکومتوں کو سجھایا کہ اشاعت پر پابندی کا سارا فائدہ اخبار کو جاتا ہے اور پابندی کے بعد وہ منہ در منہ زیادہ شایع ہوتا چلا جاتا ہے اور مفت میں بدنام سرکار ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی تکنیک استعمال کرو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ سنسر کی قینچی اناڑی پن سے مت چلاو۔ اخبار کی کاپی سے خبریں اکھاڑ کے خالی جگہ مت جانے دو۔ سب دنیا جان جائے گی کہ کوئی اہم خبر سنسر ہوئی ہے۔ اگر یہی کرنا ہے تو سنسر شدہ خبر سے خالی ہونے والی جگہ کو کسی بے ضرر خبر سے ضرور پر کراو۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور تمہارا کام بھی ہو جائے گا۔

خبردار! گستاخ اور بدتمیز اخبارات ہرگز ہرگز بند مت کرو بس ان کے اشتہارات روک لو، کاغذ کا کوٹہ کم کر دو یا پرنٹنگ پریس کو چھاپنے سے زبانی منع کر دو انشاللہ نتائج وہی نکلیں گے جو تم چاہتے ہو اور لوگوں کے سامنے تاویلات پیش کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ اگر اخبار پھر بھی سخت جان نکلے تو اس کا بندوبست بذریعہ عدالت ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے مبہم قوانین بناو جن میں قومی سلامتی، اہم اور حساس اداروں پر بے جا تنقید اور دوست ممالک کی پالیسوں کو ہدف بنانا قابلِ سزا جرم قرار دو۔ یوں ہینگ اور پھٹکڑی کے بغیر بھی رنگ چوکھا آ جائے گا۔

پھر دور بدلا۔ گلوبل ولیج کا غلغلہ شروع ہوا۔ سرکاری کی جگہ نجکاری کا فیشن چل نکلا۔ ظاہر ہے زمانے کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی نجی ہونا تھا سو کرنا پڑا۔ اب نجی میڈیا کیسے کنٹرول کیا جائے؟ لائسنس منسوخ کر دیں تو آزادیِ صحافت پر حملے کی دھونس سے ڈرایا جاتا ہے۔ کیا کریں؟ طریقہ بہت ا?سان ہے۔ جن مالکان کا اصل روزگار میڈیا کے بجائے کاروبار اور تجارت ہے وہ تو صرف ایک دھمک کی مار ہیں۔ مگر میڈیا کا خون اتنا لذیذ ہے کہ چوہے کے منہ کو بھی لگ جائے تو خود کو شیر سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے کچھ مستقل انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ تو پھر کیوں نہ ان چینلوں میں انسانی روپ میں ایسے پروگرامڈ چپ فٹ کر دیے جائیں جو کھائیں اًن کا اور گائیں ہمارا۔

یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے اور اب کم ازکم پاکستان کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ چھید بھلے درجن بھر ہوں مگر بانسری ایک ہے۔ پہلے میڈیا کے لیے نو گو ایریاز کی تعداد چند تھی اب جب سے بانسری کے سروں کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوجی ہاتھ آ گئی ہے تو بھلے میڈیا کوئی بھی لے نکالے سننے والے کے کانوں تک وہ صرف راگ درباری کی شکل و صورت میں ہی پہنچے گی۔

مگر ہمیں قطعاً شرمندہ ہونے یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر بہت ہی ڈیپریشن ہو جائے تو اپنے آس پڑوس میں دیکھ کے دل کو تسلی دے لیں۔ آپ کے ملک کی سرحد جن چار ممالک سے لگتی ہے ان میں سے تین (چین، افغانستان اور ایران) میں تو بانسری بھی سرکار دیتی ہے اور بجانے والا بھی سرکار۔ اس حد تک تو نج کاری ہے کہ ہو سکتا ہے یہ بانسری کوئی نجی کمپنی تیار کرے۔ مگر سپیسی فکیشن حکومت ہی فراہم کرتی ہے۔ رہا ہمارے چوتھے ہمسائے بھارت کا معاملہ تو وہاں تو حالات اور برے ہوتے جا رہے ہیں۔
پچھلے تین برس کے دوران نوے فیصد بھارتی میڈیائی اداروں نے اپنے ہاتھ سے ہی اپنی مانگ میں ریٹنگ کا سیندور بھر کے ہندوتوا کا تلک لگا لیا ہے۔ رہ گئے این ڈی ٹی وی جیسے گنے چنے نشریاتی ادارے جو اب تک ہاتھ پاوں چلانے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کے لیے سی بی آئی (بھارتی ایف آئی اے) کا رسہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ دوسری بات کہ خود سی بی آئی کے بارے میں بھارتی سپریم کورٹ چھ برس پہلے ہی رولنگ دے چکی ہے کہ یہ پنجرے میں بند وہ طوطا ہے جو صرف مالک کے کہے الفاظ دہراتا رہتا ہے۔ (پاکستانی سپریم کورٹ بھی ایف آئی اے کے بارے میں اس سے مختلف رائے نہیں رکھتی)۔

مگر اسی دنیا میں ایسے بڑے نشریاتی ادارے بھی ہیں جنھیں نتھ ڈالنا کسی اکیلی حکومت کے بس سے باہر ہے اور یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی گٹھ جوڑ سے کم پر بات نہیں بنتی۔ مثلاً عرب دنیا جو پچھلے ساڑھے تین ہزار برس سے تنقید اور دشمنی میں فرق سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے اس میں اگر الجزیرہ جیسا ایک نشریاتی عجوبہ پیدا ہو جائے تو پر تو پھڑپھڑائیں گے۔ بائیس برس پہلے دوحہ میں قائم ہونے والے اس چینل نے اب سے چھ برس پہلے عرب اسپرنگ میں جو کردار ادا کیا اس کے بعد تمام برادر ممالک کا ایسی نشریاتی شرپسندی کا قلع قمع کرنا تو بنتا ہے۔

اگر الجزیرہ نہ ہوتا تو آج قطر کی ناکہ بندی اتنی مکمل نہ ہوتی۔ برادر ممالک کے ہتھیار بیرونی حملہ تو روک سکتے ہیں مگر خیالات اور متبادل رائے کے میزائل سے نمٹنے کے لیے ایٹم بم بھی ناکارہ ہے۔ چنانچہ قطر سے اب جو بھی مذاکرات ہوں گے ان میں پہلی شرط یہی ہو گی کہ الجزیرہ کی ادارتی پالیسی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اب تو ٹرمپ بھی اسی خیال کا حامی ہے۔ امریکا کے سیاسی و قانونی ڈھانچہ پر اگر بس چلے تو میاں ٹرمپ کو بدزبان امریکی میڈیا پر ٹینک چڑھانے میں صرف چوبیس گھنٹے لگیں گے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہر جانب میڈیا کو گل گھوٹو وائرس کا سامنا ہو اور سچائی کے بلاد کار کے لیے متبادل سچ (یعنی سفید جھوٹ) کا نظریہ ایجاد ہو چکا ہو تو پھر یہ لڑائی محض چند ریاستی اداروں اور میڈیا کی کھینچا تانی نہیں رہتی۔ اب یہ لڑائی د ہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے مینیو کا حصہ ہے۔ اور اس راہ میں جمہوری و غیر جمہوری ریاستوں کی تمیز تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔

امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں ان حالات میں امید کا لفظ استعمال کرنے سے کیوں پرہیز کر رہا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).