توجہ کی ایک نظر ادھر بھی!


تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس طرح سارے جسم کا بوجھ اس ریڑھ کی ہڈی پر ہوتا ہے اسی طرح تعلیم بھی کسی ملک و قوم کی ترقی اور بقا کے لیے ضروری ہے۔

پچھلے ہفتے پنجاب کے ایک سکول کی صورتحال ٹی وی چینل پر دکھائی گئی۔ انھوں نے یہ سروے کہ ’تعلیم سب کے لیے‘ منصوبے کے حوالے سے پیش کیا۔ اس سلسلے میں جب اس سکول کے طلبا سے گفتگو کی گئی اور کچھ بنیادی نوعیت کے سوالات پوچھے گئے اور اس کے جواب میں جس لاعلمی کا اظہار کیا گیا اس سے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان بچوں کے مستقبل سے کیوں اور کون کھیل رہا ہے؟ ہمارے ملک میں اس وقت ایجوکیشن کے جو نظام چل رہے ہیں، ان میں مدرسہ، میٹرک سسٹم، آغا خان بورڈ، اور کیمبرج سسٹم شامل ہیں۔ ان پر بات کرنے سے پیشتر اگر ملک میں ہونے والے امتحانات پر بھی نظر ڈال لی جائے کہ جس میں نقل کو روکنے کے لیے ہر روز امتحانی مراکز پر چھاپے مارے گئے اور صرف چھاپے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ کچھ طالبات کو پولیس وین میں بٹھا کر سارے شہر کا گشت کروایا گیا، یعنی طالبات اشتہاری ملزم بلکہ مجرم قرار پائیں، کیا ان کا جرم اتنا سنگین تھا؟ اس جرم کی سنگینی کو دیکھنے سے پہلے ضروری ہے تعلیم کے موجودہ نظام کو دیکھ لیا جائے۔

میٹرک سسٹم کے طلبا کی ایک جھلک تو یہ ہے جو اس ٹی وی چینل کے رپورٹر نے دکھائی جس میں ان طلبا سے سوال کیا کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کون ہیں تو جواب آیا شہباز شریف پھر سوال کیا گیا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم کون تھے؟ تو جواب آیا پتا نہیں۔ پھر جب ان طلبا سے قومی ترانہ سنانے کے لیے کہا گیا تو وہ بھی انھیں یاد نہیں تھا، جب وہاں موجود اساتذہ سے یہ سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں ہے؟ تو ان کے مطابق کیونکہ طلبا کو امتحان کے حوالے سے ہی پڑھایا جاتا ہے، لیکن صرف امتحان کے حوالے سے ہی کیوں؟ اس لیے کہ جو کچھ نصاب میں شامل ہے وہ تین گھنٹے کے پرچے میں لکھا جانا ازحد دشوار ہے، سلیبس اس لحاظ سے تو معیاری کہا جا سکتا ہے کہ اس میں جو مضامین شامل ہیں وہ معیاری ہیں مگر نصاب کی بھر مار اور طوالت نے اسے بوجھل اور خشک بنا دیا ہے۔

بعض مختصر مضامین جو کہ کسی بھی مضمون کا اقتباس ہوتے ہیں کہ جن کے’نہ ابتدا کی خبر اور نہ انتہا معلوم‘’ یعنی ان کے سیاق سباق سے یہ پتا چلانا ممکن نہیں ہوتا کہ لکھنے والا کیا کہنا چاہتا ہے۔ طرہ یہ کہ پڑھانے والا استاد نہ تو اس قابل ہے کہ وہ اسے جان سکے، یعنی اس کی اپنی تعلیمی استعداد بھی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اس پر محنت کریں اور نہ ہی وہ یہ کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ انھیں نہ کوئی دیکھنے والا اور نہ ہی پوچھنے والا۔

میں چونکہ ایسے سکول میں پڑھاتی رہی ہوں جہاں میٹرک سسٹم کو بھی پڑھانے کا اتفاق ہوا، کیمبرج سسٹم کو بھی ان دونوں سسٹم کے طلبا میں جو واضح فرق نظر آتا ہے، وہ نالج کا ہے۔ میٹرک سسٹم کے طلبا اپنی کتابوں سے بھی واقف نہیں، نہ انھیں اس بات میں دلچسپی ہے کہ کتاب میں کیا لکھا ہے۔

اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ یہاں ہر روز اس بات کا تو شور اٹھایا جا رہا ہوتا ہے، کہ تعلیم کے ان دو سسٹم کی وجہ سے دو طبقات پیدا ہو رہے ہیں، بالکل ہو رہے ہیں میں بھی اس بات کو مانتی ہوں مگر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟

میٹرک کے سیلبس کے معیار کو دیکھا جائے تو یہ کسی طور بھی معمولی درجے کا نہیں ہے، پھر یہ طلبا کیمبرج سسٹم کے طلبا کے مقابلے میں اتنے لا علم کیوں ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف ہمارے وہ اساتذہ ہیں جو جماعت میں پڑھانا تو درکنار جانا بھی پسند نہیں کرتے دوسرا یہ کہ تعلیمی اداروں میں جن لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے ان کا حال یہ ہے کہ جس کو کہیں ملازمت نہیں ملتی وہ استاد بن جاتا ہے یہ سب حالات اس لیے ہیں کہ سفارش اور رشوت دے کر یہ لوگ با آسانی ملازمت حاصل کر لیتے ہیں جب ٹیچرز کے نالج کا یہ حال ہوگا تو وہ آگے کیا علم دیں گے۔

تعلیم بنیاد ہے کسی بھی مقام کو حاصل کرنے کے لیے اور اگر کسی عمارت کی بنیاد ہی کمزو ر ہوگی تو باقی عمارت کس طرح قائم رہ سکے گی، مگر افسوس یہاں ان لوگوں کو ملازمت دی جاتی ہے جو نااہل ہیں اگرچہ اور اداروں میں بھی ایسا ہی ہے، لیکن تعلیمی اداروں میں ایسا ہونا بہت بڑی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔

اب ذرا کیمبرج سسٹم کے طلبا کو بھی دیکھ لیجئے کہ ان میں معیار تعلیم کیوں بہتر نظر آتا ہے اسکی بڑی وجہ یہ کہ ان کے پڑھانے والے اساتذہ تعلیمی اعتبار سے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ درست طریقے سے طلبا کی رہنمائی کرتے ہیں دراصل ان اساتذہ کو سفارش پر ملازمت نہیں ملتی اس لیے صرف وہ ہی لوگ پڑھانے کے لیے آتے ہیں جو اس لائق ہوتے ہیں، پھر اس پر طلبا سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ محنت سے پڑھیں گے۔ دوسرا یہ کہ ان کا سلیبس اس انداز سے ترتیب دیا جاتا ہے جو ایک طالب علم کی عمر، اس کی ذہنی استعداد کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے، یہاں صرف کتابیں لادنا مقصد نہیں ہے، اس کے علاوہ پرچے میں پوچھے گئے سوالات جو کہ مشقی سوالات نہیں ہوتے جس میں ایک حد مقرر کردی جاتی ہے کہ کتنے الفاظ اور نکات میں جواب تحریر کیا جائے، یہاں مقدار کی بجائے معیار کو ترجیح دی جاتی ہے، اس کے بعد طلبا کو نقل کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔

اس کے علاوہ امتحان لینے کا طریقہ کار یعنی طلبا کو پتا ہے کہ امتحانی مرکز میں نقل نہیں ہو سکے گی اور نہ گریڈ حاصل کرنے کے لیے کوئی سفارش چل سکے گی۔

دوسری طرف اس بات کا بھی گلہ کیا جاتا ہے کہ جب سے تعلیم کو پیسے کے حصول کا ذریعہ بنایا گیا، تب سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں، چلئے مان لیتے ہیں لیکن کیا ان طلبا کی تعلیمی حالت کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ تعلیم انھیں کسی اچھی ملازمت کے حصول میں مدد دے سکے گی، جواب یقینا نفی میں ہی آئے گا، یقین جانئے یہ طلبا کسی صورت ذہانت میں ان طلبا سے کم نہیں، ضرورت ہے متعلقہ نظام کی جس میں نصاب سے لے کر امتحان کے طریقہ کار اور قابل اساتذہ کی تعیناتی تک پورے نظام کا اسر نو جائزہ لیا جائے ورنہ قابل اور نوجوان طلبا کی ایک بڑی کھیپ امتحانات کے دوران پولیس موبائل میں ایک مجرم کی حیثیت سے سوار ہوکر وہ دہشت گرد پیدا کرے گی جن کے خاتمے کے لیے کسی بھی طرح ڈرون حملے بھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).