گھمسان کا رن پڑنے والا ہے


پاناما کیس کی مزید تفتیش اور تحقیق کے لئے بننے والی جے آئی ٹی کے معاملات روز بہ روز گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب سوالات کی نوعیت بدل گئی ہے۔ خبروں کی سرخیاں تبدیل ہو گئی ہیں۔ بریکنگ نیوز کے انداز بدل گئے ہیں۔ اب کوئی یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ کتنی رقم باہر گئی تھی ؟فلیٹ کہاں سے خریدے؟ نیسکول اور نیلسن کا معاملہ کیا ہوا؟ منی لانڈرنگ ہوئی ہے یا نہیں؟ شریف خاندان کے اثاثہ جات کی تفصیلات کیا ہیں؟ مریم نواز شریف کا کیا کردار ہے؟ حسین اور حسن نواز کون سا کاروبار کر رہے ہیں؟ اب معاملات مختلف ہو گئے ہیں۔ اب بحث کا مرکز یہ ہے کہ توہین کتنی ہونی ہے؟ تضحیک کس طرح کرنی ہے؟

کاغذات ، ثبوت، پیشیاں اور دلائل اب بے معنی سے لگتے ہیں۔ اس سارے عمل کے پیچھے اب کچھ اور ہی عوامل کارفرما نظر آرہے ہیں۔

 اگر اس جے آئی ٹی کے حوالے سے خبروں پر ایک نظر ڈالیں تو بات مشکوک ہوتے ہوتے اب یقینی ہو گئی ہے۔ وٹس ایپ کالزپر منتخب کیئے گئے من پسند لوگ بلا شبہ اس جے آئی ٹی کی پیشانی پر داغ ہیں۔معاملات کے منصوبہ ساز کی دانش کی داد دیجئے کہ ابھی جے آئی ٹی کا قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا کہ خفیہ ہاتھ اپنی کارگزاریوں میں مصروف ہو گئے۔ ایسے لوگ جو شریف خاندان سے ذاتی عناد رکھتے تھے یا جن کا ماضی خود بے داغ نہیں تھا ،وہ اس جے آئی ٹی میں چن چن کے اکھٹے کیئے گئے۔ مطلوبہ نتائج کے حصول کی خاطر، نہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ، نہ نامور وکلاءاور ججز سے مشورہ کیا گیا۔ بس ایسے ہی اچانک چند لوگ منظر عام پر آگئے جن کے ہاتھ میں بقلم خود انصاف کی تلوار تھی اور جن کی واحد کوالیفکیشن شریف خاندان سے عناد تھا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کا مرحلہ گزرا تو پیشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ اس ملک کے کتنے لیڈر ہیں جو اقتدارسنبھالنے کے باوجود اس طرح اپنی اولاد کا تماشا اڑتا دیکھ سکتے ہیں۔ حسین نواز کو بار بار طلب کیا۔ اتوار کے دن چند گھنٹوں کے نوٹس پر حاضری کا حکم دیا گیا۔ اس قسم کی پیشیوں پر پہلے وقت دیا جاتا ہے۔ پوچھے جانے والے سوالات کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ مطلوبہ کاغذات کی فراہمی کی پہلے سے اطلاع کی جاتی ہے۔ لیکن جب انصاف کے تقاضے پہلے ہی مرحلے میں پاوں تلے روند دیئے گئے ہوں تو ان قانونی باتوں کا کس کو ہوش رہتا ہے؟حسین نواز کی پیشی کے دوران ایمبولینس پہنچانے کی خبر سامنے آگئی۔ ایک ایمبولینس گئی ضرور تھی مگر کس کے لئے اور کس کے کہنے پر یہ بات آج تک پوشیدہ ہے اور پوشیدہ ہی رہے گی۔ سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا، الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوز چل گئیں۔ مریم اورنگزیب نے جب تک پریس کانفرنس کر کے معاملات کی تصیح نہیں کی اس وقت تک لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا کہ کرپٹ لوگ احتساب سے خوفزدہ ہو گئے۔ شوگر ملوں کے مالک کی شوگر ڈاون ہو گئی۔ یہ خبریں کون نکالتا ہے ؟کس کی ان معاملات تک رسائی ہے؟کون ایمبولینس بلانے کا مجاز ہے ؟اس پر بدقسمتی سے کبھی بات نہیں ہو سکے گی۔ ایمبولینس کا معاملہ تھما تو حسین نواز کی تصویر سامنے آگئی۔ یہ تصویر کس نے لیک کی؟ سوشل میڈیا پر کیسے آئی؟ اس کمرے تک رسائی کس کی تھی؟سی سی ٹی وی کی مانیٹرنگ کون کر رہا تھا؟ اس پر بات کرنے کا یارا کسی میں نہیں تھا۔ بھلا ہو جیو اور نیوز کے سینئیر صحافی عمر چیمہ کا جنہوں نے نیوز میںاس پر سٹوری کی اور واضح الفاظ میں بتا دیا کہ جے آئی ٹی کے سارے معاملات کا کنٹرول وزارت دفاع کے ہاتھ میں ہے۔عمر چیمہ کی بات کا یقین اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ واحد صحافی ہیں جن کو اس جے آئی ٹی میں دو دفعہ پیش ہونے کا موقعہ ملا اور بہت سے کاغذات پر ان کی تصدیق کی مہر ثبت ہے۔

جے آئی ٹی کے معاملات اس قدر مشکوک ہونے کے بعد نہال ہاشمی، مشاہد اللہ اور رانا ثنا اللہ سامنے آگئے۔ جمہوری اداروں کے پیش نظر خطروں کو بھانپ کو ان لوگوںنے سخت زبان استعمال کی۔ جس کا نوٹس بھی لیا گیا۔ کسی کو عدالت میںپیش ہونے کو کہا گیا ،کسی کو غنڈہ ، بدمعاش کہا گیا اور کسی کو غدارقرار دیا گیا۔حسین نواز تصویر کے لیک ہونے والے معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں چلے گئے اور دوسری جانب جے آئی ٹی کے ارکان کی جانب سے بھی یہ شکایت زور پکڑ گئی کہ ہم پر دباو ڈالا جا رہا ہے۔ کار سرکار میں مداخلت کی جا رہی ہے۔

یہ تو تھی اب تک کی کارروائی کہ کیا ہو چکا ہے لیکن یہ بات ابھی مکمل نہیں ہے۔ مکمل نتائج تک پہنچنے کے لیے ماضی کے دروازے پر دستک دینا ہو گی۔

صاحبان، یہی ملک تھا ، یہی عدلیہ تھی اوریہی قانون تھا ، جب ایک ڈکٹیٹر نے چیف جسٹس کو اپنے دفتر میں بلا کر نوکری سے برخواست کیا، اس کو گھر میں نظر بند کر دیا ،پولیس والوں نے اس کو بالوں سے پکڑ مجرموں کی ویگن میں بٹھا یا۔ یقین مانئے، اس وقت اسی عدلیہ کے چند لوگوں نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا تھا اور جلدی سے حلف لے لیا تھا ۔صاحبان، یہی ملک تھا ، یہی عدلیہ تھی ، یہی قانون تھا اوریہی عدالتیں تھیںجب ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا تھا۔ اس دفعہ معاملہ منی لانڈرنگ کا نہیں تھا۔ آف شور کمپنیاں زیر بحث نہیں تھیں۔ کسی فلیٹ کی خریداری کا معاملہ نہیں تھا۔ مقدمہ آئین شکنی کا تھا۔ مقدمہ جمہوریت پر شب خون مارنے کا تھا۔ الزام اس ملک کے کروڑوں لوگوں کے ووٹوں کو اپنے پاوں تلے روندنے کا تھا۔ لیکن ساری عدالتیں ، سب سیاسی جماعتیں، قانون کے ادارے تماشا ہی دیکھتے رہے اور کسی مائی کے لال کی جرات نہیں ہوئی کہ عدالت میں چند پیشیاں ہی کروا دے۔ ہم سب نے دیکھاکہ اس وقت ایمبولینس کمر درد کے بہانے آ جاتی تھی۔ لمحوں میں مطلوبہ میڈیکل رپورٹ دستیاب ہو جاتی تھیں۔ ایسے ہسپتالوں میں مہینوں کے لیئے داخلے ہو جاتے تھے جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔ اس ملک کے عوامی اداروں یا افراد سے کسی کی جرات نہیں تھی کہ انصاف کا نعرہ بلند کر سکے۔ سب ادارے بے بس ہو گئے۔ سب نظام معطل ہو گیا مگر عدالت میں پیشیاں نہیں ہوئیں، کوئی تصویر لیک نہیں ہوئی۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ باوجود ہزار مخالفت کے ڈکٹیٹرصاحب اس ملک سے باعزت طوربغرض علاج سدھار گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک سے رخصت ہوتے ہی کمر درد کو بھی آرام آگیا اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کا آ غاز بھی ہو گیا۔صاحبان، یہی ملک تھا ، یہی عدلیہ تھی ، یہی قانون تھا ، یہی عدالتیں تھیںجب ایک ڈکٹیٹر کے اکاونٹس میں موجود اربوں ڈالر کے بارے میں کسی نے سوال کرنے کی جرات کی تو جواب آیا کسی مائی کے لال کی جرات نہیں کہ میرے اثاثوں پر بات کرے۔پھر نہ کوئی جے آئی ٹی بنی، نہ عدلیہ نے نوٹس لیا، نہ کرپشن کا نعرہ لگا اور نہ احتساب کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔حق بات تو یہ ہے کہ اس بیان کے بعد کسی مائی کے لال کی جرات نہیں ہوئی ۔ہمت ہی نہیں پڑی۔ حوصلہ ہی نہیں ہوا۔

صاحبان جب احتساب کے نام پر صرف عوامی نمائندوں کی تضحیک اور توہین کا اہتما م ہو گا ، جب ایمپائر کا کام لیگ ایمپائر کو سونپ دیا جائے گا تو عوام کی نظر میں یہ سارا عمل مشکوک ہو جائے گا۔ اب معاملات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتاکہ فیصلہ شریف فیملی کے حق میں آئے یا مخالفت میں دونوں صورتوں میں فائدہ شریف خاندان کو ہی ہوگا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ لوگ اب اتنے بے وقوف نہیں رہے جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے۔

جے آئی ٹی کے ممبران کی شعلہ بیانی سے جتنا مرضی اختلاف کر لیں لیکن یہ بات انکی درست ہے کہ اس ملک کو گمنام گاڈ فادر چلاتے ہیں اور یہاں مافیاکی حکومت ہے اگر چہ معزز ممبران جے آئی ٹی اب تک یہ بات عوام کو بتانے میں قاصر ہیں کہ مافیا کی اس نگری میں عوامی نمائندے قطعا بے بس ہیں۔ہمیں نہال ہاشمی، مشاہد اللہ اور رانا ثنا اللہ کی گیدڑ بھبھکیوں کی بالکل کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہےے یہ آوازیں پہلے بھی قلعوں کی سنگلاخ دیواروں کے پیچھے قید کر دی گئیں تھیں اب بھی ان سر پھروں کو چپ کروانا گاڈ فادر کے لئے اتنا دشوار نہیں۔

شکوک و شبہات میں جنم لینے والی اس جے آئی ٹی کا مستقبل کیا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے، تو آئندہ چند دنوں میں ، جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے مابین ،گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar