جمہوری ثقافت کے فروغ میں تعلیم کا کردار        


محترم وجاہت مسعود صاحب کا کالم نظر سے گزرا جس میں انہوں نے جمہوری ثقافت کے فروغ میں جنسی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت اور کامیاب فلاحی معاشرے کے لیے ہر شہری کا خواندہ اور باشعور ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواندگی کا تناسب خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے۔ اس صورتحال میں یہ تصور کرلیناکہ جمہوریت جنسی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے غیر مستحکم ہے یا عوام کا مزاج یا رویہ جنسی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جمہوری نہیں ہے، وطن عزیز کے حوالے سے درست نہیں ہے۔ کیونکہ جہاں عوام کی اکثریت بنیادی تعلیم سے محروم ہو، وہاں جنسی تعلیم کی بنیاد کیسے رکھی جائے۔ مشاہدہ یہی ہے کہ جنسی بے راہ روی پر مبنی مواد تو کھل عام سرکاری سرپرستی میں دستیاب ہے یا انٹر نیٹ پر موجود ہے جس سے بڑوں سے لے کر بچے تک محظوظ ہوکر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو گھن لگا رہے ہیں۔

جس ملک میں ناخواندہ افراد کی اکثریت کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون ہوں اور یہ عقل بھی ہو کہ کس طرح فحش ویب سائٹس تک رسائی ہوسکتی ہے تو وہ جمہوریت کو بھی اسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے فحش ویب سائٹس کو دیکھتے ہیں اور جمہوریت میں کسی بھی قبیح فعل کو نظر انداز کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ صنف نازک سے تعلق رکھنے والی سیاست دانوں کو ناخواندہ تو ناخواندہ، خواندہ افراد اور ان کے رفیق کار مرد سیاست دان کن نظروں سے دیکھتے ہیں اور رویہ اختیار کرتے ہیں، میڈیا اس کا گواہ ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا جہاں خواندگی کا تناسب نچلی سطح پر اور فحش ویب سائٹس دیکھنے کا تناسب اوپری سطح پر ہے۔ یہی حال علمائے کرام کا ہے منبر سے زنا کا قصہ خوب فصاحت و بلاغت کے ساتھ پیش کرنے کے بعد جب حد جاری ہونے کا بیان جاری کرتے ہیں تو بندہ کانپ ہی تو جاتا ہے۔

تعلیم کسی بھی شعبے کی ہو اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اسی لیے ہر کامیاب معاشرے میں بنیادی تعلیمی نصاب اورنظام اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ طالب علم کو ابتدائی جماعتوں میں ہی یہ سبق مل جاتا ہے کہ معاشرے کا مفید شہری کس طرح بنا جاسکتا ہے اور معاشرے میں میل جول کے دوران رنگ، نسل، زبان اور جنس کی بنیاد پر تفریق نامناسب عمل ہے۔

 وطن عزیز میں جمہوری ثقافت (کلچر) کے نہ پنپنے کی بنیادی وجہ تعلیمی نصاب و نظام یک رنگی نہ ہونا ہے۔ طبقاتی تعلیمی نصاب و نظام روز اول سے وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے جیسے محترم وجاہت مسعود صاحب نے اپنے کالم میں جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے پر زور دیا ہے لیکن جس ملک میں طبقاتی تعلیمی نصاب و نظام ہو وہاں جنسی تعلیم بھی طبقاتی بنیادوں پر دیے جانے کا امکان ہے۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ سب سے پہلے طبقاتی تعلیمی نصاب و نظام کا خاتمہ کیا جائے اور ایسا نصاب بنایا جائے جس میں شخصی آزادی، جنسی تعلیم و شعور تاکہ کسی بھی جنسی استحصال سے بچا جاسکے کو خصوصی طور پر نصاب کا حصہ بنایا جائے لیکن یہ فوائد ہم اسی وقت حاصل کرسکتے ہیں جب وطن عزیز کے ہر بچے کو اس کا بنیادی تعلیمی حق دیا جائے۔ اگر حکومت وقت ایسا ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرے تو وقت آنے پر قوم کا مزاج بھی جمہوری ہوسکتا ہے اور جمہوریت عوام کا اعتماد بھی حاصل کرسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).