میں اور میرے بنگالی دوست


“بھوکا بنگالہ ” یہ وہ لفظ تھا جِس نے بچپن میں بنگالی سے میرا تعارف کرایا۔ یہ پنجابی زبان کی ضرب المثل ہے یا مثال دینے کا لفظ ہے۔ جب کسی شخص کی غربت اور بھوک کی انتہا کی مثال دینی ہوتی ہے تو لوگ “بھوکا بنگالہ ” لفظ کے ذریعے بنگالی کو غربت کے ماڈل کے طور پر پیش کر تے ہیں۔ کسی زندہ بنگالی کو ملنے سے پہلے میرے ذہن میں اْس کی جو تصویر بنتی تھی اس میں وہ قحط کا مارا فاقے کاٹ کاٹ کر سوکھ کر کانٹا ہوا، پھٹے پرانے کپڑے، پائوں سے ننگا اور رحم مانگ مانگ کر اس کا چہرہ بگڑ گیا ہے۔ اس کے سانولے رنگ کی وجہ سے اس پر بدصورتی کی مہر بھی لگا دی گئی تھی۔

میں نے پہلا جیتا جاگتا بنگالی 1960 میں دیکھا۔ یہ ہڑپا کے تین کمروں کے ہسپتال میں آ کر ڈاکٹر لگا تھا یہ ہسپتال تو بس نام ہی کا تھا نہ کوئی دوا نہ کوئی عملہ سارا دن ہڑ پہ کے آوارہ کتے یہاں آ کر سوئے رہتے تھے۔ ڈاکڑ تو یہاں کبھی کسی نے دیکھا ہی نہیں تھا کمپاؤڈر ہی ڈاکٹر ہوتا تھا۔ یہ بنگالی پہلا ڈاکٹر تھا جو واقعی ڈاکٹر تھا۔ وہ یہاں انقلاب لے آیا۔ ہسپتال زندہ ہو گیا دوائیں آ گئی عملہ حاضر ہو گیا۔ کْتے غائب ہو گئے اور مریضوں کی قطاریں لگ گئی۔ یہ ڈاکٹر انتہائی محنتی، انسان دوست، خوش اخلاق، منکسر اور لالچی نہیں تھا کئی غریبوں کو مفت ٹیکے لگا دیتا تھا۔ یہ بہت جلد علاقے کا نہ صرف ہیرو بن گیا بلکہ نوجوانوں کا آئیڈیل بھی بن گیا۔ اس کے ساتھ کئی کہانیاں جڑ گئی کہ اس کے میں ہاتھ میں شفا کے ساتھ ساتھ روحانی طاقت بھی تھی کچھ لوگ اسکو پیر بھی ماننے لگ پڑے۔

بنگالی کے ساتھ جڑی بدصورتی کی تعصب کی باتیں بھی غلط ہو گئی تھیں کیوں کہ یہ ڈاکٹر نا تو سوکھا سڑا تھا اور نہ ہی کالا۔ اس کا قد کاٹھ اور رنگ پنجابیوں جیسا تھا۔ یہ نہ جانے کتنی پنجابی لڑکیوں کا آئیدیل بن گیا، اْن میں سے کتنی اس پر عاشق ہوئی اس بات کا صحیح علم تو شاید کسی کو نہیں ہے لیکن علاقے کی ہر سندر لڑکی بارے کہا جاتا کہ وہ بنگالی ڈاکٹر کےساتھ پھنسی ہوئی ہے۔ اِس  نے آکر بنگالی کی منفی تصویر تہس نہس کر دی۔

شائد اسی ڈاکٹر کا اثر تھا کہ میرا محمد ابو خورشید عالم کے ساتھ رابطہ ہوا۔ یہ دیناج پور کے کسی اقبال ہائی اسکول میں پڑھتا تھا اس کا پتہ مجھے بچوں کے ایک رسالے کے قلمی دوستی کے صفحے سے ملا اور میری اس سے قلمی دوستی ہو گئی۔ میں ہر ہفتے ایک پوسٹ کارڈ لاتا اور لکھ کر بھیج دیتا اور جواب کا انتظار کرنے لگتا۔ میں اس کو اپنی ہر بات بتاتا اور وہ مجھے اپنی۔ یوں وہ میری روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ بن گیا اور آج تک میری یاداشت میں محفوظ ہے۔ جب بھی مشرقی پاکستان میں کوئی سیلاب آتا تو میں فوراً اس کے بارے یوں فکر مند ہو جاتا تھا جیسےوہ میرا کوئی قریبی رشتےدار ہو۔ میٹرک کےبعد 1966 تک یہ دوستی رہی پھر میرا اس سے رابطہ کٹ گیا لیکن وہ ہمیشہ میرے لا شعور میں رہا۔ اس کے ساتھ میرے جذباتی رشتے کی ایک مثال 1971 تھی۔ میں جب بھی بنگلہ دیش میں قتل وغارت کی خبریں سنتا تھا تو مجھے اس بات کی فکر لا حق ہو جا تی تھا کہ خدا کرے وہ خیریت سے ہو۔ جیل میں مجھے ہر وقت اس کی فکر لگی رہتی۔ پاکستان کے میڈیا میں بنگلہ دیش کے بارے میں زیادہ تر خبریں نہیں ہوتی تھیں لیکن آل انڈیا ریڈیو سےخبریں ملتی تھیں۔ میں دیناج پور کے بارے میں خبر کی کھوج میں ہمیشہ رہتا تھا۔ وہاں کیا کیا ہوا؟ کتنے لوگ مارے گئے؟ میں دل ہی دل میں اس کی خیریت کی دعا مانگتا۔

آج بنگلہ دیش کو آزاد ہوئے 46 سال ہو گئے ہیں اور وہ بوڑھا بھی ہو چکا ہوگا لیکن میرے خیالوں میں اس کی ابھی تک وہی پرانی تصویر ہے جب وہ اقبال ہائی اسکول میں پڑھتا تھا۔ مجھے لا شعوری طور پر ابھی بھی اسکی فکر لگی رہتی ہے۔ 2012 میں جب میں فرینڈز آف فریڈم وار کا انعام لینے ڈھاکہ گیا تو وہ میرے ذہن میں تھا اور میری خواہش تھی کہ میں دیناج پور جاؤں اور اس کو تلاش کروں۔ اگرچہ میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی لیکن یہ آج بھی زندہ ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ اگر وہ مجھے زندہ سلامت مل جائے تو اس کےبارے میں جو فکر میں نے 1962 سے پال رکھی ہے مجھے اس سے آزادی ملے۔

میں میٹرک پاس کر کے لاہور آ گیا اور ایم اے او کالج میں داخل ہو گیا۔ ہوسٹل میں میری ملاقات ایک بنگالی سٹوڈنٹ سے ہوئی یہ سائنس کا سٹوڈنٹ تھا اور اسکا نام جمال تھا۔ کالج میں کسی کو بھی بنگالی زبان نا آنے کی وجہ سے یہ سٹوڈنٹس کے ساتھ اردو اور انگریزی میں بات کرتا تھا۔ اس کالج میں زیادہ تر سٹوڈنٹس نچلے یا نچلے درمیانے طبقے کے تھے جو اردو میڈیم اسکولوں سے پڑھ کر آئے تھے اور پنجابی بولتے تھے ان کو انگلش آنا تو دور کی بات تھی انہیں تو اردو بھی اچھی طرح نہیں آتی تھی۔ جمال نے ان کے ساتھ انگریزی بولنی شروع کر دی لیکن جن پنجابی سٹوڈنٹس کےساتھ یہ بات کرتا تھا ان کو انگریزی نہیں آتی تھی لیکن وہ اس بات کو راز ہی رہنے دینا چاہتے تھے۔ یہ جمال کے ساتھ بات کرنے سے کترانے لگے جب اٌس کو اس بات کا علم ہوا تو اسنے انگریزی چھوڑ کر اردو بولنی شروع کر دی لیکن بدقسمتی سے جمال کو اردو اچھی نہیں آتی تھی اس کے علاوہ اس کا لہجہ بھی بنگالی تھا جس میں اردو کے کئی حرفوں کی آوازیں بنگالی تھی جسکی وجہ سے اسکی اردو بھی کالج کے سٹوڈنٹس کو سمجھ نہیں لگتی تھی۔ اگر تو وہ کوئی امریکی، انگریز یا عربی ہوتا تو یہ سٹوڈنٹس اس کی ٹوٹی پھوٹی اردو سمجھنے پر زور بھی لگاتے لیکن یہ تو ” بھوکا بنگالہ ” تھا اس کے لئے کون تردد کرتا انہوں نے اسکا مذاق اڑانا شروع کر دیا یوں وہ دھیرے دھیرے سٹوڈنٹس سے کٹتا گیا۔ میری جب اس سے ملاقات ہوئی تو جمال تنہائی اور بیگا نگی کا بْری طرح شکار تھا اور آدھا پاگل ہو چکا تھا اور کوئی نشے والی دوا بھی کھاتا تھا۔ وہ تھا تو سائنس سٹوڈنٹ لیکن فن، لٹریچر اور سیاست بارے بہت کچھ جانتا تھا اور بہت ذہین پینٹر بھی تھا۔ وہ اکثر یہ بات کہتے ہوئے رونے لگتا کہ وہ پاکستانی ہے لیکن زبان کی وجہ سے غیر ملکی ہے وہ اپنے ہی ملک میں نسل پرستی کا شکار ہے۔ یہ عجیب ملک ہے جہاں اکثریت کے ساتھ اقلیت نسل پرستی کا سلوک کرتی ہے۔ مغربی پاکستان میں لوگوں کو غیر ملکی زبانیں آتی ہیں۔اردو، عربی، فارسی، انگریزی، کچھ کْچھ فرنچ بھی لیکن اس ملک کی اپنی قومی اور اکثریت کی زبان بنگالی کسی کو نہیں آتی۔

جمال زیادہ دن اس عذاب کو برداشت نہ کر سکا اور ایک دن اْس نےنیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی۔ اسکی لاش کئی دن تک کمرے میں بند پڑی رہی۔ بدبْو پھیلنے سے پتہ لگا تو اسکی گلی سڑی لاش کو عیسائی جمعداروں سےاْٹھوا کر بغیر غسل کفن اور جنازے کے دفنا دیا گیا۔

جمال کی موت علامت کے طور پر sybolicallyاس ملک کی موت تھی۔ وہ میرا گرو تھا جو مجھے بتا گیا تھا کہ جیسے جبر نا انصافی اور نسل پرستی کے ساتھ یہ ملک چلایا جا رہا تھا اس نے زیادہ دیر نہیں چلنا۔ اس ملک کی قومیتوں اور اْن کی زبانوں کو مار کر زیادہ دیر تک اس ملک کو قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس ملک کے قائم رہنے کی ایک ہی شکل تھی جمہوری ریاست ہائے متحدہ پاکستانunited states of Pakistan جس کی رابطے کی زبان بنگالی ہوتی۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).