فوج اپنا کردار واضح کرے!


پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے سرحدوں پر کسی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاک افواج ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے دورہ کے دوران پاک فوج کے دستوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی تعریف کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ بات دہرائی ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کی حمایت جاری رکھے گا۔ یوں تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے لیکن اب یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملات پر پاکستان کا سرکاری موقف بیان کرنے کا اختیار اور حق کسے حاصل ہے۔ ملک میں 2008 سے ایک طویل فوجی آمریت کے بعد جمہوری حکومت قائم ہے۔ 2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی اور 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد کے طور پر نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اس ساری مدت میں سیاسی رہنما اور فوجی قیادت یہ باور کرواتی رہی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کےلئے کام کیا جائے گا۔ اس کے باوجود ان 9 برسوں میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ اس ملک کا کوئی شہری یقین سے یہ کہہ سکا ہو کہ اب مملکت میں حکمرانی کے معاملات عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی بجائے کسی نہ کسی بہانے سیاسی لیڈروں کو ہراساں کرنے اور حکمران جماعت کو خاص حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرتے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ملک کی منتخب حکومت جب بھی کوئی غلطی کرتی ہے یا اس پر کوئی سیاسی الزام عائد ہوتا ہے تو ایک طرف ملک کے مختلف حصوں سے مختلف النوع تنظیمیں اور گروہ فوج کی حمایت میں مظاہرے کرنے اور بینر لگانے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔ یا یہ تقاضے ، خواہشات اور مطالبات سامنے آنے لگتے ہیں کہ پاک فوج کے سربراہ اس قوم کو لٹیرے سیاستدانوں سے بچانے کےلئے میدان میں آئیں۔ اگر ان مطالبات کو براہ راست فوجی حکومت قائم کرنے کی دعوت نہ بھی سمجھا جائے تو بھی ان سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ رائے عامہ کا ایک طاقتور حلقہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت اور رہنمائی ضروری سمجھتا ہے بلکہ وہ ہر فوجی سربراہ کو منتخب وزیراعظم کی گوشمالی کرنے کا اختیار بھی دینا چاہتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ فوج کے نمائندے اور ترجمان آج کل سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کی جانب سے فوج مخالف تبصروں اور آرا پر سخت چیں بچیں ہیں۔ حتیٰ کہ ملک کے وزیر داخلہ پوری جوش و خروش سے ان عناصر کا قلع قمع کرنے کےلئے سرگرم دکھائی دیتے ہیں لیکن جب بعض حلقوں ، گروہوں اور تنظیموں کی طرف سے جمہوری حکومت کے خلاف مہم جوئی کرتے ہوئے فوج کو غیر آئینی اقدامات کی دعوت دی جاتی ہے تو نہ فوج کو پریشانی لاحق ہوتی ہے اور نہ ہی ملک کی منتخب حکومت اور اس کے وزیروں کو یہ حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے غیر جمہوری اور کسی حد تک ملک دشمن نعرے لگانے والے یا بیان جاری کرنے اور مطالبے کرنے والوں کی گوشمالی کر سکیں۔ حالانکہ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں یہ بے حد ضروری ہے کہ جمہوری حکومت کا تخت الٹنے کے لئے فوج کو اکسانے والے عناصر سے نہ صرف فوج واضح طور سے لاتعلقی کا اظہار کرے بلکہ حکومت بھی ان مطالبوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ بات سامنے لائے کہ اب اس ملک میں صرف جمہوری نظام ہی کام کرے گا جو آئین کے تقاضوں کے مطابق موثر ہوگا۔ متفقہ طریقہ کار کے مطابق مقررہ وقت پر انتخابات ہوں گے اور عوام اپنی مرضی کے لوگوں کو منتخب کرکے یہ فیصلہ صادر کریں گے کہ کس پارٹی یا لیڈر کو حکومت سازی کا حق حاصل ہوگا۔

موجودہ صورتحال میں یہ ساری باتیں خواب و خیال لگتی ہیں۔ گو کہ ملک میں ایک منتخب حکومت قائم ہے لیکن گزشتہ چار برس کے دوران انتخاب نہ جیتنے والے سیاسی عناصر نے اس حکومت کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ ہو، اسلام آباد میں دھرنا ہو یا پاناما انکشافات کے بعد شروع ہونے والا سیاسی ڈرامہ ۔۔۔ دراصل اس کے نتیجہ میں منتخب وزیر اعظم کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی صورتحال 2008 سے 2013 کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں دیکھی گئی تھی۔ جب پارٹی کے ایک وزیراعظم کو معزول کیا گیا ۔۔۔۔ دوسرے کو مسلسل عدالت کے دباؤ میں رکھا گیا اور پارٹی کا معاون چیئرمین ملک کا صدر بننے کے باوجود بھی خود کو اور اپنی حکومت کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ حکومت بدلنے کے ساتھ ہی الزامات کی فہرست تو پرانی رہتی ہے لیکن ملزموں کے طور پر نئے نام جو اتفاق سے ملک کے حکمران بھی ہوتے ہیں سامنے آ جاتے ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ آصف زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے ملک و قوم کے خلاف جو ‘سازشیں‘ کی تھیں، ان کا حساب لیا جائے۔ یا ان کے خلاف بدعنوانی کے معاملات کا فیصلہ کیا جائے۔ سیاستدان ہوں یا عدالتوں کے جج، انہیں صرف برسر اقتدار لوگوں میں ہی کیڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف لوگوں میں منتخب رہنماؤں کے خلاف بدگمانی پیدا ہوتی ہے تو دوسری طرف امور مملکت متاثر ہوتے ہیں لیکن کوئی اس کی پرواہ کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔

موجودہ حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو زچ کرنے کےلئے وہ سارے ہتھکنڈے خوشی سے استعمال کر رہے تھے جن کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ حکومت کو کمزور اور بے بس رکھنا چاہتی ہے۔ اب وہی طریقے خود نواز شریف اور ان کی حکومت کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں تو وہ پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ اب ان کے مخالفین بڑھ چڑھ کر اس راستہ کو اختیار کرنا چاہتے ہیں جو خفیہ ہاتھوں کی مدد سے انہیں اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچا سکتا ہو۔ اس صورتحال کی ذمہ داری تو بہرصورت سیاسی جاہ پسندوں اور سیاسی لیڈروں کی کم نظری پر عائد کی جائے گی لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ فوج نے جمہوری عمل کے کسی دور میں منتخب قیادت کو پوری آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ یہ مزاج تبدیل کئے بغیر ملک میں جمہوریت کی کامیابی اور سیاسی لیڈروں سے بہتر کارکردگی کی امید کرنا عبث ہو گا۔ اس کے برعکس فوج کے کمانڈر بہرطور یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ قومی مفادات کے اصل رکھوالے وہ ہیں۔ اسی لئے عوام میں بھی یہ تاثر پختہ کر دیا گیا ہے کہ جمہوری لیڈر تو بس گلچھرے اڑانے، مزے کرنے اور سیاسی طاقت کے ذریعے فائدے اٹھانے کےلئے حکومتوں میں آتے ہیں۔ ملک کی حفاظت اور قومی مفادات کا اصل تحفظ تو فوج ہی کرتی ہے۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ فوج ملک کے دفاع کی ذمہ دار ہے لیکن اس قوم کے وسائل صرف کرکے فوج کو اس کام کےلئے متعین کیا گیا ہے۔ فوج کا ادارہ مملکت کے باقی تمام اداروں کی طرح ملک کے آئین اور منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کی طے شدہ پالیسی کے مطابق عمل کرنے کا پابند ہے۔ لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ فوج اس اصول کے برعکس منتخب لیڈروں کو یہ باور کرواتی رہتی ہے کہ وہ صرف اس وقت تک حکومت کرنے کے مجاز رہیں گے جب تک فوج انہیں کام کرنے کی اجازت دے گی۔

یہ تحقیق طلب موضوع ہے کہ یہ تاثر کیوں قائم ہوا اور اسے مسلسل جاری رکھنے کےلئے کیوں کام کیا جاتا ہے۔ ملک میں پے در پے آئین شکن فوجی حکومتوں کی وجہ سے بھی یہ سوچ راسخ ہوئی ہے۔ کچھ کردار عوام کے احساس عدم تحفظ اور سیاستدانوں کی خود غرضی نے بھی ادا کیا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ فوج نے اس تاثر کو راسخ کرنے میں بالواسطہ ہی سہی مسلسل کام کیا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوج کے تعلقات عامہ کے شعبہ کے ذریعے اپنا ایک خاص امیج سامنے لانے کےلئے کام کیا۔ ان کے تین سالہ دور کے بیشتر وقت میں یہ بات عام طور سے کی جاتی رہی کہ وہی قوم کے نجات دہندہ ہیں۔ اس طرح انہیں ملک کی مقبول ترین شخصیت کی حیثیت بھی حاصل رہی کیونکہ ایک طرف جنرل راحیل شریف کی کردار سازی کےلئے مہم زوروں پر رہتی تھی تو دوسری طرف منتخب حکومت کے خلاف سیاسی مظاہرے ، احتجاج اور الزامات کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ حتیٰ کہ 2014 کے دھرنوں میں اگر منتخب حکومت اور جمہوری نظام محفوظ رہ سکا تو اس کا کریڈٹ بھی آرمی چیف کو ہی جاتا تھا۔ گویا اگر کوئی آرمی چیف منتخب حکومت کو کام کرنے کا حق دیتا ہے اور غیر آئینی اقدام نہیں کرتا تو یہ اس کا احسان ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ یا عہدے کی مدت میں توسیع کے حوالے سے تواتر سے خبریں سامنے آتی رہیں اور مباحث ہوتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق تمام قواعد و ضوابط سے استثنیٰ حاصل کرتے ہوئے سعودی عرب کی طرف سے کثیر مشاہرہ پر ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کا سربراہ بننے کی پیشکش قبول کرلی۔

یہ ایک اہم سیاسی فیصلہ تھا۔ نومبر میں ملک کے آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے جنرل کو چند ماہ بعد ہی ایک غیر ملک میں فوجی خدمات کےلئے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن فوج چونکہ اسے بہترین قومی مفاد کےلئے کارگر سمجھتی تھی، اس لئے منتخب پارلیمنٹ اس پر کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں رہی اور ڈان لیکس اور پاناما کیس میں الجھی حکومت فوج کی کسی خواہش کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ قومی معاملات میں فوج کو فیصلے کرنے اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کی یہ روایت ایک طرف ملک میں جمہوریت کےلئے سم قاتل ہے تو عالمی سطح پر بھی اس کے وقار اور حیثیت کو متاثر کرتی ہے۔ اب یہ ضروری ہے کہ فوج سنجیدگی سے یہ طے کرلے کہ اسے حکومت اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے کام کرنا ہے یا مسلسل منتخب حکومتوں کو اپنے اشاروں پر چلانا ہے۔ ماضی قریب کے تجربات سے موجودہ طریقہ کار کے نقائص سامنے آ چکے ہیں۔ ملک علاقائی اور عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ تین ہمسایہ ملکوں سے فوجی تصادم کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے اور پاکستان کی کسی بات کو عالمی سطح پر کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہی واضح نہیں ہے کہ ملک پر کس کی حکومت ہے اور کون فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔ ملک کا وزیراعظم بھی کسی معاملہ پر کسی غیر ملکی طاقت سے بات کرتے ہوئے کوئی وعدہ کرنے اور اسے وفا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں اہم معاملات پر گفتگو شجر ممنوعہ بن چکی ہے۔ میڈیا سیاستدانوں اور حکومت کے درمیان تماشہ لگانے کےلئے مداری کا کردار ادا کرنے تک محدود ہو چکا ہے۔ ایسے میں قومی مفادات کی تشریح اور ان کی حفاظت فوج نے اپنی ذمہ داری میں لے رکھی ہے۔

اس پس منظر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی غیر متنازعہ اور معمول کی باتیں بھی تشویش کا سبب بنتی ہیں۔ ان سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ فیصلے جی ایچ کیو میں ہوں گے یا پارلیمنٹ میں۔ اگر اس ملک کو کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ جنگ کرنی ہے تو اس کا فیصلہ کون کرے گا اور اگر امن قائم کرنا ہے تو اس کی شرائط کون طے کرے گا۔ قومی مفاد کو مقدس گائے بنا کر ہر گھڑی اس کی شکل و صورت اور ہیئت کا تعین کرنے کا اختیار فوج کو نہیں دیا جا سکتا۔ یا پھر اس ملک میں جمہوریت کو ناٹک قرار دے کر یہ بتا دیا جائے کہ یہ تماشہ تو لوگوں کی تفریح طبع اور ٹاک شوز میں تماش بینی کے مقصد سے رچایا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali