ایک قیدی اور کال کوٹھڑی کی چابی


اسے یاد نہیں کہ پہلی مرتبہ جب اسے اس کال کوٹھڑی میں لایا گیا تو وہ کتنے برس کا تھا۔ یہ بات اس کی یاد داشت سے محو ہو چکی تھی۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ کئی سال پہلے جب اسے اس کال کوٹھڑی میں بند کیا گیا تھا تو اسے فقط ایک حکم نامہ پڑھ کر سنایا گیا تھا جس کی رو سے تا حکم ثانی اب اسے یہیں قیام کرنا تھا۔ اس نے داروغہ جیل سے اس حکم نامے کی نقل مانگی تھی مگر اس کی درخواست یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ قانون کے مطابق قیدی کو اس حکم نامے کی نقل فراہم نہیں کی جا سکتی۔

تب اسے معلوم ہوا کہ وہ قیدی ہے۔ مگر یہ بات تو ویسے بھی اسے معلوم ہونی چاہیے تھی، آخر اسے قیدیوں کی طرح بیڑیاں پہنا کر ہی تو اس کوٹھڑی میں رکھا گیا تھا۔ پہلے پہل اس کا خیال تھا کہ یہ قید کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے، یہ لوگ کسی خطرناک مجرم کے دھوکے میں اسے پکڑ لائے ہیں اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا تو یقیناً یہ نہ صرف اسے با عزت طریقے سے رہا کردیں گے بلکہ اپنی غلطی کی معافی بھی مانگیں گے۔ یہی سوچ کر اس نے کئی برس اس قید تنہائی میں گزار دیے۔

وہ روزانہ صبح اس امید پر بیدار ہوتا کہ آج اسے اپنی رہائی کا پروانہ مل جائے گا مگر رات گئے تک جب ایسی کوئی خبر نہ آتی تو وہ مایوس ہو کر سو جاتا۔ داروغہ جیل، جو اس کی نگرانی پر مامور تھا، ایک نک چڑھا اور بیزار شخص تھا، وہ اس کی کسی بھی قسم کی بات کا جواب نہیں دیتا تھا۔ کبھی کبھی تو اسے یوں لگتا جیسے یہ داروغہ کوئی روبوٹ ہے جس کا کام فقط اس کال کوٹھڑی کی چوکیداری کرنا ہے۔ کوٹھڑی میں فقط ایک روشن دان تھا اور اس میں بھی موٹی سلاخیں یوں لگی تھیں کہ کسی انسان کے گزرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

کوٹھڑی کا دروازہ بھی بہت چھوٹا او ر تنگ تھا اور اس میں لگے تالے کی چابی ہمیشہ داروغہ کی جیب میں رہتی۔ کال کوٹھڑی میں قید شخص نے کئی مرتبہ سوچا کہ کس طرح اس جیل کو توڑ کر باہر نکلا جائے مگر ہر مرتبہ جب اس کی نظر داروغہ پر پڑتی تووہ لرز کر رہ جاتا۔ داروغہ ایک لمحے کے لیے بھی اس سے غافل نہیں ہوتا تھا، وہ ہمہ وقت چوکس رہتا اور پلکیں جھپکے بغیر پہرا دیتا تھا۔ ویسے داروغہ کو اس کوٹھڑی کی نگرانی کی چنداں ضرورت نہیں تھی مگر اس کے باوجود نہ جانے کیوں داروغہ کبھی یہاں سے اٹھ کر نہیں جاتا تھا۔

برس ہا برس میں قیدی اور داروغہ کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ قیدی کبھی کبھار اپنی رہائی کے بارے میں داروغہ سے استفسار کرتا تو اسے ایک ہی جواب ملتا کہ تمہارے متعلق ابھی کوئی نیا حکم نامہ نہیں آیا۔ اس سے زیادہ وہ کبھی کچھ نہ کہتا۔ الفاظ بھی ہمیشہ یہی رہتے، داروغہ ان میں زیر زبر پیش بھی تبدیل نہ کرتا۔ گو کہ قیدی اس بات عادی ہو چکا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوا تھا۔ کچھ کچھ عرصے بعد وہ اپنی قید سے متعلق حکم نامے کی نقل مانگتا یا پھر اپنی رہائی کے متعلق داروغہ سے سوال کرتا۔ حالانکہ اسے اچھی طرح علم ہوتا کہ ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی داروغہ کا جواب وہی ہوگا جو وہ کئی برسوں سے دیتا آیا ہے۔

اتنے برس گزرنے کے باوجود داروغہ کے لہجے کی اجنبیت اور روکھا پن ویسے کا ویسے ہی تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے قیدی کے لیے اس کے دل میں کسی قسم کے کوئی جذبات نہیں۔ وہ ہمیشہ سپاٹ چہرے کے ساتھ کال کوٹھڑی کے سامنے بیٹھا رہتا۔ کبھی کبھار قیدی اسے کسی قانون یا ضابطے کا حوالہ دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا تو بھی داروغہ کے چہرے پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہ ہوتا اور وہ قیدی کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیتا۔

کئی برس مزید گزر گئے۔ اب قیدی کے چہرے پر جھریاں چھا گئی تھیں اور وہ بوڑھا ہو گیا تھا۔ داروغہ کی عمر بھی ڈھلنے لگی تھی۔ اب اس کے لہجے میں پہلے جیسی سختی اور کڑک پن نہیں رہا تھا۔ ایک روز قیدی نے اسی طرح داروغہ سے پوچھا کہ کیا اس کی رہائی کا حکم نامہ جاری ہوا؟ جواب میں داروغہ نے کہا کہ نہیں، کوئی نیا حکم نامہ جاری نہیں ہوا، آج بھی تمہارے لیے وہی حکم ہے جو پہلے دن تھا۔ کئی برس کے بعد پہلی مرتبہ داروغہ نے اپنے جواب میں کچھ مختلف الفاظ استعمال کیے تھے۔ قیدی کے لیے یہ بات غیر متوقع تھی چنانچہ اس نے موقع کا کا فائدہ اٹھا کر بات آگے بڑھائی اور پوچھا کہ کیا کبھی یہ حکم نامہ واپس بھی لیا جائے گا؟ داروغہ نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ یہاں حکم نامے تبدیل نہیں ہوتے۔

”تو کیا میں ساری زندگی یہیں قید رہوں گا؟ قیدی نے بے بسی سے سوال کیا۔
داروغہ نے پہلی مرتبہ قیدی کے چہرے کی طرف دیکھا مگر کوئی جواب نہیں دیا اور پھر اپنی کرسی سے اٹھ گیا۔

”تم کہاں جا رہے ہو؟“ قیدی نے حیرت سے پوچھا کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔
”آج میری ذمہ داری کا آخری دن تھا لہذا میں یہاں سے جا رہا ہوں۔“ داروغہ نے جواب دیا۔

”مگر میری رہائی کیسے ممکن ہو گی؟ کیا تمہاری جگہ کوئی دوسرا اہلکار میری رہائی کا حکم نامہ لائے گا؟“ قیدی نے بوڑھی آواز میں کانپتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔“
”تو کیا میں کبھی یہاں سے رہائی نہیں پا سکوں گا؟“ قیدی نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔

”جب تمہاری قید کا حکم نامہ تمہیں کبھی دکھایا نہیں گیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ رہائی کا حکم نامہ کبھی تمہیں دیا جائے!“ داروغہ نے کھردرے لہجے میں جواب دیا اور کال کوٹھڑی کے دروازے کی چابی جیب میں ڈال کر قیدی کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada