پاکستان اسلام کا قلعہ کیوں ہے؟


محمد حنیف نے دسمبر 2013 میں کراچی کے انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کی بیسویں تقسیمِ اسناد کی تقریب میں صدارتی خطاب دیا تھا۔ اس خطبے میں پاکستان میں آرٹ اور آرکیٹیکچر کے مستقبل کے علاوہ انڈس ویلی سکول کے ہونہار طالب علموں کے مستقبل کی بھی بات ہوئی۔ لیکن اسی خطبۂ صدارت میں کہیں سے ایک بھینس بھی آ بھٹکی، علامہ اقبال کا بھی ذکر ہوا، جزا سزا کے معاملات پر بھی رائے زنی ہوئی اور اس معاشرے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا جس میں اس نئی پود نے پلنا ہے۔ اس دلچسپ خطبے کا متن بی بی سی کے شکریے کے ساتھ “ہم سب” کے پڑھنے والوں کی نذر۔

٭٭٭   ٭٭٭

بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے گریجویشن تقریب سے خطاب کی دعوت دے کر عزت بخشی۔ ایسی عزت مجھے ایک دفعہ پہلے بھی بخشی گئی تھی اور اس کے بعد مجھے بہت ڈانٹ پڑی۔ تیس پینتیس سال قبل ایک ہائی سکول میں مجھے طلبا کے نمائندے کے طور پر خطاب کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ میں نے خطاب میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی بھینس کا ذکر کر دیا اور خطاب ختم ہوتے ہی، بلکہ کچھ اساتذہ نے تو خطاب کے دوران ہی مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔

میں نے اس وقت تک تقریریں صرف مولوی حضرات کی سنی تھیں یا محلے کے سیاستدانوں کی۔ مولوی حضرات کی تقریروں میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کا تذکرہ ہوتا تھا، بحرِظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے وغیرہ اور سیاستدان ظلم کی داستانیں سناتے تھے اور گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کے نعرے لگواتے تھے۔

تیرہ چودہ سال کی عمر میں میرے ماضی میں کوئی شاندار کارنامے نہیں تھے، سمندر ہی نہیں دیکھا تھا اس میں گھوڑا کیسے دوڑاتے۔ سکول گاؤں میں تھا اور اس کی چار دیواری تھی نہیں تو کچھ مناسب نہیں تھا کہ میں نہ ہونے والی دیواروں کو گرانے کے لیے نعرہ لگاؤں۔ اس لیے میں نے اپنی تقریر میں اس ظلم کا ذکر کیا جو ہم پر روا رکھا جاتا تھا۔ وہ ظلم یہ تھا کہ آدھی چھٹی کے وقت جسے اس وقت تفریح بھی کہتے تھے، ہم طالب علموں کی یہ ڈیوٹی تھی کہ ہم ہیڈ ماسٹر صاحب کی بھینس کو نہلائیں۔

یہ کوئی اتنا بڑا ظلم نہیں تھا۔ ہمارے سکول میں ایکسٹرا کیوریکلر ایکٹیویٹی (غیر نصابی سرگرمی) کے نام پر صرف بھینس تھی جو سکول کے گراؤنڈ میں بندھی رہتی تھی۔ بھینس نے بھی نہلائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ آپ لوگوں نے بھینس صرف ٹیٹرا پیک کے ڈبے میں یا نہاری کی پلیٹ میں دیکھی ہوگی۔ تو میں آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ بھینس اپنے جذبات کے اظہار پر یقین نہیں رکھتی، بس بیٹھی جگالی کرتی رہتی ہے۔ تو ایک طریقے سے بھینس کو نہلانے سے ہیڈ ماسٹر صاحب بھی خوش، ہم بچے بھی خوش اور یہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ بھینس کا انگریزی نام واٹر بفیلو ہوتا یے۔ وہ بھلی مانس آرٹ سٹوڈنٹ تو تھی نہیں کہ نہلائے جانے پر اعتراض کرتی۔

لیکن تقریر بہرحال ہم نے کرنی تھی تو یم نے بھینس کا ذکر دبے لفظوں میں کیا اور اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے علامہ اقبال کا واحد شعر جو پورا یاد تھا وہ بھی پڑھ دیا۔ ہمارا اب یہ بھی خیا ل تھا کہ علامہ اقبال کے شعر کے بغیر کوئی تقریر ہو ہی نہیں سکتی۔ تو آپ بھی سنیے۔

کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا بنے اک ٹوٹا ہوا تارہ

چند اساتذہ نے کہا کہ ہم نے علامہ اقبال کی بے عزتی کی ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کا خیال تھا ہم نے بھینس کی بے عزتی کی ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مائیک ہمارے ہاتھ سے چھین کر کہا کہ ’ہم نے تجھے بولنا سکھایا، تمہارے منہ میں زبان ڈالی اور تو ہم سے ہی زبان درازی کرتا ہے‘۔ اس کے بعد انہوں نے بھینس کے درجات بیان کیے۔ ہم نے یہ سبق پلے باندھ لیا اور اس کے بعد نہ کبھی تقریر کی اور نہ ہی بھینس کو نہلایا۔

آج کل کے ہیڈ ماسٹر بہت سیانے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر نے مجھے حکم دیا کہ میں سات دن پہلے تقریر لکھ کر جمع کرواؤں جو کہ میں نے کی اور اس کے بعد سوچتا رہا کہ یا اللہ کہیں فیل تو نہیں ہوگیا۔ میری عمر میں انسان ڈانٹ صرف بیوی سے کھا سکتا ہے یا الطاف حسین بھائی سے۔

آپ (آرٹسٹوں) کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ آپ تخیل کی دنیا میں رہتے ہیں، سوچتے زیادہ ہیں اور کام کم کرتے ہیں، اپنے خیالوں کے گھوڑے دوڑاتے ہیں، جم نہیں جاتے، گھر کے کام میں ہاتھ نہیں بٹاتے۔ آپ سے یہ امید ہے کہ آپ میں سے کچھ صادقین بنیں گے، کچھ شاکر علی، کوئی عارف حسن بن کر ہمیں بتائے گا کہ یہ شہر کیسے بنتے ہیں، کوئی راشد رانا بن کر یہ دکھائے گا کہ شہر تباہ کیسے ہوتے ہیں۔

آپ میں سے کوئی ایڈورٹائزنگ میں جائے گا اور ہماری اپنی زمین کا پانی نیسلے کی بوتلوں میں بھر کر ہمیں بیچے گا۔ کوئی ہمیں دنیا کی سستی ترین موبائل فون کال بیچے گا، کوئی بحریہ ٹاؤن کو بے آباد جزیرے آباد کرنے کے گر سکھائے گا، شاید کوئی اس مخمصے میں پڑ جائے کہ بت تراشی حلال ہے یا حرام۔ شاید کوئی یہ بھی پوچھے کہ شریعت میں کونسیپچوئل آرٹ کی اجازت ہے یا نہیں۔ کوئی اپنے ہاتھوں سے کام کرے گا، کسے کے فن پارے بھٹیوں میں، ورکشاپوں میں مزدور اور کاریگر بنائیں گے۔

اس سے پہلے کہ آپ نیویارک اور پیرس کی گیلریوں میں اپنی نمائش کے لئے تصویریں کھنچوائیں، اس سے پہلے کہ آپ غریبوں کے لئے سستے گھر بنائیں جو گرمیوں میں سرد رہیں اور سردیوں میں گرم۔ اس سے پہلے کہ آپ ایک شاعرانہ نام والی کوئی نئی لان لانچ کردیں، میری آپ سے گزارش ہے کہ اس ملک کو، اس معاشرے پر ایک نظر ڈالیں، اس کے بارے میں جو آپ کو پڑھایا گیا ہے، بتایا گیا ہے، اسے سمجھیں، اور اگر سمجھ نہیں آتا تو اس پر سوال اٹھائیں۔ میں نے آپ کا کام آسان بنانے کے لیے ایک پانچ نکاتی ایجنڈا ترتیب دیا ہے۔ پانچ سوال جن کا جواب تو میرے پاس نہیں ہے لیکن میں آپ کی مدد سے ان کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔ پانچ سوال یہ ہیں:

1 کیا ہمارا ملک اسلام کا قلعہ ہے؟

۲۔ کیا ہماری قوم خدا کا تحفہ ہے؟

۳۔ ہم کیوں کہتے ہیں کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں؟

۴۔ کیا سگرٹ نوشی واقعی مضر صحت ہے؟

۵۔ اور سب سے اہم سوال اگر آرٹ گریجویٹ کا دل آرٹ سے بھر جائے، یا اگر وہ آرٹ بنائے اور اسے بیچ نہ پائے تو کھائے کہاں سے؟

آپ میں سے کچھ نے شعبہ تعمیرات میں تعلیم حاصل کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ عمارتیں اور بستیاں کیسے بنائی جاتی ہیں؟ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ قلعہ وہاں بنایا جاتا ہے جہاں دشمنوں کی مسلسل یلغار کا خطرہ ہو۔ اونچی فصیلوں اور بھاری دروازوں کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں پر شک ہوتا ہے کہ ہر اندر آنے والا دشمن ہے اور باہر جانے والا سازشی یا جاسوس۔

ہمارے ملک میں دو قلعے بہت مشہور ہیں۔ ایک لاہور کا شاہی قلعہ اور دوسرا اٹک والا۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں ان دونوں قلعوں کو ٹارچر سیل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے قید خانوں میں عام طور پر سیاسی قیدیوں، مبینہ دہشت گردوں اور شاعروں کو رکھا جاتا تھا۔ اب شاعر اتنے ہوگئے ہیں کہ انہیں لوگ گھروں میں بھی رکھنے کو تیار نہیں۔

اور یہ قلعہ جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی حفاظت کے لیے بنایا یہاں بھی ہم وہی کرتے ہیں جو شاہی قلعے میں کرتے تھے۔ ہم نے اسلام کو بھی زیر زمین ٹارچر سیل میں بند کر رکھا ہے۔ اسے وقفے وقفے سے بجلی کے جھٹکے دیتے ہیں، کبھی اس کے ناخن کھینچنے جاتے ہیں، کبھی اسلام کا جسم جلتے سگریٹ سے داغا جاتا ہے۔ اسلام چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ میرے نام کا تو مطلب ہی سلامتی ہے، میرا تو پیغام ہی امن ہے۔ لیکن یہ تشدد جاری رہتا ہے اور اسلام اسی طرح کی باتیں کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔۔۔ ہندوستان سے رشتہ کیا، نفرت کا انتقام کا۔ بجلی کا ایک اور جھٹکا اور اسلام چیخ اٹھتا ہے شاتم رسول ﷺ کی سزا، سر تن سے جدا۔

اسلام کی سسکیاں اس تہہ خانے میں گونجی رہتی ہیں۔ اسلام کہتا ہے میرے ماننے والو، اور کچھ نہیں تو ڈکشنری اٹھا کر میرے نام کا مطلب دیکھ لو۔ پھر بجلی کا ایک اور جھٹکا اور اسلام پکار اٹھتا ہے کافر کافر سارے کافر۔ پھر اسے اذیت دینے والوں میں سے کوئی کھڑا ہو کر اذان دیتا ہے اور ہم سب صفیں باندھ کر سر بسجود ہوجاتے ہیں۔

اسلام کی سسکیاں قلعے میں گونجتی رہتی ہیں۔ میں نے چونکہ بچپن میں ہی سیکھ لیا تھا کہ کوئی خطاب مطالبات کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو میرا ملک کے مستقبل کے بڑے فنکاروں سے یعنی آپ سے مطالبہ ہے کہ اسلام کو اس قلعے سے آزاد کیا جائے اور اسے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کا موقع دیا جائے۔ اور آپ کے لیے یہ دعا کہ آپ کا دل قلعہ نہ بنے جو ہر آنے جانے والے سے ڈرتا ہو، جہاں کوئی اجنبی نہ آسکتا ہو۔ آپ کا دل ایک کھلا آنگن رہے جہاں سانس لینے میں آسانی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).