امریکہ رہنما یا تنہا؟


ٹرمپ کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے سے نکل جانے پر کیا کہا جائے سوائے اس کے کہ: خس کم جہاں پاک! اس یکدم تین طلاق سے دنیا کا نان و نفقہ بند ہونے والا نہیں۔ الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ موسمیاتی تبدیلی کو ایک ٹوپی ڈرامہ کہتے رہے۔ اب ایک نئی در فطنی چھوڑی ہے۔ کہتے ہیں معیشت کے تقاضے اس’ نکاح‘ کو برقراررکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہاں ’حق مہر‘ (معاہدے کی شرائط) پر نظر ثانی کی صورت میں’رجوع‘ یا ’حلالے‘ کا دروازہ کھلا ہے جھری بھر! مگر بدلتی ہوئی دنیا کہتی ہے رجوع کرے ہماری جوتی! جرمنی، فرانس اور اٹلی ٹرمپ کی اس منطق کو کہ معاہدے کی شرائط پر از سر نو غور کیا جائے یہ کہہ کر رد کر چکے ہیں کہ معاہدے کی رو سے ایسا کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ یہ بات جی سیون سے لیکر جی بیس تک اور نیٹو تک کے فورم پر اٹھے گی جو ابھی ٹرمپ نے بھگتنے ہیں۔

بیس سال کی محنت کے بعد شام اور نکاراگوا کو چھوڑ کر (جن کی توقعات کچھ زیادہ تھیں) تمام ممالک پیرس معاہدے کے تحت کاربن اخراج میں کمی اور عالمی حدت کودو سنٹی گریڈ نیچے لانے کےلئے تیار تھے۔ صاف اور قابل تجدید توانائی (renewable energy)  کے ذریعے آنے والی نسل کو اچھا ماحول ملنے والا ہی تھا۔ شہر ہو یا گھوٹھ فیکٹری ہو یا چھوٹا کارخانہ۔۔سب ہی نے کاربن اخراج میں کمی کے لئے اپنے اپنے اہداف مقرر کر لئے تھے۔ زمینی وسائل سے حاصل شدہ توانائی پر حکومتی مراعات ختم ہونے جا رہی تھی۔ قابل تجدید توانائی کا حصول سستے سے سستا ہو رہا تھا۔ روزگار کے نت نئے مواقع پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ تیسری دنیا کے غربت کے مارے لوگوں کی آنکھوں میں بہتر زندگی کے خواب سج رہے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کوڑے کے ڈھیر میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں اور گندے جوہڑوں سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ انہیں صاف پانی ، بجلی اور گیس میسر ہونے ہی والی تھی لیکن ٹرمپ نے سب امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

سائنس ثابت کر چکی ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو زمینی وسائل سے پیدا شدہ توانائی ۔۔جسے عرف عام میں فوسل فیول کہتے ہیں۔۔پر انحصار کم سے کم کرنا پڑے گا۔ فوسل فیول ہی عالمی حدت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث ہے۔ صنعتی انقلاب کی شروعات 1850کے آس پاس ہوئی۔ اس دن سے عالمی درجہ حرارت بتدریج بڑھتا ہی رہا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نیچے آنا شروع ہوا۔ پاکستان اور اس جیسے کئی ممالک کے لئے یہ نوید مسرت تھی جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر کئی خطرات درپیش ہیں۔ اسی لئے ٹرمپ پر ہر طرف سے تھو تھو ہو رہی ہے۔ ٹرمپ نے دنیا کو خود اپنا تعارف کروا دیا ہے ۔۔کہ لوگوں دیکھو میں ہوں وہ جاہل اور گنوار جسے حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میں تو جو چاہوں کر گذر تا ہوں چاہے کتنا ہی نقصان ہو جائے۔ سائنس کیا کہہ رہی ہے مجھے کیا لینا دینا! میں نے تو اپنے ان ووٹروں کو خوش کرنا ہے جو کوئلے اور تیل کی دلالی میں ہاتھ منہ کالا کرتے ہیں۔

ٹرمپ نے EPAاورNASAجیسے تحقیقی اداروں کا بجٹ کم کر دیا۔ سائنسدانوں کی چھانٹی کرنا شروع کر دی۔ عالم یہ ہے کہ فرانس کھلی دعوت دے رہا ہے امریکی سائنسدانوں کو کہ ہمارے یہاں آجاﺅ اور مرضی سے کام کرو۔ تاریخ دھرا رہی ہے اپنے آپ کو۔ سرد جنک میں یہ کام امریکہ کرتا تھا۔ ۔روسی سائنسدانوں کو اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ کے لئے کام کرنے کی دعوت!

پیرس معاہدے سے نکلنے کا طریقہ کار طویل بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ مکمل طور پر نکلتے نکلتے نومبر 2020 آ چکا ہو گا۔ اس وقت ٹرمپ دوسرے الیکشن کی تیاریاں کر رہا ہو گا (اگر مواخذے کی صورت میں ہٹا نہ دیا گیا ہو تو!)۔ ٹرمپ اس بات کو اپنی انتخابی مہم میں ترمپ کے پتے کے طور پر استعمال کرے گا۔ ٹرمپ کی حماقتوں کا خمیازہ امریکہ کو عالمی تنہائی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ امریکی معیشت کمزور ہو گی۔ امریکہ ماحول کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہے گا مگر الزام دوسروں پر تھوپے گا۔

ویت نام کی جنگ کے بعد امریکہ میں پالیسی کے حوالے سے پھوٹ پڑنے کایہ دوسرا واقعہ ہے۔ کیلی فورنیا، واشنگٹن اور نیو یارک جن کی کل ملا کر آبادی اور جی ڈی پی پورے امریکہ کا پانچوں حصہ بنتی ہے پیرس معاہدے کی پاسداری کرنے کیلئے تیار ہیں۔ بارہ سے زائد امریکی ریاستیں ، پٹس برگ (ٹرمپ کا شہر) اور دیگر پانچ سو شہر بھی ایسا ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ یہ ریاستیں اور شہر معیشت میں ترقی کے لئے پیرس معاہد ے میں  2020 اور 2030 کیلئے متعین کیے گئے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے ممالک تو تیزی کے ساتھ پیرس معاہدے پر عمل کر رہے ہیں تا کہ دنیا کی قیادت کرنے کا حق حاصل کر سکیں ۔ قیادت کی اس دوڑ میں امیدوار امریکہ کا پرائیویٹ سیکٹربھی ہے۔

چین اور یورپی یونین مل کر یہ اہداف حاصل کر رہے ہیں۔ دونوں پیرس معاہدے کے بڑے حامی ہیں۔ کیلی فورنیا، جرمنی اور چین صاف اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں عالمی رہنما کے طورپر ابھرے ہیں۔ نئے تناظر میں جب امریکہ پیرس معاہدے کو خیر آباد کہہ چکا ہے یہ تینوں ایک اہم کردار ادا کریں گے۔ ہوا اور شمسی توانائی کے حصول کیلئے کئی امریکی ریاستیں کیلی فورنیا کے ’صاف ہوا کے قانون‘کی پیروی کرتی ہیں۔ ۔چاہیے انہیں وفاقی حکومت کی مدد ملے یا نہ ملے۔ اس طرح یہ کاربن اخراج میں کمی کے لئے اپنا سا کردار ادا کرتی ہیں۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو یورپی یونین کو پیرس معاہدے کے حوالے سے متحد رکھنا پڑے گا۔ کچھ یورپی ممالک مثلاً پولینڈ اس حوالے سے متذبذب ہیں۔ انہیں قائل کرنا پڑے گا کہ آہستہ آہستہ کوئلوں سے جان چھڑاﺅ اور صاف توانائی کی جانب آﺅ۔

چین نے تو پہلے ہی شمسی اور ہوائی توانائی کے حصول کے لئے کوششیں تیزکر دی ہیں۔ کوئلے سے جان چھڑانے والے چینی منصوبے بہت اآگے پہنچ چکے ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبوں کے ذریعے چین کی رسائی دنیا کے کونے کونے میں ہو گی جو اسے ان منصوبوں کی تکمیل میں بہت مدد فراہم کرے گی۔ س پیک کے ذریعے پاکستان بھی ان مواقع سے مستفید ہو سکتا ہے۔

٭٭٭   ٭٭٭

یہ مضمون5 جون کو ڈان اخبار میں چھپا جسے’ ہم سب‘ کے لئے ترجمہ کیا ہمارے ساتھی محمد شہزاد نے۔ صاحب مضمون علی توقیر شیخ ایک جانے مانے ماہر ماحولیات ہونے کے علاوہ  Leadership for Environment And Development (LEAD) Pakistan کے سربراہ ہیں ۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).