کرپشن کی آکاس بیل


پیر صاحب پگاڑا کے صاحب زادے سید راشد شاہ راشدی نے جو سندھ اسمبلی کے رکن بھی ہیں ایک اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ کرپشن کی سزا موت ہونی چاہیے۔ معلوم تاریخ کے گزشتہ سات آٹھ برس ایسے آپا دھاپی میں گزرے ہیں کہ جی جانتا ہے ۔ قیامت کے آثار دکھانے والے ہر دو گھڑی بعد حکومت جانے کی بات کرتے تھے ، آج بھی کیے جاتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حکومت کوئی بھی ہو بس جمہوری ہو اور کسی قسم کا پراجیکٹ شروع کر دے تو اس کے بعد کنوتیاں سیدھی ہو جاتی ہیں، پھر اللہ دے اور بندہ لے ۔ راولپنڈی کے ایک منجم نے بھی آج ہی اگلے سو دن کا وقت مقرر کیا ہے ۔ ابھی کچھ خواب دیکھنے والے باقی ہیں، عالم رویا سے ان کے بیانات آنے ہیں، صبر شرط ہے ۔

کرپشن سے نمٹنے کی کوششیں الحمدللہ قیام پاکستان کے فوری بعد سے شروع ہوئیں اور آج تک جاری ہیں۔ قائد ملت لیاقت علی خان 1949 میں پبلک اینڈ ریپریزینٹیٹو آفس اینڈ ڈس کوالیفیکیشن ایکٹ لے کر آئے ۔ اسے PRODA کہا جاتا تھا۔ یہ قانون بنا بعد میں تھا لیکن ود ایفیکٹ فرام 1947 تھا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی سیاست دان کو کرپشن کے کمبل میں لپیٹ کر اسمبلی سے دس سال کے لیے باہر پھینکا جا سکتا تھا، ایوب کھوڑو، میاں افتخار حسین ممدوٹ اور پیر الٰہی بخش سب سے پہلے اس کے رگڑے میں آئے اس کے بعد تو چل میں آیا والی کہانی تھی۔ واضح رہے کہ یہ پوری پوری صوبائی اسمبلی بساط لپیٹے جانے کے معاملے تھے ۔ پھر گورنر جنرل غلام محمد نے اپنے طور پر وائسرائے ہند والے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی، مشرقی پاکستان سے چیف منسٹر اے کے فضل حق ہٹائے گئے ۔ وہاں سے کرپشن کی ٹرین چلی تو فیلڈ مارشل ایوب خان کے در مسعود پر استقبال ہوا، یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی۔ تو ایوب خان کے جانے کے بعد ان کی یاد آج بھی آتی ہے جب کبھی الیکٹڈ باڈیز ڈس کوالیفیکیشن آرڈر یاد آتا ہے ۔ اسے قدرے معصوم مخفف EBDO سے پکارا جاتا تھا۔ حسین شہید سہروردی (ہاں وہی جن کا نام ابھی کل پرسوں گونجا تھا)، مولانا بھاشانی، قیوم خان اور دولتانہ صاحب اس کے شکار رہے ، ڈھائی تین ہزار بندہ مشرقی پاکستان کا بھی سیدھے سیدھے اس کی زد میں آیا۔

یحییٰ خان کے آگے کرپشن کا بگل بجا تو انہوں نے قدرے رحم دلی دکھائی، انہوں نے تین سو کے قریب لوگوں کو فارغ کیا لیکن مقدمے شقدمے نہیں چلائے ، وہ سیاسی پیچیدگیوں میں کہاں پڑتے تھے بس کرپٹ سیاست بازوں کو جتنی سزا دے سکے، دے دی۔ امیرالمومنین صدر ضیاالحق بھی اسی نعرے کو لے کر تشریف لے آئے ۔ مولوی محمد سعید یاد آ گئے ، آہنگ بازگشت میں انہوں نے “جمہوریت کی چڑیوں کا چنبہ” نامی ایک ٹرم متعارف کرائی تھی۔ تو اب کے جمہور کی چڑیاں مقدر کے پھیر سے اڑیں تو پی آر او سولہ اور سترہ نامی شقوں کے دو پنجرے احتساب کا تالہ لیے دوبارہ تیار تھے ۔ دس گیارہ سال انہیں پنجروں کے خوف سے پرندے ہوا میں ہی رہے ، کبھی کبھی تو آسمان بھی اپنا نہیں لگتا تھا، اسی دور سعید میں گاہے گاہے آئین سے چھیڑ خانی چلتی رہی، نعرہ کرپشن ختم کرنے کا تھا!

یہی آزمائے ہوئے کرپشنی تیر نوے میں پیپلز پارٹی کی کمر پہ چلائے گئے ، پھر باری باری نواز شریف اور بے نظیر حکومت اسی زنگ آلود چھری کا شکار ہوتے رہے یہاں تک کہ شہ شاہاں مشرف صاحب تشریف لائے ۔ ان کے ہاتھ میں بھی یہی بانسری تھی۔ قصور کسی کا نہیں ہے ، کرپشن کی بانسری بجتی ہی ایسے موہنے سروں میں ہے کہ سب گائے بھینیسں کنہیا سنگ سفر کرنے کو راضی ہو جاتی ہیں۔ تو سر ایسے بجائے گئے کہ وہی نواز لیگ اور وہی بے نظیر پارٹی پھر سے باہر تھیں ۔ ایک نظر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن ختم کرنے کیسے کیسے نابغے اپنے قائد کے ہمراہ چلے تھے ۔ ایک شوکت عزیز ہوتے تھے ، چوہدری برادران تھے ، شیخ رشید تھے اور اپنے عمران خان صاحب بھی تھے ۔ سو پیاز کھانے کے بعد کم از کم دو بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ یار یہ کرپشن کرپشن والا کھیل جو ہے یہ ایویں رولتا رہتا ہے اس سے کنارہ کیا جائے ۔ جمہوریت کا میثاق ہوا۔ پانچ برس زرداری صاحب کو اسی کے طفیل نصیب ہوئے ۔ نواز شریف بھی نام خدا چوتھا سال مکمل کر چکے ، اب کیا ہے ۔ اب جو ہے اسے جاننے کے لیے ذرا ایسے ہی، سرراہے ، پچھلے چند برسوں کے اخبارات پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ کرپشن کی سزا موت مقرر کرنے کا حامی کون کون رہا؛

ڈاکٹر عبدالقدیر خان( 17، ستمبر 2009 )،پیر معصوم شاہ نقوی جمعیت علمائے پاکستان( 17 ،اکتوبر 2012 )،ممتاز بھٹو ( 11 ،جولائی 2015 )،تحریک منہاج القرآن کا سوشل سروے ( 8 ، ستمبر 2015 )،زبیر گوندل جماعت اسلامی یوتھ ونگ( 21 ، مئی 2016 )،مولانا طاہر القادری( 23 ، دسمبر 2016 )، جمشید دستی ( 5 ،فروری 2017 ) ، سید راشد شاہ راشدی( 9 ،جون 2017 )

محترم فضل الہٰی بھٹو دور میں صدر بنے ، ضیا صاحب نے انہیں برقرار رکھا کہ وہ بہت ہی بے ضرر قسم کی شخصیت تھے ۔ اختیارات کا مرکز پہلے وزیر اعظم بھٹو رہے تو بعد میں ضیا تھے ، یہاں تک ہنسی ٹھٹھا اڑایا گیا کہ “فضل الہی کو رہا کرو” قسم کے نعرے سننے میں آتے تھے ۔ جونیجو صاحب بھی اسی خاموش طبیعت کے مالک تھے ، آج محترم صدر ممنون حسین بھی اسی روایت کو دہراتے ہیں، خدا انہیں سلامت رکھے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کرپشن مہم ان تین افراد کے خلاف کبھی کیوں نہیں چلی؟ فضل الہی صاحب کو تو پانچ برس پورے ہونے کے بعد بھی جنرل صاحب روکنا چاہتے تھے ، وہ خود نہیں رکے ، رکتے تو وہ جانتے تھے کہ اسی عفریت کا سامنا انہیں بھی ہو گا۔

باتیں پیر صاحب پگاڑا بھی کیا کرتے تھے لیکن وہ ذرا لطیف ہوتی تھیں۔ کبھی کہتے مارچ میں ڈبل مارچ ہو گا، کبھی عارفانہ مسکراہٹ کے ساتھ کسی حکومت کو نوید سنائی جاتی کہ ستمبر ستمگر ثابت ہو سکتا ہے ، کبھی ہنسی ہنسی میں ہئیت مقتدرہ کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتے تو یہ سب ہلکا پھلکا میوزک چلتا رہتا تھا۔ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے انتخابات میں بھی وہ خان کے ہی مصاحب تھے ۔ حر فورس کا سربراہ ایسا جلالی ہرگز نہیں تھا کہ اپنے ہی پیٹی بھائیوں کے لیے موت ریکمینڈ کرتا پھرے ۔

تو یہ جو کرپشن ہے بھئی یہ ایک لفظ نہیں ہے ایک تاریخ ہے ، ایک آکاس بیل ہے جو ہمارے درخت سے لپٹی ہمارے تمام سبز پتے آہستہ آہستہ زرد کرتی جا رہی ہے ، اسے مستقل اندیشہ زوال رہتا ہے ، خدا کرے گا، کبھی تو فصل گل اترے گی! ویسے یاد آیا، سن دو ہزار بارہ میں پڑوسی ملک کے بابا رام دیو نے بھی کرپشن کا شور مچایا تھا، وہ کون تھے ؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain