کیا سندھ میں واقعی ڈولفن کے ساتھ سیکس ہوتا ہے؟


فاکس نیوز نے 2010 میں ایک رپورٹ شائع کی جس نے پارسا پاکستانی معاشرے کی دورخی کو واضح کردیا

رپورٹ کے مطابق پاکستانی وہ قوم ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ جنسی کی ورڈز کو انٹرنیٹ سرچ انجن پر ٹائپ کرتے ہیں

جب سے سندھ میں ڈولفن سیکس کا انکشاف ہوا ہے، فاکس نیوز کی رپورٹ کے دیگر مندرجات زیادہ اہم ہوگئے ہیں جن کے مطابق پاکستانیوں کے سیکس کی ورڈز میں سے پہلا نمبر کتے اور دوسرا گھوڑے کے ساتھ سیکس ہے، تیسرے نمبر پر سرچ انجن پر مقبول پاکستانی کی ورڈ گدھوں کے ساتھ سیکس ہے

بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان تمام کی ورڈز کو ٹائپ کر کے خود لذتی حاصل کرنے والے افراد کو جب سندھ میں ڈولفن سیکس کا علم ہوا تو ان کی دلچسپی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی مگر ان تمام لوگوں کو شاید مایوسی ہوگی کہ تھر کے جعلی قحط کی طرح یہ خبر بھی محض جھوٹ ہے، سندھ میں ایسا کوئی دھندہ نہیں ہوتا، آپ کو کتوں، گدھوں اور گھوڑوں سے ہی کام چلانا ہوگا

انڈس ڈولفن یا بلائنڈ ڈولفن کی تعداد سندھ میں صرف 1400 کے لگ بھگ ہے اور یہ بارہ سو کلومیٹر کے علاقے میں سفر کرتی ہیں، سندھ کے ملاح ڈولفن کو خوش قسمتی کی علامت سمجھتے ہیں اور اگر کبھی چھوٹی نہروں میں یہ ڈولفن آنکلے تو اسے واپس دریائے سندھ میں چھوڑدیا جاتا ہے

اگر ملاح سیکس کا شوق فرمارہے ہوتے تو ڈولفن کی تعداد میں اضافہ نہیں ہورہا ہوتا، سن دوہزار سے اب تک 80 سے زائد نابینا ڈولفنز کو واپس دریائے سندھ میں انہی ملاحوں نے چھوڑا ہے

ڈولفن کے ساتھ سیکس کی بات اتنی مضحکہ خیز ہے کہ ایک ایسا ممالیہ جو پانی کی سطح پر بھی شاذونادر نظر آتا ہے اور جس کے کینالوں میں پھنسنے کے واقعات بھی انگلیوں پر گنے چنے ہیں، کیسے ان سے سیکس کی روایت کا وجود ہو سکتا ہے

دوسری بات ڈولفن سے سیکس کی روایت کو سندھ سے منسوب کرنا بظاہر ایک متعصبانہ رویہ ہے، خیبرپختونخوا میں گدھوں اور پنجاب میں کتوں کے ساتھ سیکس کے واقعات عام ہیں مگر ان واقعات کو صوبوں کی روایات سے منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے

اگر بلوچستان میں لوگ قتل ہوتے ہیں تو یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ بلوچستان میں قتل کی مکروہ روایت ۔۔ قتل بلوچستان کی روایت نہیں بلکہ یہ چند مجرموں کا فعل ہے

روایت کی جڑیں سماج میں گہری ہوتی ہیں، روایت تہذیب اور ثقافت سے جڑی ہوتی ہے اور ڈولفن سیکس کی روایت کو سندھ سے جوڑنا عرصہ دراز سے سندھ سے روا رکھا جانے والا وہ متعصبانہ رویہ ہے جس کے تحت سارے سندھی جاہل اور ان کی بیٹیاں وڈیروں کی غلام ہیں

اس رویئے کے فروغ میں خود سندھی قوم پرستوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور اپنی سیاست چمکانے کے لیے سندھ کی تباہی کی وہ وہ داستانیں رقم کیں کہ ہم اجڑے بغداد اور لہو لہو غرناطہ کو بھول گئے

ابھی کچھ دنوں پہلے راقم نے سوشل میڈیا پر سندھ کے خوب صورت تفریحی مقامات کی تصاویر سوشل میڈیا پر شئیر کیں تو دلچسپ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، ایک ڈگری ہولڈر نوجوان نےتبصرہ کیا کہ مجھے یہ تصویریں دیکھ کر ہنسی آرہی ہے، سندھ ایسا نہیں ہو سکتا۔

جس خطے سے دنیا میں تہذیب کا جنم ہوا، وہاں کے باسیوں کو اتنا غیرمہذب بنا کر پیش کردیا گیا ہے کہ جانوروں تک سے سیکس ان کی روایت بنا دی گئی اور اس کی سیاسی وجوہات ہیں، یہی رویہ بولان اور وسیب کے خطوں کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا ہے

مسئلہ ڈولفن کے ساتھ سیکس نہیں ہے، مسئلہ شاید ہمارے ذہنوں کے ساتھ ہے جس کی سیکس کے نام پر رال ٹپکنے لگتی ہے چاہے وہ جانور کے ساتھ کیوں نہ ہو اور جب معاملہ سندھ کا ہو تو یہ خوشی مزید دوچند ہوجاتی ہے

انڈس ڈولفن کی فکر چھوڑیں صاحب۔۔ اپنی فکر کریں

سندھ اپنے دریا کی نابینا دوست کی فکر کرسکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).