کالے صاحب کا ٹوپا ناچے (یعنی لندن کی ایک شام)


نام کو الگ الگ حروف میں توڑ کر بہت تیزی سے ادا کرنا۔ ایل او این ڈی او این__

اور پھر زور سے آواز لگانا__ لنڈن!

مجھے بچپن کا بہت پرانا کھیل یاد آگیا۔ جو بچّہ نام پکار کر مڑتا، اُسے باقی بچّوں کو ڈھونڈنا پڑتا۔ نام پورا ہونے سے پہلے باقی بچّوں کو چُھپ جانا ہوتا ورنہ انھیں نام پکارنے والے کا حکم بجا لانا پڑتا۔ پھر ایک کے بعد دوسرے بچے کی باری۔

مجھے لگا کسی نے بڑی تیزی کے ساتھ نام پکار دیا ہے۔ حروف پورے ہوئے، لندن کا نام لیا گیا اور لندن گزر گیا۔ میں چُھپ نہیں سکا۔

اب مجھے اپنی سزا وصول کرنا ہوگی۔

ادھورے تاثرات کا سفر بھی تو سزا کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔

 ایل ایچ آر__ ایک کے بعد ایک سائن بورڈ پر لندن کا املا بدلا ہوا تھا۔ پائلٹ کی آواز میں اعلان گونجا تو سمجھ میں آیا__ یہ لاہور کی آمد نہیں ہے۔ لندن ہیتھ رو ہے۔

ہدایات کے مطابق میں نے سیٹ بیلٹ باندھ لی۔ کرسی کی پُشت سیدھی کر لی۔ پڑھنے والی عینک اور ناول سامنے کی سیٹ میں رکھ دیا اور اگلے اعلان کا انتظار کرنے لگا__ لندن آگیا۔ ایک طویل سفر کے مُنجمد کردینے والے تسلسل کے بعد لندن جہاں ہر طرف بادل چھائے ہوئے ہیں۔ خدا معلوم گھڑی کیا بجارہی ہے اور اصل میں وقت کیا ہوا ہے؟ مگر کون سا وقت؟

مجھے تو لندن کے وقت کے مطابق چلنا ہے، اسی لیے میں نے گھڑی درست کرلی۔

جہاز نے ہمیں تو جلدی اتار دیا۔ سامان اتارنے میں اتنی دیر کر دی کہ کنویئر بیلٹ پر کھڑے کھڑے آندھ آ گئی۔ سامان سے زیادہ مجھے اس بات کی فکر تھی کہ جو شخص مجھے لینے آیا ہے، وہ انتظار کے بعد چلا گیا تو پھر کیا ہوگا۔ بڑی مشکلوں سے سامان کی صورت نظر آئی، باہر نکلا تو جان میں جان آئی کہ ایک شخص میرے نام کی تختی لیے کھڑا ہوا ہے۔

آگے بڑھ کر میں نے اپنا تعارف کرایا۔ وہ مجھے پارکنگ لاٹ کی طرف لے چلا۔ ایک کے بعد دوسری منزل، لفٹ، پھر راستہ، یہ کیا چکّر ہے؟ پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر مجھے بٹھا لیا مگر خود کہیں چلا گیا۔ گاڑی کے اندر میں حق تو سبحان تو کے عالم میں بیٹھا آتی جاتی گاڑیوں اور جہازوں کو دیکھ رہا ہوں۔ خدا خدا کرکے وہ آیا تو پتہ چلا کہ اس کا کریڈٹ کارڈ نہیں چل رہا اس لیے باہر نکلنے کی تدبیر کررہا تھا۔ کریڈٹ کارڈ میں دام نہ ہوں تو زبانی جمع خرچ بے کار ہے، میں نے اس کی نصیحت گرہ میں باندھ لی۔

گاڑی کی کھڑکی سے شہر نمودار ہونا شروع ہوا۔ گھاس کے ہموار قطعے، اینٹوں والے مکان، صاف سڑکیں__ میں نے پہچان لیا، میں لندن میں ہوں۔

دکانوں کی تختیاں، سڑکوں کے نام پڑھتا چلا آیا کہ پتہ ہوسکے کہاں ہوں۔ مگر میں کون سا ان جگہوں کو پہچانتا تھا۔ گھومتے گھامتے ہوٹل پہنچے اور گاڑی نے اتار دیا تو سمجھ میں آگیا اس علاقے کا نام کیا ہے۔

نام سمجھ میں آگیا مگر وقت نے گڑبڑا دیا۔ کمرے میں سامان پہنچا دیا۔ ہاتھ منہ دھو لیے، ہوٹل کی شان دار لابی دیکھ لی۔ اس کے بعد اب کیا کروں؟ تھکن سی طاری ہے، پتہ نہیں نیند کو کتنے گھنٹے گزر گئے۔ کچھ دیر آرام کر لوں، آنکھیں بند کرکے لیٹ جائوں۔ لیکن لندن کے مکانوں پر دن کا اجالا پھیلا ہوا ہے۔ اس شہر میں اپنا پہلا وقت آنکھیں بند کرکے کیسے گزار دوں؟ کچھ سمجھ میں آیا، کچھ نہیں آیا۔ اس دوران ایک شناسا چہرہ نظر آیا تو اطلاع مل گئی کہ ہمارا شام کا پروگرام کیا ہونا چاہیے۔

آپ وہاں چلیں گے؟ اس نے پوچھا۔ وہ لوگ چند دن پہلے یہاں پہنچ چکے تھے اور سارے انتظامات کررہے تھے۔

میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر سرہلا دیا۔

 اس پروگرام میں جھمیلے بہت سے ہیں، یہ اطلاع مجھے بعد میں ملی۔

آپ کے نام پر ایک کارڈ آیا ہوا ہے، وصول کر لیجیے۔ ہوٹل سے یہ اطلاع ملی۔ وہاں رسیپشن سے بات کرنے کے لیے بھی لائن لگانے کا دستور تھا۔ مگر اس لائن کے اختتام پر انہوں نے ہری جھنڈی دکھا دی۔ ہمارے پاس کارڈ نہیں ہے۔ اگر ہوگا تو آپ کے کمرے میں پہنچا دیا جائے گا۔

الٹے پاوں واپس آیا تو لکھنے کی میز پر کارڈ دھرا تھا۔

اس میں بیان کردہ شرائط بہت سخت تھیں۔ میں بدمزہ ہونے لگا کہ آخر حامی کیوں بھرلی۔

کارڈ کے ساتھ ایک رقعہ ملفوف تھا۔ حفاظتی انتظامات اور پروٹوکول کے مطابق ان شرائط کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

صرف سیاہ ٹائی کی اجازت ہے۔ قمیص رنگ دار ہو اور نہ ٹائی۔ کسی قسم کا تمغہ لگانے کی اجازت نہیں۔

کم از کم دو شناخت نامے ہوں، جن میں سے ایک تصویری ہو۔

موبائل فون اور کیمرے کی اجازت نہیں ہے۔ ہر قسم کی فوٹو گرافی کی سختی سے ممانعت ہے۔

مہمان خصوصی کے کمرےسے رخصت ہونے سے پہلے مہمان کو اپنی نشست چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی مہمان کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو ان کے معاملے میں لارڈ میئر کی جانب سے ہم دردی برتی جائے گی۔

سانس لینے کی اجازت بھی ہے، میں نے شرائط کو دوبارہ غور سے پڑھا۔

یہ تو تقریب کے لوازم تھے۔ اصل میں، بڑا بول میں نے ہی بول دیا تھا۔

سفر پر روانہ ہونے سے پہلے فیس بک پر میں نے اسٹیٹس میں لکھ دیا تھا۔ Going to London.

 But not to see the Queen/ اس لیے ملکہ نہیں تو ملکہ کے شوہر ہی سہی۔ یعنی گندم نہ میّسر شود، بُھس غنیمت است۔

پاکستان سوسائٹی کے سالانہ ڈنر میں یہ ساری شرائط اس لیے تھیں کہ ہزرائل ہائی نیس پرنس فلپ، ڈیوک آف ایڈنبرا اس کے مہمان خصوصی تھے۔ وہ لگ بھگ 46 سال سے اس سوسائٹی کے سربراہ رہے ہیں اور پیرانہ سالی کے سبب (ان کی عمر 95 برس کی ہوگئی ہے) وہ سرکاری مصروفیات سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں، اس لیے ان کے اعلان کے مطابق آخری ڈنر تھا۔

سارے اہتمام بھی شاہی تھے۔ بگل بجا۔ چوب دار نے اعلان کیا۔ لارڈ میئر آئے۔ پرنس فلپ ہمارے سامنے سے گزرے۔ مقرّرہ نشستوں پر ہم بیٹھ گئے اور رسمی ڈنر کی کارروائی تقریروں کے ساتھ شروع ہوئی۔

پرنس فلپ اور لارڈ میئر کے ساتھ اردن کی شہزادی ثروت بھی تشریف فرما تھیں۔ وہی شہزادی جن کی شادی کا چرچا ہمارے بچپن کے دور میں بہت رہا تھا۔ دیکھنے سے زیادہ میں ان کو سُننا چاہتا تھا۔ لیکن انھوں نے کوئی تقریر نہیں کی۔ کھانے کے بعد شاہی مہمانوں کے ساتھ اٹھ کر چلی گئیں۔ تقریب برخواست ہونے کا بگل بج گیا۔

انگلستان کے شاہی خاندان سے میرے تعلقات اتنے استوار کبھی نہیں رہے کہ میں پرنس فلپ کے سلام کو ضرور حاضر ہوتا۔ میں ان کو دیکھنا چاہتا تھا تو اس لیے کہ اپنے والد کو بتا سکوں۔ لیکن میرے والد نہیں رہے تو اب پرنس فلپ پھر میرے کس کام کے؟

میرے والد بتایا کرتے تھے کہ ملکہ الزبتھ اپنی تاج پوشی کے بعد پہلی بار پاکستان آئی تھیں تو میرے والد کو ملکہ اور شہزادے کو دیکھنے کا موقع ملا تھا اس لیے کہ ان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔ اس استقبال کا حوالہ خواجہ معین الدین نے اپنے ڈرامے ’’تعلیم بالغاں‘‘ میں ٹانک دیا تھا جب ماشٹر صاحب طالب علموں کو ملکہ انگلستان کے حوالے سے پرانا فلمی گانا سبق میں پڑھاتے تھے__

میری لاڈلی ری میری لاڈلی، بنی ہے تاروں کی تو رانی

پھر اس میں وہ ٹکڑا بھی آتا تھا__

کالے صاحب کا ٹوپا ناچے، ناچے موٹی میم کا سایہ

دا دل دارا، دل دارا۔۔۔

ابّو کے اس بیان پر ہم ہنس ہنس کر دُہرے ہو جایا کرتے تھے۔ اب میں پرنس فلپ کو کیا سمجھاتا؟ کالے صاحب کا ٹوپا چُپ چاپ رہ گیا۔

تقریب کا انتظام ایسا تھا کہ موقع ہی نہیں ملا کہ ہم اور پرنس فلپ گفتگو کرتے، روبرو اور دوبدو کرتے۔ مقدور ہوتا تو میں پوچھتا ملکہ ٹوریا اچھی ہیں؟ مجھے خبر مل گئی ہے کہ ملکہ معظمہ اور منشی عبدالکریم کے بارے میں وہ فلم تیار ہوگئی ہے جس کا بہت شہرہ تھا۔ اس کتاب کی مصنفہ شرابنی باسو سے میری اس بار بھی ملاقات ہونا تھی۔ میرے والد نے کالج کا ابتدائی زمانہ آگرہ میں گزارا تھا جہاں منشی عبدالکریم کے خاندان والوں کو دیکھا تھا اور ان کی صحت کے بارے میں وہ روایت بھی سنی تھی جو سینہ بہ سینہ چلتی آرہی ہے۔

یہ تقریب جس جگہ منعقد کی جارہی تھی، اس کا نام مینش ہائوس تھا، لارڈ میئر کی سرکاری رہائش گاہ۔ شان دار ہال کی پوری چھت تصویروں سے مزّین تھی اور کھڑکیاں رنگین شیشوں سے۔ اس خوبصورت عمارت کی دلکشی کے باوجود تقریب اس قدر رسمی تھی کہ میں اکتا گیا۔ پرنس فلپ رخصت ہوئے تو میں نے اطمینان کا سانس لیا، جیسے رہائی مل گئی۔ لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کا موقع مل گیا۔ کلوک روم کے باہر کھڑے ہو کر لوگ اپنے اپنے برساتی کوٹ پہن رہے تھے اور باتیں کررہے تھے۔ میں نے جھانک کر دیکھا۔ شام کے اندھیرے میں ڈوبی سڑک بارش کی بوچھار سے چمک رہی تھی۔ یخ بستہ ہوا میں گاڑی تک جانا بھی ایک مرحلہ تھا۔

مگر مرحلے کے آگے ایک اور مرحلہ۔ بارش، سرد ہوا، گیلی سڑک کے بعد مجھے ایک اور مسئلے سے الجھنا تھا۔ بلکہ جھوجھنا تھا۔ ہوٹل میں وائی فائی کا رابطہ کسی طرح بحال ہو جائے۔ جب تک یہ رابطہ نہ ہو جیسے میں ساری دُنیا سے ناتہ توڑے بیٹھا ہوں۔ بار بار رابطے کی کوشش کے لیے ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ یک بارگی سب چھوڑ چھاڑ کر، لیپ ٹاپ کی بساط لپیٹ کر لندن کی اس بارش بھری شام میں اکیلا نکل جائوں۔ دیر تک واپس نہ آئوں۔

مجھے معلوم ہے کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ اس شام کے بعد میرے پاس لندن کے چند دن اور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).