یہ سامان مشال خان کا نہیں ہے


کیا عجب کہ اس اجڑی ماں کی ہر شب ہی دل دہلا دینے والی آہ و فغاں میں گزرتی ہو ۔ کیا بعیدکہ اس بد نصیب گھر میںہر شام ، شامِ غریباں بپا ہوتی ہو۔ لختِ جگر کے ہیولے کا رقص ِ بسمل اور ما ں کے خنجر کی طرح سینے چیرتے نوحوں سے رات بھر آسماں لرزتا ہو ۔ درد کی منہ زور لہریں طوفان برپا کرتی ہوں اور اشکوں کے موتی جل تھل کر دیتے ہو ں ۔ کیا مشال خا ن جیسے بد اختر نوجوانوں کی ماﺅں کے دکھوں کا کوئی مداوا یا ان کے آنسوﺅں کی کوئی قیمت ہے ؟

میرا لکھاں دا وِکدا سرہانہ ، جے ہنجواں دا مُل پیندا

13 اپریل کو بھی مشال خان کے پیاروں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔ وہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں اپنے درخشاں لہو کے دینار لٹا کے گھر آیا تھا ۔ مشال کی حرماں نصیب ماں اس کے ہاتھوں کی ٹوٹی انگلیاں چومتی تھی مگر اس مظلوم کا لاشہ تو دہائی دیتا تھا :

اونے زخم میرے جُثے تے جِنے تیرے وال نی مائے

مشال خان کے ہجر کے ماروں پر آج پھر قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ جے آئی ٹی کی طرف سے اس کے خونِ ناحق کی گواہی آئی ہے اور یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اس کا ماتمی سا سامان بھی گھر آیا ہے ۔ بیگ، کتابیں ، کپڑے ، 270 روپے کے کرنسی نوٹ اور دیگر استعمال کی سستی سی اشیاء۔ ایک تصویر میں اس کا باپ اقبال خان پرانی چارپائی پر بیٹھا لرزتے ہاتھوں سے یہ چیزیں چھو رہا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں موجز ن کرب کا وہ سمندر ہے کہ دیکھا نہ جائے ۔ دوسری تصویرمیں مشال کی دکھیاری ماں اس کے کپڑوں پر گر کر اور انہیں سینے سے لگا کر بین کر رہی ہے ۔ ہم نے اپنے کانوں سے یہ بین نہیں سنے مگر کوئی بھی دردِ دل رکھنے والا کلیجہ چیرتے یہ نالے اپنے ضمیر کے کانوں سے سن سکتا ہے اور غریب والدین کی کیفیت کو سمجھ سکتا ہے کہ :

دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوساور اس کے راستے کو کھلا کر رہے ہیں ہم

سانحہ عبدالولی خان یونیورسٹی پر بننے والی 13 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے اپنی رپورٹ میںحتمی طور پر کہہ دیا ہے کہ مشال خان نے کوئی توہین مذہب نہیں کی اور اس کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ حالات و واقعات اور شہادتوں سے ثابت ہوا ہے کہ مشال خان نے اپنی آخری سانسوں کے رفیق ہاسٹل وارڈن کو کلمہ پڑھ کر سنایا تھا اور خود کو ہسپتال پہنچانے کی التجا کرتا رہا۔ جے آئی ٹی نے آٹھ صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مقتول مشال اس کے دوست عبداللہ اور زبیر کے خلاف کوئی بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ گستاخانہ شہادت نہیں ملی ۔ مشال کا سفاکانہ قتل اتفاقیہ یا حادثہ نہیں تھا بلکہ اس مخصوص سیاسی گروہ کی طرف سے ایک ماہ قبل ہونے والی باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا جسے مشال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا ۔ یہ نوجوان یونیورسٹی میں سنگین بے ضابطگیوں کے خلاف کھل کر بولتا تھا اور اسی جرم میں اس کے خلاف توہین کا جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے اسے غیر انسانی ظلم کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ جے آئی ٹی کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ رجسٹرار سے لے کر سیکورٹی آفیسر تک ، یونیورسٹی میں نااہل اور سفارشی لوگ تعینات ہیں ۔ بیشتر ملازمین مجرمانہ ریکارڈ بھی رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے ، جبکہ سانحہ میں پولیس کا کردار بھی مشکو ک قرار دیا گیا ہے ۔ آج جے آئی ٹی رپورٹ اور مشال کے سامان نے اس کے والدین اور بھائی بہنوں کے زخموں پرپھر سے نمک چھڑک دیا ہے ۔ اس درد ناک موقع پر ثمینہ رشید نے ”متاعِ مشال“ کے عنوان سے ایک دلسوز نظم کہی ہے :

”میرا سامان آیا ہے /میرے کپڑے میرے جوتے /میری درسی کتابیں کچھ /جنہیں اب دیکھتی ہے ماں /تو اس کے بین سن کر /آسماں کی آنکھ بھر آئے /میرے بابا /میرے کپڑوں کو چھوتے ہیں /تو میری خوشبو /ان کی خشک صحرا بنی /آنکھوں میں چبھتی ہے /جنہیں سب سے چھپاتے ہیں /اور وہ چند نوٹ بوسیدہ /جو میرا کل اثاثہ تھا /انہیں تکتے جاتے ہیں /مگر اس حال میں بھی /ان کے لب شکوہ نہیں کرتے /وہ کہتے ہیں میرا بیٹا نہیں آیا /مگر میری دعا ہے /کسی بھی ماں کے گھر /ایسا کوئی ساماں نہ آئے /کسی بھی باپ پہ اے رب /تو ایسا وقت نہ لائے “۔

مگر صاحبو ! اے میرے اہل دل ہم وطنو! یہ سامان مشال خان کا کیسے ہو سکتا ہے،یہ لٹے پٹے کسی غریب الوطن قافلے کے بچے کچھے اثاثے جیسا سامان ؟یہ مڑے تڑے سہمے سے چند بوسیدہ نوٹ ، یہ اجڑے اجڑے ،ہر دم انسانی خون کے چھینٹوں سے ڈرتے کپڑے اور خوفزدہ سی چند کتابیں ۔یہ خاک و خون میں نہلایا لاشہ بھی تو مشال خان کا نہیں ہو سکتا۔ طالب علموں کے ایسے سامان اور ان کے ایسے لاشوں سے تو کسی بد نصیب قوم کے فکری افلاس ،علم دشمنی ، عدم برداشت ،لاقانونیت، جہالت ،جبر ، وحشت اوربربریت جیسے غیر انسانی رویوں کی بُو آتی ہے ۔ ان سے تو کوئی گھٹن زدہ معاشرہ جھلکتا ہے ۔کیا اسی زادِ راہ کے سہارے مشال خان حصول علم کی منزل سر کرنے جا رہا تھا؟کیا متاعِ مشال یہی ہے ؟نہیں ،ایسا بالکل بھی نہیںہے۔ اس کا زادِ راہ تو بڑا توانا تھا ۔ اسے تو 1947ء میں وجود میں آنے والی جمہوری فلاحی مملکت میں زندگی کی توانائیوں سے لبریز ایک روادار، متوازن اور متعدل معاشرے کی نوید دی گئی تھی ۔ شخصی آزادیوں ، بنیادی حقوق اور آزاد تعلیمی فضا میں علم حاصل کرنے کی ضمانت دی گئی تھی ۔ بغیر کسی ڈر ، کسی خوف کے عملی زندگی میں آ کر دیانت اور محنت سے تعمیر ِ وطن کا سبق دیا گیا تھا ۔ پھر کس کم بخت نے مشال خانوں سے یہ قیمتی زادِ راہ چھین کراُن کے دامن میں انگارے اور سانسوں میں چنگاریاں بھر دیں ؟ یہ ٹرننگ پوائنٹ کب آیا او رمتاعِ مشال پریہ ڈاکہ کس نے ڈالا؟ ہمارے قائداعظم کی تصویر والے خوشنما ،معتبر نوٹوں کو بوسیدہ کس نے کیا، ہمارے بے داغ اور شفاف کپڑوں پرخون کے چھینٹے نچھاور کرنے کی ابتدا کس ظالم نے کی اور ہماری کتابوں کو خوفزدہ کرنے والا ہمارا مجرم کون ہے؟ کیا جے آئی ٹی کی اس رپورٹ کے بعد ہم نئے سرے سے اپنے قومی بیانیے کا جائزہ لیں گے یا ابھی مزید ایسے سانحات کا انتظار کریں گے ؟

بس بہنو اور بھائیو ! ایسا تنگ نظر معاشرہ اور ایسا لاغر سامان ہمارا نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی نے زبردستی ہمارے گلے میں ڈال دیا ۔ ہم نے یہ سب کچھ نہیں رکھنا۔ آئیے یہ پرایا بیمار ماحول اور دیمک زدہ سامان کہیں دور پھینک آئیں اور اپنے وسیع النظر ، علم دوست اور توانا معاشرے کو منا کر واپس لے آئیں گے ، اپنا قیمتی سامان ڈھونڈ لائیں ورنہ….مشال خانوں کا خونِ ناحق ہمارا گریباں نہیں چھوڑے گا۔ وہ نوکِ سناں پر بھی بولتا رہے گا، چیختا رہے گا ، ہمیں جھنجھوڑتا رہے گا اور ہمارے مستقبل کے مشال خانوں کے بوسیدہ نوٹ ، خون آلود کپڑے اور خوفزدہ کتابیں دکھادکھا کر ہماری راتوں کی نیند اڑاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).