نہ فاکس نیوز نہ سیکس نیوز صرف ڈولفن نیوز


سب سے پہلے تو میں ہم سب کی بہت شکر گزار ہون جس یے ایک اہم اور حساس مضوع کو شایع کیا جس پر آج سے پہلے کوئی بات کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔

انڈس ڈالفن کے ساتھ جنسی زیادتی خلاف ایک بلاگ لکھا گیا جس میں بتایا گیا کہ نابینا ڈولفن کو کئی برسوں سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرا بلاگ شایع ہوا جس میں کہا گیا کہ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان تمام کی ورڈز کو ٹائپ کر کے خود لذتی حاصل کی جا رہی ہے اور یہ خبر محض جھوٹ ہے، سندھ میں ایسا کوئی دھندہ نہیں ہوتا۔ اور اس رویئے کے فروغ میں سندھی قوم پرستوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور اپنی سیاست چمکانے کے لیے سندھ کو تباہ کر رہے ہیں۔

اب آتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ بات کچھ دن پہلے کی ہے جب پتا چلا کہ ایک مقامی وڈیرے نے انڈس ڈالفن کو باندی بنا کے رکھا ہے اور اپنے دوستون کے ساتھ مل کر زیادتی کا نشانہ بنا رہا تھا۔ مگر کسی نی کچھ نہیں کیا۔ اور اس کے بعد اگر ان اداروں کی بات کی جائے جو انڈس ڈولفں کے فلاح اور بہود کے لئے کام کر رہیں ہیں تو میں بتاتی چلوں کہ ان کی کارکردگی پر پہلے ہی کافی سوالیہ نشان ہیں۔ کیوں کہ کافی برسوں سے انڈس ڈالفن کے تعداد جانچنے کے حوالے سے کوئ سروے ںہیں ہوا ہے اور آئے دن ڈولفن مرتی جا رہی ہیں۔

اور یہ واقعہ چند دن پہلے کا ہے جب ایک انڈس ڈالفن لاڑکانہ کے قریب اب درستی کر دی گئی ہے۔ایک کنال میں جا کے پہنچی اور اس کے تحفظ کرنے والے ادارے اسے بغیر پانی والے گاڑی سے سکھر واپس لا رہے تھے تو وہ ڈولفن راستے میں فوت ہو گئی۔ اور جہان ڈولفن کے ساتھ سیکس کی بات ہے۔ تو یہ مقامی طور پر مشھور ہے کہ ڈولفن کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس پٹے پر رہنے والے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ ملاح اس کے ساتھ جنسی زیادتی والا کام کرتے ہیں۔ باقی وڈیو کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں چاہے کہ اس حوالے سے تحقیق کریں کہ یہ جنسی زیادتی کس حد تک ہو رہی اور اس کے روک تھام کے لئے ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ باقی اسلام آباد اور لاھور میں بیٹھ کر فاکس نیوز اور سیکس نیوز کے حوالے دے کر سندھی قوم پرستوں پر تنقید کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ ہمیں چاہے کہ ہم سندھ کے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے، تحقیق اور دلائل کے ساتھ اپنا تجزیہ تحریر کریں۔

 

 اعتذار: محترمہ انیلہ خان کی تصویر اس تحریر کی پہلی اشاعت میں سہواً غلط شائع ہو گئی تھی۔ اب درستی کر دی گئی ہے۔ تکلیف کے لئے ادارہ ہم سب معذرت خواہ ہے۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).