عارف وقار کے نام پہلا ادبی محبت نامہ۔۔۔۔۔


ڈیر عارف وقار !

سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میرا تعارف ’ہم سب‘ انٹرنیٹ میگزین اور اس کے مدیر وجاہت مسعود سے کروایا۔ وجاہت مسعود مجھ پر بہت مہربان ہیں ۔ وہ میرے مضامین باقاعدگی سے ’ہم سب‘ میں چھاپ رہے ہیں جسے سینکڑوں کیا ہزاروں لوگ پڑھ رہے ہیں اور اپنی تحسینی اور تنقیدی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے سے مجھے دوبارہ اردو میں لکھنے اور اپنے انگریزی مضامین کا اردو میں ترجمہ کرنے کی تحریک مل رہی ہے۔

’ہم سب‘ میگزین میں آپ کے بھی چند مضامین چھپے ہیں جو میں نے بڑے شوق سے پڑھے ہیں۔ ان مضامین میں ایک مضمون کا عنوان ’ضرورت ہے ایک نئی اردو گرامر کی‘ ہے۔ اس مضمون میں آپ نے ماہرِ لسانیات ڈاکٹر سبزواری کی خدمات کو سراہا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اردو گرامر کے اصول و قواعد پر ایک کتاب لکھیں ۔ انہوں نے وہ کام شروع بھی کیا تھا لیکن اس کام کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے ہی وہ 1973ء میں فوت ہو گئے اور ان کا خواب شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکا۔ آپ کے مضمون کے ایک قاری نے لکھا ہے کہ مصنف کو ڈاکٹر سبزواری کے خواب کو شرمندہِ تعبیر کرنا چاہیے۔

جب ہم آپ کے مضمون پر تبادلہِ خیال کر رہے تھے تو میں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ IL PISTINO [ A POSTMAN] فلم ضرور دیکھیں۔ وہ فلم چلی کے شاعر پابلو نرودا کی زندگی اور جلا وطنی کے بارے میں ہے۔ جب نرودا چلی چھوڑ کر اٹلی جاتے ہیں تو اٹلی کی حکومت ان کے لیے ایک پہاڑی پر رہائش کا انتظام کرتی ہے اور چونکہ انہیں ہر روز سینکڑوں خط آتے ہیں تو ان خطوں کو نرودا تک پہنچانے کے لیے ایک ڈاکیے کا انتظام کرتی ہے۔ وہ ڈاکیا ہر روز سینکڑوں خط ایک تھیلے میں ڈال کر اور سائیکل پرسوار ہو کر نرودا تک پہنچاتا ہے۔

 ایک دن ڈاکیا بڑی سادگی سے نرودا سے پوچھتا ہے’آپ کیا کرتے ہیں؟‘

نرودا کہتے ہیں ’میں شاعری کرتا ہوں‘۔

وہ پوچھتا ہے ’ شاعری کیا ہوتی ہے؟‘

اس طرح یہ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں فلم کا ڈائرکٹر نرودا اور ڈاکیے کے مکالموں سے شاعری کے اسرار و رموز بیان کرتا ہے۔

ایک دن ڈاکیہ نرودا سے ان کی نظم سننے کی فرمائش کرتا ہے اور نظم سننے کے بعد یاد کر لیتا ہے۔ چند دنوں کے بعد ڈاکیہ نرودا کو یہ کہانی سناتا ہے کہ وہ شہر کے ایک مقامی کلب میں گیا تھا اور اس نے وہ نظم کلب کی دخترِ خوش گل ویٹرس کو سنائی جس سے وہ بہت متاثر ہوئی۔

نرودا نے ڈاکیے سے پوچھا کہ تم نے اس حسیں دوشیزہ کو کیا بتایا کہ یہ کس کی نظم ہے۔ سوال سنتے ہی ڈاکیے کے چہرے پر شریر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے کہا’ میں نے اسے بتایا کہ یہ نظم میری ہے‘۔

نرودا بھی مسکرائے اور کہنے لگے ’تم جانتے ہو کہ یہ نظم تمہاری نہیں میری ہے‘

ڈاکیے نے بڑی اپنائیت سے کہا ’نظم اس کی ہوتی ہے جس کی اس کو ضرورت ہو‘۔

میں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ بھی نرودا اور ڈاکیے کے مکالمے کی طرح اردو گرامر کے بارے میں ایک دلچسپ مکالمہ لکھیں تا کہ قارئین اردو گرامر کے رازوں سے واقف ہو سکیں۔ میرا مشورہ سن کر آپ کے چہرے پر بھی شریر مسکراہٹ پھیل گئی اور آپ نے کہا ’میں وہ مکالمہ لکھ تو دوں لیکن مجھے بھی ایک ڈاکیے کی ضرورت ہے‘۔

چنانچہ میں نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔

اس فلم میں ڈاکیہ شاگرد تھا اور نرودا ستاد۔ ہمارے مکالمے میں خالد سہیل شاگرد ہوگا اور عارف وقار استاد۔ میں اپنے طالبعلمانہ سوال پوچھوں گا اور آپ اپنے استادانہ اور عالمانہ جواب دیں گے۔ اس سے مجھ جیسے اردو زبان و ادب کے اور طالبعلموں کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔

اس سے پہلے کہ میں آپ سے طالبعلمانہ سوال پوچھوں میں آپ سے طالب علم کا تعارف کروانا چاہتا ہوں تا کہ آپ اس کے لسانی ماضی سے واقف ہو سکیں۔ ہر استاد کے لیے طالب علم کے ماضی کو جاننا بہت اہم ہوتا ہے۔

میرے والدین امرتسر میں پیدا ہوئے تھے 1947 میں وہ ہجرت کر کے لاہور ا ٓگئے۔ میرے والد عبدالباسط اور میرے شاعر چچا عارف عبدالمتین چشتیہ ہائی سکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ 1956 میں میرے والد نے ریاضی میں ایم ایس سیM Sc کرنے کے بعد کوہاٹ کے گورنمنٹ کالج میں لیکچررشپ کی ذمہ داری قبول کر لی اور میں اپنے والدین کے ساتھ لاہور سے کوہاٹ چلا گیا۔ اس وقت میری عمر صرف دو سال تھی۔ دو سال سے چوبیس سال تک میں کوہاٹ اور پشاور میں رہا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ خیبر میڈیکل کالج سے 1975 میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد میں دو سال کے لیے ایران گیا اور پھر 1977 میں نفسیات کی تعلیم حاصل کرنے کینیڈا چلا آیا۔ اب میں پچھلے چالیس برس سے کینیڈا میں ماہرِنفسیات کے طور پر کام کر رہا ہوں۔

اب جب میں اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں اور اپنی زندگی کا لسانی حوالے سے جائزہ لیتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میں پاکستان میں

اپنے والدین کے ساتھ پنجابی

اپنے دوستوں کے ساتھ پشتو

اپنے اساتذہ کے ساتھ انگریزی بولتا تھا۔

ایران میں اپنی نرسوں کے ساتھ فارسی اور کینیڈا میں اپنے مریضوں کے ساتھ انگریزی بولتا ہوں۔

میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پنجابی‘ پشتو‘ فارسی اور انگریزی بولنے کے باوجود میں لکھتا اردو میں تھا۔ مجھے اردو زبان سے محبت تھی۔ وہ میری پہلی ادبی محبوبہ تھی۔

اپنی محبوبہ کے قریب آنے کے لیے میں نے سعادت حسن منٹو‘ عصمت چغتائی‘ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانے‘ احمد فراز‘ ساحر لدھیانوی اور فیض احمد فیض کی نظمیں اور غزلیں اور ابولاعلیٰ مودودی‘ غلام احمد پرویز اور ابو الکلام آزاد کے نظریاتی مضامین پڑھے۔ میرا اردو زبان و ادب میں شوق اتنا بڑھا کہ میں نے خود غزلیں‘ نظمیں ‘ افسانے اور مقالے لکھنے شروع کر دیے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں جہاں مجھے پشتو اور فارسی بھولتی جا رہی ہے وہیں میں نے اردو کی بجائے انگریزی میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ شاید کینیڈا میں رہنے اور انگریزی ادب کے مطالعے کا اثر ہے۔ انگریزی میری دوسری ادبی محبوبہ بن گئی ہے۔ جہاں انگریزی میری محبوبہ بن کر بہت خوش ہے وہیں اردو بہت افسردہ رہتی ہے۔ وہ انگریزی سے حسد کرتی ہی۔

اردو کو بہت خوشی ہوئی جب اسے یہ خبر ملی کہ میں نے ’ہم سب‘ کے لیے اردو میں مضامین لکھنے شروع کر دیے ہیں۔ جب اسے یہ پتہ چلا کہ میں عارف وقار کو ادبی محبت نامے لکھنے کا سوچ رہا ہوں تو اس نے جشن منایا اور رقص کرنے لگی۔ مجھے لگتا ہے اردو اور انگریزی سے آپ کے بھی راہ و رسم ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ جائز ہیں یا ناجائز اور ان میں رشک و حسد کا کیا سلسلہ ہے۔

یہ تو تھی شاگرد کی کہانی اب استاد کی کہانی کی باری ہے۔

اس خط میں میں آپ سے دو سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کو لسانیات میں دلسچپی کیسے پیدا ہوئی۔؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اردو زبان کی گرامر باقی زبانوں( ’ہندی‘ پنجابی‘ فارسی‘ عربی اور انگریزی) سے بنیادی طور پر کیسے مختلف ہے۔

اگر آپ ہر خط میں اردو گرامر کے قواعد‘ ضوابظ اور اصولوں میں سے ایک اصول کا ذکر عام فہم زبان میں کریں تو میں بھی بہت کچھ سیکھوں گا اور ان ادبی محبت ناموں سے مجھ جیسے اردو زبان و ادب کے اور بہت سے شاگرد بھی استفادہ کریں گے۔ آپ کا دوست اور تخلیقی ہم سفر

۔۔۔۔خالد سہیل۔۔۔۔۔

جون 2017

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail