”آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی“


ذہنِ انسانی بھی عجب گورکھ دھندا ہے۔ پیر کی رات میرے سونے سے قبل ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا پر JIT کی ایک رپورٹ کے دو صفحوں کا بہت ذکر رہا۔ یہ رپورٹ Whatsapp کی سہولت کے ذریعے چنے تفتیش کاروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے ایک بنچ کو لفافے میں لپیٹ کر پیش کی گئی تھی۔ لفافے میں موجود مواد کی سیکریسی کو یقینی بنانے کے لئے اسے سربمہر بھی کر دیا گیا تھا۔
مجھ ایسے خود کو پھنے خان رپورٹر سمجھنے والوں کو بھی یقین تھا کہ سربمہر رپورٹ کے ذریعے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو، جس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی فورم موجود ہی نہیں، یہ بتایا جائے گا کہ 5 جون 2017 کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی حسین نواز کی تصویر کیسے لیک ہوئی تھی۔ مذکورہ تصویر میں جوڈیشل اکیڈمی کے ایک کمرے میں وزیر اعظم نواز شریف کا ایک بیٹا مجرموں کی طرح تنہاءبیٹھا انتہائی پریشان دِکھ رہا تھا۔ یہ بات عیاں تھی کہ یہ تصویر 28 مئی کے دن لی گئی تھی جب حسین اس JIT کے روبرو پیش ہوئے تھے جو ان دنوں شریف خاندان کی دولت اور اثاثوں کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں تفتیش کر رہی ہے۔
یہ تصویر لیک ہوئی تو ملک میں ہاہاکار مچ گئی۔ نواز حکومت کے مخالفوں کا اصرار رہا کہ یہ تصویر حکومت اور خاص کر انٹیلی جنس بیورو نے لیک کی ہے تاکہ ایک کمرے میں مجرموں کی طرح بے بس و لاچار بیٹھے حسین نواز کے لئے ہمدردی کے جذبات اجاگر کئے جائیں۔
نواز حکومت اور انٹیلی جنس بیورو پر اس تصویر کو لیک کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اندھی نفرت میں مبتلا ذہنوں نے اگرچہ اس حقیقت پر غور ہی نہیں کیا کہ پاکستانی عوام کی بے پناہ اکثریت کا فوری ردعمل اسے دیکھ کر ”کونسی قیامت آگئی؟“ والا تھا۔ سینکڑوں بے گناہ یا گنہگار نوجوان وطن عزیز کے تھانوں میں کئی دنوں تک تذلیل کے طویل دن برداشت کرتے ہیں۔ کئی ایک کو پاکستان بھر میں پھیلے ”سیف“ اور Unsafe عقوبت خانوں میں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے عوام کی اکثریت کا خیال تھا کہ اگر اپنے خاندان کی بے پناہ دولت کا حساب دیتے ہوئے حسین نواز شریف کو ایک ٹھنڈے ٹھار کمرے میں چند گھنٹوں کے لئے اکیلے بیٹھنا پڑا تو کوئی انہونی نہیں ہوئی۔ اس کے بارے میں اتنا شور کیوں مچایا جارہا ہے۔
شریف خاندان اور ان کے چاہنے والوں کا دوسری جانب مگر اصرار تھا کہ یہ تصویر JIT کے ”اصل مالکوں“ نے جان بوجھ کر لیک کی تھی۔ مقصد اس کا JIT کی جانب سے تفتیش کے لئے بلائے جانے والوں کے دلوں میں خوف ڈالنا تھا۔ حسین نواز اسی بنیاد پر سپریم کورٹ یہ استدعا لے کر چلے گئے کہ لیک کرنے والوں کا سراغ لگایا جائے۔
پیر کی سہ پہر JIT کی ”سربمہر“ رپورٹ کے جو دو صفحات لیک ہوئے ان میں JIT نے واضح الفاظ میں یہ لکھا ہے کہ 5 جون کے روز حسین نواز کی تصویر Viral ہونے کے عین ”24 گھنٹوں“ کے دوران ہی لیک کرنے والے شخص کی نشاندہی ہوگئی تھی۔ اسے JIT کی معاونت سے فارغ کرکے اس کے محکمے میں واپس بھیج دیا گیا۔ اسے واپس لینے والے محکمے نے اب یہ اطلاع بھی دی ہے کہ لیک کرنے کے خلاف ”انضباطی کارروائی“ کی جارہی ہے۔
اس سے بھی اہم اطلاع یہ تھی کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو یہ تصویر وائرل ہونے کے عین ایک دن بعد بتا دیا گیا تھا کہ لیک کرنے والے کی شناخت ہوچکی ہے۔ اس کے خلاف انضباطی کارروائی کا عمل بھی جاری ہے۔ سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ اگر 7 جون کی صبح تک ہمارے عالیٰ جناب ججز کو خبر ہوگئی تھی کہ لیک کرنے والا کون ہے تو اس سوال کے بارے میں 12 جون کو سماعت کا تردد کیوں۔
اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ JIT کا اصل مقصد ”صاف شفاف“ تفتیشی عمل کے ذریعے شریف خاندان کی بے تحاشہ دولت اور اثاثوں کے بارے میں اٹھے سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ہے۔ ان سوالوں سے اکتا کر 20 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ کے دو معزز ججوں نے پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے شخص کو جرائم پیشہ گروہ کا ”گاڈ فادر“ بھی کہا تھا۔
نواز شریف تو ”گاڈفادر“ کہلائے مگر اس افسر کا نام ابھی تک صیغہ راز میں ہے جس نے حسین نواز شریف کی تصویر لیک کی تھی۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ہو پایا کہ اس افسر کا تعلق کونسے محکمے سے تھا۔ ریاستِ پاکستان کے دائمی اداروں کی عزت و تکریم کو مختصر لفظوں میں یوںکہہ لیجئے کہ بڑے اہتمام سے برقرار رکھا گیا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے وزیر اعظم کے منصب کی مگر اسلامی کے ساتھ جمہوریہ ہونے کے دعوے دار پاکستان میں کوئی توقیر ہی نہیں۔ گریڈ 18 کا افسر اور اس کا محکمہ یقینی طور پر مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کے مقابلے میں اپنے ”ناموس“ کو بچانے میں زیادہ کامیاب نظر آیا ہے۔
مسئلہ بخدا نواز شریف کی ذات کا نہیں ہے۔ اس ملک میں ایک مقبول ترین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو بھی سپریم کورٹ نے قتل کا مجرم ٹھہرایا تھا۔ اسے پھانسی کی سزا ہوئی۔ حالیہ تاریخ میں ایک اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ارسلان کے ابو نے صرف وہ چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں توہینِ عدالت کا مجرم قرار دے کر فارغ کردیا تھا جس کے ذریعے سوئس حکومت کو سرکاری خط لکھ کر یہ معلوم کرنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہِ مملکت نے اس ملک کے کونسے بینکوں میں ”حرام“ ذرائع سے جمع کی ہوئی کتنی رقم جمع کروا رکھی ہے۔ گیلانی نے اپنے ملک کے سربراہِ مملکت کی تذلیل کرتا یہ خط ایک غیر ملک کو لکھنا مناسب نہ سمجھا اور وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوگئے۔ اس فراغت کے بعد بھی موصوف پانچ سال کے لئے قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے نااہل ہوگئے۔
اس تناظر میں یقینا خوش نصیب ہے گریڈ 18 کا وہ افسر جس نے حسین نواز کی تصویر لیک کرتے ہوئے کئی دنوں تک وطن عزیز میں تھرتھلی مچائے رکھی اور ہم خستہ حال عوام کو اس کا نام بھی ہرشے کو”صاف شفاف“ رکھنے کے دعوے دار ”جمہوری دور“ اور ”عدالتی نظام“ کی برکتوں سے معلوم نہیں ہو پایا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف کے مقابلے میں اٹھارویں گریڈ کے افسر کے نام اور محکمہ کی ناموس کا جس انداز میں تحفظ ہوا ہے، اس کے بعد سے مائیں میرے ربّ سے فریاد کریں گی کہ ان کا بیٹا کبھی سیاست میں نہ آئے۔ خدا کرے وہ کبھی پاکستان کا وزیر اعظم نہ بنے۔ ہاں ربّ کریم اسے کسی نہ کسی طرح کسی ریاستی محکمے میں 18 ویں گریڈ کے عہدے پر ضرور فائز کردے۔
اس بات پر غور کرتے ہوئے سوگیا۔ منگل کی صبح اٹھا تو ایک مصرعہ ذہن میں گونجنا شروع ہوگیا۔ ”آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی“۔ کئی گھنٹے تلملا کر اس کا پہلا مصرعہ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ بنجر اور ماﺅف ہوئے میرے ذہن کو یہ دریافت کرنے میں ایک گھنٹہ لگاکہ یہ مصرعہ ایک فلمی گیت کا تھا۔ اس گیت کو اُردو اور فارسی کے ایک مہا اُستاد- صوفی غلام مصطفےٰ تبسم صاحب- نے لکھا تھا اور اسے ایک فلم کے لئے نسیم بیگم نے گایا تھا جس کی آواز مجھے اپنی جوانی میں بہت Haunting محسوس ہوتی تھی۔
”سوبار چمن مہکا، سو بار بہار آئی- دُنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی“ اس گیت کے ابتدائی بول ہیں۔ جو شعر ذہن میں آنہیں رہا تھا کچھ یوں ہے: ”دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے- آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی“۔
ان دنوں ہم بھی جمہوریت اور عدالتی عمل کے ہنگامے دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ معاملہ ان کے ساتھ بھی ”آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی“ والا ہوتا محسوس ہورہا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).