سیٹھ کو ذرا اختیار تو دیں


ہم نے کرپشن کا پانامہ کا میلہ لگا رکھا ہے۔ سیٹھ لوگ پریشان ہیں سٹاک مارکیٹ قلابازیاں کھا رہی ہے۔ ہمارا مشر کہتا ہے کہ پیسے غواڑے نوں لانجو نہ بہ زان ساتے۔ پیسے چاہئیں تو پھر پنگوں سے دور رہنا ہو گا۔ جو بات ہمارے مشر کو معلوم ہے وہ ہمارے بے ہدایت لیڈروں کو معلوم نہیں ہے۔

کاروباری لوگ بہت الگ طرح سے سوچتے ہیں۔ جب ایک عام آدمی اپنے بچے کو نصیحت کرتا ہے کہ پڑھو لکھو پھر کوئی اچھی کمپنی ڈھونڈو تاکہ اس میں نوکری کر سکو ۔ ایک سیٹھ اپنے بچے کو مشورہ دیتا ہے کہ اتنا پڑھو سیکھو کہ تم کو یہ سمجھ آئے کہ فائدہ کدھر ہے۔ ایک اچھی کمپنی ڈھونڈو تاکہ اسے خرید سکو۔ علم سے یہ سیکھو کہ اسے خریدنا کیسے ہے۔

سرمایہ ہمیشہ نفع یعنی فائدے کے پیچھے جاتا ہے۔ ہم اگر یہ سادہ سی بات سمجھ لیں۔ سرمایہ دار کو پاکستان میں نفع کمانے کے مواقع فراہم کر دیں تو ہمارے بہت سے درد دور ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ سمجھ ہوتی تو ہم پانامہ ایشو کو بہت طریقے سے حل کرتے۔ وہ حل ملک میں سرمایہ داروں کا اعتماد بڑھتا ہمارے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوتا۔ نئی سرمایہ کاری آتی۔

ہم نے تو سرمایہ داروں کو رلانا شروع کر رکھا ہے۔ انہیں ڈرا دیا ہے کہ یہاں پیسہ مت لگانا بزتی مفت ہو گی۔

ایک دوست کے ذریعے کراچی کے سیٹھوں کی نبض چیک کرائی ہے۔ ان کی باتیں سن کر ان کے حالات جان کر افسوس ہوا ہے۔ پروڈکشن کم ہوتی جا رہی ہے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے درجن کے قریب نئے لیبر قوانین کا نفاذ کیا ہے۔ خیر سے کسی ایک قانون کے لیے انڈسٹری سے مشاورت کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ مزدوروں سے تو چلو پی پی کو ووٹ لینے ہیں سیٹھوں سے پیسہ نہیں چاہئے وہ کیا ان کا گلا دبا کر نکلوانا ہے ۔

وفاقی حکومت بھی کوئی بہت اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہی ایکسپورٹ گرتی جا رہی ہے۔ وزیر تجارت کی سیاحت بڑھتی جا رہی ہے ۔

آپ کو بھی یاد آیا ہو گا کہ ہمارے ایک وزیر تجارت بھی ہوتے ہیں۔ ان کے دور میں ہمارے تجارتی خسارے میں اربوں ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ چلیں چھوڑیں اس بات کو وزیر صاحب کو نئی شادی کی دلی مبارک باد دیتے ہیں۔ ہسدے وسدے رہیں۔

ہم لوگوں کو کرپشن کا بڑا ہی درد ہے۔ یہ ہمیں کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔ ہم نے اپنے کاروباری طبقے کو شودر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ٹیکسوں نے اس طبقے کی کمر توڑ رکھی ہے۔ ٹیکس افسران نواب بنے پھرتے ہیں اور سیٹھ لوگوں کو غلاموں کی طرح دھمکاتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ ٹیکس بچائیں افسروں کی نوابی بڑھائیں۔ اکثر جو ٹیکس بچایا جاتا ہے منافع بھی بس اتنا ہی ہوتا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ٹیکس سسٹم حقائق کے مطابق نہیں ہے، بس کرپشن کو یقینی بناتا ہے۔

اکثر ہمیں مثال دی جاتی ہے کہ سیٹھوں کے اپنے کارخانوں میں بہترین کام ہوتا ہے۔ وہ اپنے لیے اچھے مینیجر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کی دفاتار کاروباری مراکز کارخانوں کی تعمیرات اعلی معیار کی ہوتی ہیں۔ ان کے کارخانوں کاروباری مراکز میں لگنے والے پنکھے بھی کئی دہائیوں تک ٹھیک چلتے ہیں۔ سرکاری پنکھے ہفتے بعد دیوانے سے گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔

عرض یہ ہے کہ آپ ان سیٹھ حضرات کو سسٹم میں شامل کر لیں ۔ جو ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے یا کسی شہر میں یا یونین کونسل میں اسے ہر سطح پر نگران کمیٹیوں میں ڈٓال لیں۔جو دس لوگ کسی ضلع میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ان کو ضلع کی نگران کمیٹیوں میں ڈالیں۔ جو پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا اسے مرکزی کمیٹی میں ڈال دیں۔

جو سرمایہ فراہم کرتا ہے اس کا کوئی کردار تو ترجیحات طے کرنے میں بھی ہونا چاہئے کہ نہیں۔ وہ یہ تو تجویز کر ہی سکتا ہے کہ اسے اپنے شہر میں سب سے زیادہ ضرورت کس سہولت کی ہے۔ شہری سہولیات کی ترجیحاتی لسٹ میں تو ٹیکس پئیر کی راہنمائی شامل ہونی چاہئے۔

ہمیں جو احتساب کا بہت مرض لاحق ہے۔ یہ احتساب بھی ٹیکس دینے والے سے زیادہ اچھا کون کر سکتا ہے۔ کم از کم اسے یہ احساس تو ہو گا کہ اس کے محنت سے کمائے پیسے کا یہ حشر ہو رہا۔ قومی اسمبلی کے ممبران جو اپنی مراعات میں اضافے کرتے رہتے ہیں۔ اس کی منظوری ٹیکس پئیر کمیٹی سے کیوں نہ لی جائے۔

ضلع میں انتظامی افسران شہری حکومت کے صرف ذاتی اخراجات کی منظوری بھی ٹیکس پئیر سے لی جائے تو فرق محسوس ہو گا۔

چھوٹے سر وڈے پیٹ والا سیٹھ جب جب انتظامی افسران ممبران اسمبلی سے پوچھے گا۔ کیوں بے حرام کا مال ہے ہمارا تمھیں اے سی کیوں چاہئے۔ تمھاری تنخواہ کیوں بڑھائیں تو یہ طاقتور حضرات اپنی اوقات میں آئیں گے۔

جب ٹیکس مانگتے ہیں تو ٹیکس دینے والے کو کوئی اختیار کوئی نگرانی بھی تو دے کر دیکھیں۔ ابھی تو اسے چور ہی بنایا ہوا ہے۔ٹیکس دینے والے کو ذرا سا اختیار ذرا سی عزت تو دیں۔ پھر دیکھیں کہ کتنا فرق پڑتا ہے۔ کم از کم ان کالم نگاروں کو تو چپ لگے گی جو تنخواہوں سے ٹیکس کٹوا کر ہی ہیرو بنے پھر رہے کہ ہم سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi