مسلم قدامت پسندی لڑائی ہار رہی ہے


تصویر کے چند چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دیکھ لیتے ہیں۔ انہیں محض اشارات سمجھنا چاہیے تاکہ ان کی مدد سے ایک بڑی تصویر کے خدوخال پہچاننے کی کوشش کی جائے۔ ایک خبر تو یہ ہے کہ ہمارے ممدوح چوہدری نثار علی خان صاحب نے فرمایا ہے کہ کوئٹہ میں مارے جانے والے دو چینی باشندے کاروبار کی آڑ میں تبلیغ کر رہے تھے۔ آئین کی شق 20 میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اور تبلیغ کا حق مذہبی آزادی کا جزو لاینفک ہے۔ قانون تعزیرات پاکستان میں تبلیغ کو جرم قرار نہیں دیا گیا۔ پاکستان سے ہر برس ہزاروں افراد تبلیغ کے لئے دنیا کے کونے کونے میں سفر کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ کو تو یہ فکر ہونی چاہیے تھی کہ ہمسایہ ملک سے آنے والے باشندوں کو کس نے اغوا کیا؟ ان مجرموں کا کھوج لگانا چاہیے۔ حضرت نے طرفہ ذہن رسا پایا ہے کہ ہمیشہ حقیقی سوال کو چھوڑ کر فروعات کی گلیوں میں نکل جاتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے…. اُدھر مشرق وسطیٰ کے بحران میں خلیجی ممالک کی باہمی کشمکش پر وہ برگ و بار آرہا ہے جس کی تخم ریزی ہم نے مرحوم جمیل الدین عالی کے پرجوش ترانوں کی مدد سے 1974 ءمیں کی تھی۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی صورت ہے۔ میاں نواز شریف کو یوں بھی ثالثی کا شوق ہے۔ کوئی بیس برس پہلے اسی ذوق کی تسکین کے لیے بوسنیا جا پہنچے تھے۔ ثالثی کروانے والے ممالک کے لیے سیاسی استحکام اور معاشی قوت ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف سعودی عرب اور ایران میں پل باندھ چکے ۔ اب نواز شریف سعودی عرب اور قطر میں موٹر وے تعمیر کریں گے۔ واماندگی شوق تراشے ہیں پناہیں…. اصل بحران بحیرہ عرب کے پانیوں میں نہیں، مارگلہ کی پہاڑیوں میں متمکن مقتدر قوتوں میں رسہ کشی کا ہے۔ کشیدگی کا یہ عالم ہے کہ زیر زمین تناﺅ سرعام الزامات کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عدلیہ کے دروازے پر ہر روز درخواستوں کا ایک پلندہ رکھ دیا جاتا ہے۔ کسی ادارے کی توقیر محفوظ ہے اور نہ کسی منصب کا احترام باقی رہا ہے۔ نومبر 1997 ء کی تمثیل کے ناخوشگوار مناظر ہاتھ بھر کے فاصلے پر ہیں۔ غور فرمائیے کہ اس پیالی میں دودھ ہے اور نہ چائے کی پتیاں، شیرینی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر بھاپ کے مرغولوں نے طوفان کا سماں باندھ رکھا ہے۔ یہ لڑائی دراصل مسلم قدامت پسندی اور جمہوری پاکستان کی لڑائی ہے۔ ضرب عضب کے خاتمے کا تو اعلان ہو چکا ۔ فساد کا رد بھی پس منظر میں جا چکا۔ اجتماعی مکالمے میں رائے کا اختلاف ناگزیر ہوتا ہے لیکن خاکسار کا موقف یہ ہے کہ لمحہ موجود کی تلخیوں سے قطع نظر وسیع تر نقشے پر مسلم قدامت پسندی یہ لڑائی ہار رہی ہے۔ تفصیل کا یارا نہیں۔ مختصر نکات پیش کئے دیتا ہوں۔
مسلم قدامت پسند ذہن اپنے تصور عالم کی کوئی قابل عمل معاشی بنیاد قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پیوستہ مفاد خوشحالی کا دائرہ وسیع کرنے پر تیار نہیں۔ کوشش یہ ہے کہ جدید ذرائع کی مدد سے قدیم اقدار کو قائم رکھا جا سکے۔ مفروضہ روایات کا تحفظ کیا جائے اور ازکار رفتہ ڈھانچوں کا احیا کیا جائے۔ یہ ایک سیاسی مقصد ہے اور یہی اسلام ازم ہے۔ اسلام ایک مذہب ہے اور ڈیڑھ ارب انسانوں کی جائز مذہبی آزادی سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیاکے کسی بھی عقیدے کی طرح اسلام قابل احترام ہے۔ اسلام ازم عقیدے کو سیاسی موقف کی صورت میں دیکھتا ہے ۔ یہ عقیدے کے منصب سے بھی انحراف ہے اور اسے قابل عمل سیاسی موقف کے طور پر ماننا بھی مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کی پسماندگی یورپ کے حق میں ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دو روزہ دورے میں ایک سو دس ارب ڈالر کے ہتھیار بیچ آئیں گے۔ مسلم قدامت پسندوں کی ناگزیر ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ و ہ انسانی احترام اور مواقع کی مساوات کا نمونہ اپنانے کی بجائے مراعات ، امتیاز اور رسوخ کی دنیا میں بس رہے ہیں۔
مسلم قدامت پسندوں کی دوسری اہم ناکامی یہ ہے کہ وہ ریاستی بندوبست کا کوئی قابل عمل نمونہ پیش نہیں کر سکے۔ کامیاب ریاستی بندوبست میں فرد کی مساوات اور اداروں کی ثقافت کو فوقیت دینا ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ممدوح نہ تو تکثیریت کے اصول کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں اور نہ منتخب نمائندوں کے ذریعے فیصلہ سازی کو عام آدمی تک رسائی دینے پر آمادہ ہیں۔ مستحکم سیاسی بندوبست تقاضا کرتا ہے کہ قصہ زمین برسرزمین طے ہونا چاہیے۔ بعد از موت معاملات کے بارے میں اختلاف ایسا نہیں جسے دلائل یا جنگ و جدل سے طے کیا جا سکے۔ البتہ فانی انسانوں کی زندگیوں کے بارے میں غور و فکر سے اس دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قدامت پسند جمہوریت سے بھی زیادہ عورت کی آزادی سے خوفزدہ ہیں۔ دیانت داری ، انسانی ہمدردی اور تخلیقی مساعی کو اگر نیکی سمجھ لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ صرف مطمئن ، پرامید اور خوش لوگ ہی اچھے لوگ ہو سکتے ہیں۔ ان اچھائیوں کو ترجیح دینے والے سیاسی بندوبست کا کوئی امکان ابھی مسلم دنیا میں نظر نہیں آتا۔
مسلم دنیا نے علم کی مزاحمت پر کمر باندھ رکھی ہے۔ یہ بحث اب لایعنی ہے کہ چھ سو برس پہلے کیمیایا اقلیدس کے میدان میں مسلمان علما نے کیا کارنامے سرانجام دیے تھے۔ علمی سعی کے بنیادی خدوخال تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہاں سے آگے اسی کو راستہ مل سکے گا جو جدید سائنس کے تحقیقی منہاج کو تسلیم کرے گا۔ مسلم قدامت پسندوں نے اپنی بالادستی کے خواب کو زندہ رکھنے کی امیدیں مابعد جدیدیت سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ مابعد جدیدیت کا اکھوا جدیدیت ہی سے پھوٹا ہے۔ جدیدیت کی مزاحمت کرنے والے مابعد جدیدیت سے کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ انحراف اور مزاحمت پر فخر کرنے والے قدامت پسند ذہن نے غیر حقیقی توقع باندھ رکھی ہے کہ وہ دنیا جسے مغرب کا مبہم لقب دے کر دن رات حریف قرار دیا جاتا ہے وہ مسلم قدامت پسندوں کے التباسی تصور عالم کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دے گی۔ اس دوران ہماری موجودہ ناکامیوں کا جواز یہ ہے کہ فلاں ابن فلاں اتنے کھا گیا۔ اسے کرپشن کی عام فہم لیکن گمراہ کن اصطلاح دی گئی ہے۔ اصل کرپشن یہ ہے کہ مسلم قدامت پسند ذہن جدید علم کی بنیاد پر پیداواری ، صنعتی اور تجارتی معیشت کی دنیا میں داخل ہونے سے گریزاں ہے۔ مسلم اکثریتی دنیا کے کلچر کی چار بنیادی خصوصیات ہیں۔ تشدد، ناانصافی، اونچ نیچ اور تبدیلی کی مزاحمت۔ یہ ناکامی کا نسخہ ہے۔ موجودہ دنیا عقیدے کی بنیاد پر قوموں اور گروہوں کے شناختی استحقاق کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے اور کسی ایک گروہ کی بالادستی کا خواب تو سرے سے ناقابل عمل ہے۔ اس وقت یوں لگتا ہے کہ مسلم قدامت پسندی غالباً اپنی حکمت عملی سے مغرب سمیت ساری دنیا کو قدامت پرست رجحانات پر مائل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے لیکن یہ ایک عارضی مرحلہ ہے۔ جدید دنیا اپنے مفادات کو سمجھتی ہے اور جلد یا بدیر مسلم قدامت پسندی کو غیر متعلق کر کے رکھ دے گی۔ دنیا کی اتنی بڑی آبادی کا انسانیت کے بڑے دھارے سے کٹ کر دوسرے درجے کے انسان بن جانا نہ تو خوشگوار ہو گا اور نہ اس سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ تاہم جاننا چاہیے کہ تاریخ اس کی ذمہ داری ان قوتوں پر عائد کرے گی جنہوں نے تنوع ، رواداری ، امن اور پیداوار کو رد کرتے ہوئے تشدد، انحراف اور مزاحمت کا انتخاب کیا ہے۔ یہ امر طے ہے کہ بیسویں صدی میں ابھرنے والا مسلمان قدامت پسند ذہن اپنی حتمی شکست کی طرف بڑھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).