سرمایہ دار سیاستدانوں کی کماؤ ملازم اتحاد سے جنگ


اب سیٹھ پہلے جیسے نہیں رہے کہ اندھا دھند اللہ توکل کام کر دیا۔ وہ صورتحال جان کر خوشی سے ڈوبنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ صورتحال سمجھے بغیر وہ اڑنے کمانے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ اپنے میمن اور شیخ حضرات کی بات نہیں ہو رہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بات ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں کاروباری لوگ اسی لیے دیوالیہ ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں صورتحال جان کر کام کرنے سے مستقل پرہیز ہے آج کے دور میں بھی۔

ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑے سرمایہ دار ادارے جہاں پیسے نہیں بھی لگاتے وہاں کے حالات سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ انکی دلچسپی صرف درست معلومات تک پہنچنے میں نہیں ہوتی۔ وہ اس پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ طاقت کے مختلف مراکز اور سوسائٹی اپنی مختلف سطحوں پر کیا سوچ رہی ہے۔

غلط صحیح کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مختلف سطحوں پر کیا سوچا جا رہا اس پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ سرمایہ کاروں کو ایسی ہی آگاہی فراہم کرنے والی ایک فرم کےمالک انیق ظفر کا کہنا ہے کہ یہی سوچ بعد میں فیصلہ کن ڈرائیونگ فورس بھی بنتی ہے۔ طاقت کے مختلف مراکز پر پکنے والی یہی سوچ ہوتی ہے جو واقعات کو ترتیب دیتی ہے۔

پاکستان میں طاقت کے مراکز میں کیا چل رہا اس کی ترتیب و تشکیل کیسی ہے ذرا دیکھیں ۔ ہمارے ہاں مذہبی جماعتوں کا اپنا ایک حلقہ اثر ہے۔ جتنا ان کا حلقہ اثر ہے اس سے ان کی سٹریٹ پاورکہیں زیادہ ہے۔ ہمارے مذہبی راہنما مدارس کے طلبا کو جب چاہیں روڈ پر لا کر سرکار کی دوڑ لگوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

مذہبی جماعتوں کی قیادت کیا چل رہا ہے کے حوالے سے بہت اپ ڈیٹ رہتی ہے۔ ان کی آگاہی دو حوالوں سے پوری ہوتی ہے نمبر ایک ان کا حلقہ اثر کیا سوچ رہا ہے۔ حلقہ اثر ازل سے امت کے غم میں نڈھال ہے۔ ساری دنیا میں مسلمان اسلام کے حوالے سے خدشات کا شکار رہتا ہے۔ عالمی سازشوں پر سوچتا کڑھتا رہتا ہے۔ جبکہ خود مذہبی قیادت اصل حالات کو جاننے کے لیے خاصی سرگرداں رہتی ہے۔ محنت کرتی ہے رابطے رکھتی ہے۔ سفارتی حلقوں کی باتیں کان لگا کر سنتی ہے۔ طاقت کے مراکز کے ساتھ بھی سرگوشیاں کرتی رہتی ہے۔ پھر اپنی آگاہی کو اور اپنے حلقہ اثر کی تشویش کو بیک وقت استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے راستے بناتی ہے۔ یہ اپنے راستے بناتی اپنے وجود کا احساس دلاتی ہر حال میں طاقت کے اصل مراکز کے ساتھ جڑ کر ہی رہتی ہے۔ ان سے راستے جدا نہیں کرتی انہی کی اتحادی رہتی ہے۔

فوج پاکستان میں طاقت کا اہم ترین مرکز ہے۔ چھاؤنیوں میں افسران پاکستان کے حوالے سے اگر کسی ایک ایشو پر مستقل پریشان رہتے ہیں تو وہ کرپشن ہے۔ اس پر دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بھی زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف اپنی طاقت اپنی کارروائیوں پر افسران کو اعتماد رہتا ہے۔ لیکن کرپشن کے حوالے سے آج کل وہ فرسٹریشن کا زیادہ ہی شکار ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوج ایک مستحکم ادارہ ہے جو ہماری بہت سی روایتی خرابیوں سے بڑی حد تک پاک ہے۔ اس کی وجہ فوج کا اندرونی احتساب کا مسلسل اور موثر نظام ہے۔

کرپشن کے خلاف افسروں کی تشویش جائز ہے اور پسندیدہ بھی۔ یہی تشویش جب پاکستان کے سیاسی نظام سے ٹکراتی ہے تو اس کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔ سیاستدان کسی اور مٹی سے بنی ہوئی مخلوق ہیں۔ ان کا مسائل کو دیکھنے کا زاویہ ہی الگ ہے پیمانے ہی اور ہیں۔ ظاہر ہے پھر زور آزمائی ہی ہونی ہوتی ہے جو پھر ہو کر رہتی ہے۔

پاکستان کا کارپوریٹ سیکٹر چھوٹو سا لگتا ہے۔ ہم بیس کروڑ آبادی کا ایک بڑا ملک ہیں تو جتنا بھی چھوٹا لگے یہ سیکٹر اتنا بھی چھوٹا نہیں ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کو ہر حکومت سے بے شمار مسائل ہیں۔ اس سیکٹر میں کافی حد تک میرٹ اور صلاحیت کے لیے ایک کھلا میدان ہے۔ آپ اپنا کام جانتے ہوں نتائج دے سکتے ہوں تو آپ کو یہاں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کارپوریٹ سیکٹر کے یہ میرٹ پر آگے آنے والے لوگ نظام حکومت کے شاکی ہیں۔ کرپشن ان کے لیے بھی ایک مستقل مسلہ ہے۔ اس مسلے سے ان کا واسطہ بھی روز پڑتا ہے۔ ایک عام فوجی افسر سے زیادہ کارپوریٹ سیکٹر نظام کی بوسیدگی کا شکار ہوتا ہے۔

اس سیکٹر کے پاس نظام کی زیادتیوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ بہت سارے حل بھی ہیں اور صلاحیت بھی۔ یہ سیکٹر ایک طاقت بھی رکھتا ہے وہ طاقت ہے میڈیا کو وسائل فراہم کرنے کی۔ کارپوریٹ سیکٹر اشتہارات کی صورت میں میڈیا کو وسائل شائد اب سرکار سے بھی زیادہ نہیں تو برابر ہی فراہم کرتا ہے۔

وردی والے افسر اور کارپوریٹ سیکٹر کے مینیجروں کا اتحاد فطری ہے کہ دونوں ملک کے حوالے سے یکساں تشویش شیئر کرتے ہیں۔ میڈیا کا ان دونوں سے اتحاد مالکان کی سطح پر منافع سے اور طاقت سے تعلق رکھتا ہے۔ اینکر حضرات کی صورت میں یہ اتحاد تھوڑی شکل بدلتا ہے۔ اینکروں صحافیوں کو اس اتحاد سے مسالے دار خبریں ملتی ہیں۔ ان خبروں کو چلاتے رہنے پر ان کے تعلقات بھی بنتے ہیں۔ اچھی تنخواہیں تو وہ اب لیتے ہی ہیں۔

ہمارے ہاں سیاست اب پیسے کا کھیل بن چکا ہے۔ پیسہ ظاہر ہے کاروبار کرنے والوں کے پاس ہی زیادہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست خود بھی سرمائے میں اضافے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں جو اس وقت ایک بڑی لڑائی جاری ہے یہ اصل میں اچھی تنخواہ لینے والے نوکری پیشہ افراد اور سرمایہ دار سیاستدانوں میں جاری ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi