اندھی ڈولفن سے ملاقات (ترمیم شدہ)


اگر جنگل میں شیر بادشاہ ہوتا ہے اور پھلوں میں آم کی خوشبو اور ذائقے کا مقابلہ کوئی پھل نہیں کر سکتا تو بغیر کسی تردید کے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی دریا میں دریائے سندھ کی لہروں میں مچلتی اندھی ڈولفن کا کوئی جوڑ نہیں۔ ڈولفن صرف مچھلی نہیں، ہوا کے جھونکے، پانی کے دباؤ اور سورج کی کرنوں کی مدد سے دیکھنے والی اس مچھلی کو آبی مخلوق میں اوتار کا درجہ دیا جائے تو مناسب ہو گا۔ بصارت سے محروم مگر بصیرت کا یہ عالم کہ سائنس دانوں کے نزدیک انسان کے بعد تمام جانداروں میں ڈولفن ذہانت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہے۔ اور پھر ڈولفن میں نابینا ڈولفن دنیا بھر میں صرف سندھو کی موجوں میں ملتی ہے۔ دنیا کے مستند اداروں نے سندھو کی اندھی ڈولفن کو ایسی نایاب مخلوق کا درجہ دے رکھا ہے جسے کائناتی ورثے کے طور پر تحفظ ملنا چاہیے۔

پچھلے دنوں سندھ سے خبر آئی کہ اس کمزور اور بے کس مخلوق کے ساتھ جنسی زیادتی کی مکروہ روایت ابھی تک موجود ہے۔ انسان کی جنسی ہوس عجیب و غریب راستے نکال لیتی ہے۔ شیخ سعدی کی گلستان کا باب پنجم (درعشق و جوانی) ہماری ہڈیوں میں اتر چکا ہے۔ مولانا رومی جیسے جید عالم نے مثنوی معنوی میں بہت کچھ ایسا لکھا جو انسانوں کی جنسی جبلت کے منہ زور ہونے کا تاریخی ثبوت ہے۔ دنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں انسان کجروی کا شکار نہیں ہوتے۔ انیسویں صدی میں لارڈ میکالے نے قانون تعزیرات ہند مدون کیا تو اس میں بھی حیوانات سے جنسی زیادتی کی دفعات شامل کیں۔ اس تمام عرصے میں انسانوں نے انسانیت تو نہیں سیکھی، ایک دوسرے پر انگلی اٹھانے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ کوئی پنجاب کی گائے بھینس کی مناجات لکھ رہا ہے تو کوئی درہ خیبر کے گدھے اور خچر کی مظلومیت پر دل گرفتہ ہے۔ سندھی بہن بھائی تو ایسے سیخ پا ہیں کہ کچھ بعید نہیں کہ جام شورو یونیورسٹی کے پروفیسر کامریڈ نایاب مراتوف کہیں سے شاہ جو رسالو کا ایک ایسا نادر مخطوطہ دریافت کر لیں جس سے ثابت کیا جا سکے کہ موہن جودڑو کے زمانے میں نابینا ڈولفن سندھو دیش میں حکمران تھی۔ ثبوت اس کا یہ کہ اگر ایک آنکھ سے محروم راجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران ہو سکتا تھا تو دو آںکھوں سے محروم سائیں بلھن اماں سندھ کی تہذیب کی وارث کیوں نہیں ہو سکتی تھی۔ لاڑکانہ میں کاری عورتوں کے قبرستان کے پہلو میں اندھی بلھن خاندان کی مہارانیوں کے مقبرے بھی دریافت کئے جا سکتے ہیں۔ دریائے سندھ کی نایاب اندھی ڈولفن کے ساتھ خلاف وضع فطری فعل کی نشان دہی پر راڑ رولا اس قدر بڑھا کہ قریب تھا کہ پختون تلواریں، پنجابی گنڈاسے اور سندھی کلہاڑیاں مہابھارت کا منظر پیش کریں، “ہم سب” نے اپنے خصوصی نامہ نگار رشید پندھرانی کو سندھ روانہ کیا تاکہ واقعاتی حقائق کی تصدیق ہو سکے۔ خوش قسمتی سے خیر پور میڑس کے نوے سالہ بزرگ اللہ ڈینو نے ہم سب کے وقائع نگار رشید پندھرانی کو اعتماد میں لے کر بتایا کہ اندھی بلھن کے شاہی خاندان کی کچھ مچھلیاں سندھو دریا کے ایک خاص حصے میں صدیوں سے پناہ گزین ہیں۔ یہ خاندان تالپور گھرانے کی سندھ پر حکمرانی سے بہت پہلے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر چکا تھا۔ بلھن گھرانے میں نسل در نسل روایت چلی آ رہی ہے کہ آٹھویں صدی میں راجہ داہر کی وفات کے بعد سے سندھ میں انصاف کی ارتھی اٹھ چکی ہے۔ جو لوگ زمیں کاشت کرنے والے مزارعے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے، اپنے بچوں کو  جنم دینے والی عورتوں پر تشدد کرتے ہیں، جنہیں علم سے محبت نہیں، جو ایک عورت کے پاسپورٹ پر ایک مرد کے ویزے کو حسب نسب کا پیمانہ جانتے ہیں۔ بھلے بیٹا ذوالفقار علی بھٹو جیسا ساونت ہی کیوں نہ ہو، ماؤں کی غربت معاف نہیں کرتے، ایسے لوگ بلھن رانی کی حکمرانی کے مستحق نہیں ہو سکتے۔

رشید پندھرانی کی منت سماجت پر اللہ ڈینو ملاح انہیں کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ایک خصوصی ڈونگھی میں بٹھا کر دریائے سندھو کی تہہ میں اس غار تک لے گیا جہاں اندھی بلھن کا خاندان پناہ گزین ہے۔ رشید پندھرانی بتاتے ہیں کہ لاکھوں کیوسک پانی کی منہ زور موجوں کے نیچے بلھن گھرانے کی یہ پناہ گاہ اپنی شان و شوکت میں کسی محل سے کم نہیں۔ کچھ چست اور توانا مچھلیاں بڑے دروازے پر پہرہ دے رہی تھیں۔ گول پتھروں سے چنی دیواروں  کے بیچ بلھن مچھلیاں روز مرہ کے معمولات میں مصروف نظر آ رہی تھیں۔ یہ گمان کرنا مشکل تھا کہ سندھ دریا کی تہ میں اندھی بلھن کی محل سرا پر صدیوں پر پھیلا وقت گویا گزرا ہی نہیں۔ چارلس نیپئر نے سندھ کو فتح کرنے کا گناہ نہیں کیا۔ اپنے نام سے آباد کئے جانے والے بازار میں سندھ کی بیٹیوں کو طوائفیں بنا کر نہیں بٹھایا۔ ایوب کھوڑو کو کسی نے معزول نہیں کیا، ابراہیم جوئیو کو کسی نے برطرف نہیں کیا، سوبھو گیانچندانی کو کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ حسن ںاصر کو کسی نے روپوش ہونے پر مجبور نہیں کیا۔ ون یونٹ کے بننے اور ٹوٹنے کے چودہ برس ایک خواب کی طرح گزر گئے۔ یہاں کسی کالاباغ  یا پگارو کا سایہ نہیں پڑا۔ گوہر ایوب کے سروس ریوالور سے اگلتی گولیوں نے سندھ کی زمیں کو لال نہیں کیا۔ فاطمہ جناح بھی تو ایک بلھن مچھلی تھی، اسے سندھ کے ساحلوں پر بیٹھ کر راکھشس سے ٹکر لینے کی سزا دی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو بلھن رانی کا چہیتا بیٹا تھا۔ عاشق مزاج، نرم دل، غریبوں کا درد مند، اور تھر کی ریت پر پچھانڈو کی پہچان رکھنے والے زلفی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ اس کے چھوٹے بیٹے کو زہر دیا گیا، اس کے بڑے بیٹے کو کراچی کی سڑک پر گولیوں سے بھون دیا گیا، ہسپتال میں اس کے بدن سے لمحہ بہ لمحہ نچڑتا خون طبیب کی توجہ مانگتا رہا۔ زلفی کی بیٹی بے نظیر رانی کو دور پوٹھوہار کی پہاڑیوں میں شہید کیا گیا۔ زلفی بادشاہ کی بیوہ ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ سندھ پر جام صادق علی، ممتاز بھٹو اور ارباب غلام رحیم حکومت کرتے رہے۔ انہیں کیا معلوم کہ تعلقہ ڈوکری میں کھجی کے باغوں میں گرمی کے موسم میں جو باس اٹھتی ہے اس میں غریب کے پسینے کی خوشبو کیسے شامل ہوتی ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ سندھ کے ساحلوں سے پرندے رخصت ہو چکے ہیں۔ حیدر آباد میں عورتیں جنازے اٹھا کر نکلتی ہیں۔ سندھ میں دیش کا نام اٹھانے والے قبضہ گیر اور قاتل ہیں۔ وہ دو ٹانگوں پر چلنے والی بیٹیوں کی عزت لوٹ لیتے ہیں۔ وہ دو آنکھوں سے خالی اماں بلھن سائیں کی عزت کرنا کیا جانیں؟

رشید پندھرانی کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں پانی کے چھوٹے سے تالاب میں دیوار سے لگ کر بیٹھی اندھی بلھن اماں سائیں اتنے رسان سے بیان کر رہی تھیں کہ خود ان پر دن کی روشنی کی طرح ظاہر ہو گیا کہ سندھ میں زمیں پر وڈیرے اور فقیر سائیں کی ناانصافی ہے اور دریا کی موجوں میں اندھی بلھن کی عزت محفوظ نہیں۔ بلھن محض ایک اندھی مچھلی نہیں، سندھو میں انصاف کا نشان ہے۔ یہ انصاف زمیں پر بھی ہونا چاہیے اور سندھو کی موجوں میں بھی۔ اندھی بلھن کی انکھوں سے آنسو نہیں بہتے لیکن سندھو کی مہارانی بلھن مائی جانتی ہے کہ سندھ میں یوسف زئی ماؤں کے آنسو سوکھنے نہیں پاتے، بوڑھے پھلپھوٹو کی کمر سیدھی نہیں ہو پاتی۔ وڈیرے کا جبر ختم نہیں ہوتا۔ سندھ کے پانیوں میں بھٹکتی اندھی بلھن کی عزت تبھی بچ سکے گی جب سندھ کی زمیں پر عورت، غریب اور کمزور کا احترام بحال ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).