جنرل صاحب دس سال کیوں خاموش رہے؟


کاش کہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے، جو سچائیاں 2021ء میں بیان کی ہیں، یہ سچائیاں 2011ء میں بیان کر دیتے۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری کا نام ”اقتدار کی مجبوریاں‘‘ رکھا ہے اور شاید انہیں مجبوریوں کی وجہ سے انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد تیس سال تک کچھ اہم معاملات پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ جنرل صاحب کی سوانح عمری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بڑی متحرک زندگی گزاری اور اسی لیے دس سال پہلے امریکی حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لیے ان سے رابطہ کیا کیوں کہ جنرل صاحب کے طالبان سے رابطے برقرار تھے۔ جنرل صاحب نے اس سلسلے میں، جس راز سے پردہ اٹھایا ہے اگر یہ راز دس سال پہلے سامنے آ جاتا تو شاید میری بہت سی مشکلات آسان ہو جاتیں۔ بہرحال دیر آید درست آید۔

جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنی سوانح عمری میں انکشاف کیا ہے کہ دس سال قبل انہیں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے فون کیا کہ امریکا کے سابق نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیج آپ سے ملنا چاہتے ہیں، آپ کل سفارت خانے میں ان کے ساتھ لنچ کریں۔ جنرل صاحب نے جواب میں کہا کہ اگر آرمٹیج ان سے ملنا چاہتے ہیں تو میرے گھر تشریف لائیں میں سفارت خانے میں نہیں آؤں گا۔

وہ مان گئے اور اگلے دن صبح گیارہ بجے ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔ جنرل صاحب کے بقول انہیں اندازہ تھا کہ امریکا افغان طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنا چاہتا تھا لہذا انہوں نے اپنی مدد کے لیے کرنل امیر امام کو بلا لیا۔ آرمٹیج نے امیر امام کو دیکھا تو گھبرا گئے لیکن جب تعارف کرایا تو پہچان گئے کہ یہ وہی امیر امام ہیں، جو ہرات میں پاکستان کے قونصل جنرل تھے۔

رچرڈ آرمٹیج مطمئن ہو گئے اور صاف صاف بتایا کہ امریکا افغان طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ کافی تفصیل سے بات ہوئی اور طے پایا کہ مذاکرات کے لیے کوشش ضرور کی جائے گی۔ کرنل امام نے طالبان سے رابطہ کیا اور طالبان نے انہیں مذاکرات کے لیے پانچ نام دے دیے، جن میں تین پختون، ایک تاجک اور ایک ہزارہ شامل تھے۔ کرنل امام نے یہ نام آرمٹیج تک پہنچا دیے، جن کے ساتھ ان کا ای میل پر رابطہ تھا۔ کرنل امام سب معاملے سے متعلقہ پاکستانی حکام کو بھی باخبر رکھے ہوئے تھے۔ ایک دن کرنل امام اپنے ساتھ سابق ونگ کمانڈر خالد خواجہ کو لے آئے۔ خالد خواجہ نے بتایا کہ وہ ایک برطانوی ٹی وی چینل کے لیے پاکستان اور افغان طالبان پر ڈاکیومینٹری بنانے کے لیے قبائلی علاقوں میں جائیں گے۔ جنرل بیگ نے انہیں منع کیا۔ خالد خواجہ نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں، وہاں میرے کچھ دوست میرا خیال رکھیں گے۔

جنرل بیگ نے کرنل امام سے پوچھا کہ آپ تو نہیں جا رہے تو انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جا رہے۔ چند دنوں بعد معلوم ہوا کہ دونوں مشن پر روانہ ہو چکے ہیں، پھر خبر آئی کہ دونوں کو اغوا کر لیا گیا اور پھر دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ اس سازش کا مقصد طالبان اور امریکا میں مذاکرات کی کوشش کو ناکام بنانا تھا۔

اب ذرا دس سال پیچھے چلے جائیں۔ کرنل امام کا اصل نام سلطان امیر تارڑ تھا۔ انہوں نے اغوا ہونے کے بعد ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا، جس میں اعتراف کیا کہ وہ جنرل مرزا اسلم بیگ کے مشورے سے شمالی وزیرستان آئے تھے۔ خالد خواجہ کا بھی ایک ویڈیو پیغام سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل حمید گل اور آئی ایس آئی کے کرنل سجاد کے کہنے پر یہاں آئے۔

ان دونوں کے ساتھ ایک پاکستانی نژاد برطانوی صحافی اغوا ہوا۔ اغوا کاروں نے اسے تو رہا کر دیا اور آئی ایس آئی کے ان دونوں سابقہ افسروں کو قتل کر دیا۔ ان دونوں کی تدفین کے تین ہفتے بعد خالد خواجہ کے برخوردار نے تھانہ شالیمار اسلام آباد میں درخواست دی کہ ان کے والد کو حامد میر نے اغوا اور قتل کرایا۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میرے خلاف پروگرام شروع ہو گئے اور الزام لگایا کہ میں نے امریکا اور بھارت کی ملی بھگت سے خالد خواجہ کو قتل کرا دیا۔ اس سلسلے میں کرنل امام کا خاندان خاموش رہا لیکن خالد خواجہ کا خاندان بہت متحرک تھا۔ ایک حکومتی وزیر نے مجھ سے کہا کہ آپ لاپتا افراد کے معاملے پر خاموش ہو جائیں تو یہ مقدمہ رفع دفع ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں ٹیلی فون پر میری مبینہ گفتگو کی ایک ٹیپ کو بہ طور ثبوت سامنے لایا گیا، جس میں مجھے یہ تک پتا نہ تھا کہ خالد خواجہ شمالی وزیرستان میں ہیں یا خیبر ایجنسی میں اغوا کیے گئے۔ الزام بہت کمزور تھا۔ پولیس نے مقدمہ درج نہ کیا تو عدالتوں میں درخواست دائر کی گئی۔ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے بھی ان درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ اس دوران آڈیو ٹیپ کا فرانزک ٹیسٹ ہوا تو یہ جعلی نکلی لیکن ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ انگریزی اخبار ڈان اور برطانوی اخبار گارڈین میں بھی میرے خلاف بے بنیاد خبریں شائع ہوئیں۔

اس دوران جنرل مرزا اسلم بیگ خاموش رہے۔ وہ یہ بتا سکتے تھے کہ خالد خواجہ اور کرنل امام کو حامد میر نے شمالی وزیرستان نہیں بھیجا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا، جس کے بعد معاملہ ختم ہو گیا۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ سات سال کے بعد 2017ء میں ایک دفعہ پھر خالد خواجہ کی اہلیہ کی طرف سے ایک درخواست دی گئی، جس میں کہا گیا کہ حامد میر نے ان کے خاوند کو 2010ء میں اسلام آباد سے اغوا کیا اور شمالی وزیرستان میں قتل کرا دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے حکم پر تھانہ رمنا میں میرے خلاف سات سال پرانے واقعے کی ایف آئی آر درج کرا دی گئی۔ میں نے ضمانت قبل از گرفتاری کرائی اور شاملِ تفتیش ہو گیا۔ دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ 2010ء میں تھانہ رمنا کا وجود ہی نہیں تھا اور اس تھانے کو 2017ء میں میرے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم ہوا۔

ایک دفعہ پھر جنرل مرزا اسلم بیگ خاموش رہے۔ پولیس نے درخواست گزار خاتون سے کہا کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرائیں لیکن وہ پیش نہ ہوئیں کیوں کہ وہ اپنے خاوند خالد خواجہ کے بارے میں ‘شہید امن‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ چکی تھیں، جس کے بیک ٹائٹل پر جنرل مرزا اسلم بیگ نے کتاب کا تعارف لکھا تھا۔ میں نے پولیس کو یہ کتاب دی اور کہا کہ اس کتاب کے مطابق مرحوم خواجہ صاحب اپنی مرضی سے شمالی وزیرستان گئے تھے۔

ایک سینیئر صحافی جناب عبدالودود قریشی صاحب نے بھی پولیس کو بیان دیا کہ خالد خواجہ انہیں بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے معذرت کر لی تھی۔ سابق رکن قومی اسمبلی جاوید ابراہیم پراچہ نے بھی پولیس کو بیان دیا کہ خالد خواجہ اور کرنل امام ایک برطانوی صحافی کے ہم راہ 24 مارچ 2010ء کو ان کے گھر آئے اور کہا کہ وہ شمالی وزیرستان جا رہے ہیں۔ دونوں نے رات ان کے گھر کوہاٹ میں گزاری۔

جناب پراچہ صاحب نے دونوں کو شمالی وزیرستان جانے سے روکا لیکن وہ نہیں رکے۔ ان سب بیانات کی روشنی میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ حامد میر نے خالد خواجہ اور کرنل امام کو اغوا نہیں کیا، دونوں اپنی مرضی سے شمالی وزیرستان گئے اور یوں ایک دفعہ پھر عدالت نے میری جان بخشی کی۔

غور طلب بات یہ ہے کہ خالد خواجہ اور کرنل امام پرائیویٹ مشن پر نہیں تھے۔ ان کے ہم راہ جانے والے برطانوی صحافی کا بھی پاکستانی اداروں سے رابطہ تھا لیکن وہ رہا ہو گیا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے خود اعتراف کیا کہ کرنل امام نے طالبان سے اپنے رابطوں کے متعلق پاکستانی حکام کو بھی آگاہ کر رکھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جب میرے خلاف بار بار جھوٹا الزام لگایا گیا تو جنرل بیگ بھی خاموش رہے اور ادارے بھی خاموش رہے۔ اس واقعے کے بعد طالبان نے میری گاڑی کے نیچے بم لگانے کا دعویٰ کیا۔ 2014ء میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا، مجھ پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ پھر 2017ء میں خالد خواجہ کے قتل کا الزام پھر سے لگایا گیا اور آخر میں 2021ء میں مجھ پر پابندی لگا دی گئی۔

کیا آپ کو ان سب واقعات میں کوئی تسلسل نظر آتا ہے، کوئی تعلق نظر آتا ہے؟ مجھے غدار، کافر اور نہ جانے کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ جب کچھ ثابت نہ ہوا، تو پابندی لگا دی گئی۔ وہ احسان اللہ احسان، جس نے 2012ء میں میری گاڑی کے نیچے بم لگانے کا دعویٰ کیا تھا، وہ پراسرار طور پر پاکستانی اداروں کی قید سے فرار ہو گیا۔ میں آج تک اس آدمی سے نہیں ملا لیکن جب سے مجھ پر پابندی لگی ہے، احسان اللہ احسان سوشل میڈیا پر میرے خلاف بیان بازی میں مصروف ہے۔ وہ یہ سب کس کے کہنے پر کر رہا ہے؟ ہو سکتا ہے دس سال بعد کوئی اور جنرل مرزا اسلم بیگ ان رازوں سے بھی پردہ اٹھا دے کیوں کہ اقتدار کی بہت مجبوریاں ہوتی ہیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments