جنگ محبت سے نہیں جیت سکتی!


وہ لمبا چوڑا خوبصورت نوجوان تھا۔ سب سے مزے کی چیز اس کے گالوں میں پڑنے والے ڈمپل، سنہرے بال اور اس کی چمک دار آنکھیں تھیں۔ دنیا جہان کے کھیل اسے پسند تھے ۔ سکول میں وہ باسکٹ بال کھیلتا تو کئی لڑکیاں صرف اسے دیکھنے کے لیے آتی تھیں۔ وہ یہ سب جانتا تھا لیکن اسے زیادہ دلچسپی اپنے کھیل میں تھی۔ وہیں ایک لڑکی ایسی بھی تھی جو صرف اس کے میچ میں چیئر لیڈر بننے آتی تھی۔ جب بھی اس کی ٹیم کا میچ ہوتا تو وہ لڑکی شوخ لباس پہنے انہیں بک اپ کرنے کے لیے موجود ہوتی تھی۔ چھ سات ماہ گزرے تو آخر پتھر کی سل گھس گئی، نوجوان اس لڑکی کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ وہ دونوں 1941میں پہلی بار ملے ۔

جب تک ہائی سکول کے تعلیمی سال مکمل نہ ہوئے وہ دونوں ہمیشہ ساتھ رہے ۔ لڑکے نے سکول کی الوداعی تقریب میں اسے ایک انگوٹھی بھی پہنائی لیکن یہ منگنی وغیرہ کا چکر نہیں تھا، صرف ایک محبت بھرا تحفہ تھا۔ شاید وہ جانتا تھا کہ لڑکی کو کسی بندھن میں باندھنا اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ اسے اپنا مستقبل ہمیشہ سے فوج میں نظر آتا تھا۔

“کاش میں کرسمس کسی طرح اپنے گھر میں گزار سکوں۔ لارا اگر یہاں میرے ساتھ ہوتی تو شاید یہ تنہائی مجھے اس قدر پریشان نہ کرتی۔ کل رات تک میرے پاس صرف ایک سو بیس ڈالر تھے لیکن اب میں کافی امیر ہوں۔ دو سو ڈالر میں نے ابھی کل رات کی گیم میں جیتے ہیں۔ یہ پیسے بہت ہیں اگر میں کرسمس کے لیے گھر جانا چاہوں تو۔ لیکن چلتی جنگ میں کون سا فوجی زندہ گھر گیا ہے ، یہ پیسے میں لارا کو ہی بھیج دوں گا”۔

وہ پیسے لارا تک کبھی نہیں پہنچے ، نہ ہی لارا مے دوبارہ کبھی جونز کو مل پائی۔ وہ جب فوج میں گیا تو دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ جنگ بہت وسیع و عریض پیمانے پر جنگل کی آگ جیسے پھیلتی ہے ، اس میں یہ چھوٹے موٹے پیار محبت کے قصے کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتے ، اور وہ تو دوسری عالمی جنگ تھی۔ تو لارا نے تین چار برس انتظار کرنے کے بعد شادی کر لی۔ “جس کسی کو بھی یہ ڈائری ملے وہ اسے مس لارا مے ڈیوس کو پہنچا دے ۔ اس میں کچھ خاص نہیں ہے بس میری زندگی کے حالات ہیں، امریکی فوج میں شامل ہونے کے قصے ہیں اور وہ سارا پیار ہے وہ ساری محبت ہے جو میں لارا سے کرتا ہوں۔ اس کے متعلق میرے ذہن میں جو کچھ بھی آتا ہے میں بس یہاں لکھ دیتا ہوں۔ اگر کسی بھی طرح یہ ڈائری آپ کو مل جائے تو میری آخری خواہش ہے کہ اسے لارا تک پہنچا دیا جائے ۔”

بائیس سالہ جونز ستمبر 1944 میں مارا گیا۔ ایک چھوٹی سی کاپی نما ڈائری میں جونز کی تمام یادیں محفوظ تھیں۔ اس کے آخری صفحے پر لارا کی خوبصورت سی تصویر چسپاں تھی جس پر لکھا تھا، لارا میں تم سے محبت کرتا ہوں! یہ ڈائری جنگ کے بعد دیگر سامان کے ساتھ جونز کی بہن کے پاس آئی۔ چند آنسو بہا کر اس نے اسے ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔ وہ اس لڑکی کو نہیں جانتی تھی۔ وقت کی دھول ایک بائیس سالہ نوجوان کی ہر یاد چاٹ گئی، جس کے بال سنہرے تھے اور جو ہنستا تو گالوں میں ڈمپل پڑتے تھے، سب کچھ مٹ گیا۔

تقریباً ساٹھ برس کے بعد جب گھر کا کاٹھ کباڑ صاف ہوا تو ایک امریکی جنگی میوزیم کو جونز کے بھانجے نے اس کی وردی، ہیلمٹ اور دوسرا تمام سامان دے دیا۔ میوزیم والوں کے پاس پہلے ہی بہت سی چیزیں جمع تھیں۔ انہی میں کہیں ایک جگہ جونز کے نام کا کھمبا بھی بنا دیا گیا۔ ایک سٹینڈ پر اس کا جنگی ہیلمٹ اور وردی کسی گئی۔ ہتھیاروں والی بیلٹ سجائی گئی، جوتے رکھے گئے ، پانی کی بوتل رکھی گئی، جو بھی الا بلا انہیں مل سکا تو وہ سب خوبصورتی سے سجا دیا گیا۔ ایرک کے لیے ویسے بھی یہ بڑا بور قسم کا معاملہ تھا۔ سترہ برس کی نوکری میں کتنے ہی لوگ عجائب گھر آئے تھے اور ڈسپلے پر لگی چیزیں دیکھ کر چلے گئے تھے ۔ کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں تھا جو ان کاغذات سے دلچسپی ظاہر کرتا۔ یہ سب مرنے والے بہت پہلے مر چکے تھے ، ان کے دوست یار اگر کوئی ہوں گے بھی تو وہ سب قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے ۔ یادوں کے اس قبرستان میں کون تھا جو ان کو جانتا ہوتا۔ بس ہر فوجی کی تصویر اور سامان دیکھ کر ایرک حساب کتاب لگاتا رہتا کہ اس کی آنکھوں میں کتنے خواب تھے اور وہ آنکھیں کب کسی نامعلوم گولی سے بند ہو گئیں۔ کئی ہیلمٹوں میں تو مرنے والے کی کھائی گئی آخری گولی کا نشان بھی ہوا کرتا تھا۔

نیو آرلینز میں دوسری عالمی جنگ کا قومی عجائب خانہ 2013 کی ایک ٹھنڈی صبح دھوپ کا استقبال کر رہا تھا۔ ایرک حسب معمول اپنی بورنگ سی ڈیوٹی نبھانے کے لیے آ چکا تھا۔ اخبار پڑھتے پڑھتے اس نے دیکھا کہ ایک انتہائی ضعیف عورت کارپورل تھامس کاٹن جونز کے یادگاری شیلف کے پاس کھڑی ہے اور اس کی سسکیاں نکل رہی ہیں۔ وہ جلدی سے پانی لے کر گیا، اسے پانی پلایا اور کرسی پیش کی کہ وہ آرام سے بیٹھ سکے ۔ اس نے اشاروں میں پوچھا کہ کیا وہ ڈائری اسے دیکھنے کو مل سکتی ہے ۔ جب تک ایرک دستانے لے کر آیا وہ عورت بولنے کے قابل ہو چکی تھی۔ نوے برس کی لارا مے ڈیوس برلنگم نے حفاظتی دستانے پہنے اور ایرک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ڈائری تھام لی۔

جونز کی آخری خواہش پوری ہونے میں ستر برس لگے تھے ۔

یہ دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں مرنے والوں میں سے ایک فوجی کی کہانی تھی۔ کسی بھی بات پر لڑنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن انجام ہمیشہ بات چیت پر آ کر رکتا ہے ۔ اس بات چیت، ان مذاکرات کا فائدہ کیا ہے جس میں لاکھوں لوگوں کی قبر پر ٹانگ رکھ کے صلح کی جائے یا کروڑوں دل مسل دئیے جائیں۔ بڑے سے بڑا ہتھیار بنا لیجیے ، پوری دنیا تباہ کر دیں، چاند پر بھی بم مار دیں، مریخ کو تاراج کر دیں لیکن مسائل کا حل بہرحال ٹیبل ٹاک میں ہے ، مکالمے میں ہے ۔ پہلی عالمی جنگ ہوئی، دوسری ہوئی، تیسری کب سے دستک دے رہی ہے ، ہو بھی جائے تو کیا ہے ، ہزاروں جونز اور کام آ جائیں گے لیکن ایک انسان کی زندگی اتنی بے قیمت نہیں ہوتی کہ اسے ایسی بے رحمی سے ختم کر دیا جائے ۔ جو قومیں جنگ مسلط کرنے کا شوق رکھتی ہیں اکثر معلوم تاریخ میں انہیں پسپا ہوتے بھی دیکھا گیا ہے ۔ منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے دنیا بھر کو للکارنا ہمارے یہاں کے مقبولیت پسندوں میں ایک عام سا شوق ہے لیکن اس کے نتیجے میں کتنے ذہن شدت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ دفاع کی طاقت رکھنا اور جنگ کا شوق ہونا، ان میں بال برابر فرق ہے ، جو یہ جان گیا وہ عافیت میں ہے ۔

(بشکریہ روز نامہ دنیا)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain