جنہیں خریدا نہیں جا سکتا


”لطیف مغل صاحب اگر مزدوروں سے کہہ د یں کہ وہ گولڈن ہینڈ شیک قبول کرلیں تو معاملات بہت سنبھل سکتے ہیں “۔ چیف منسٹر ہاؤس میں میرے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں اس وقت کی کے ای ایس سی کی انتظامیہ نے مجھ سے کہا۔

”لطیف مغل صاحب آخر مزدوروں سے ایسی بات کیو ں کہنے لگے ؟“ میں نے جواب دیا۔

”وہ آپ کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔ آپ کہیں گے تو فورا مان جائیں گے۔ “ یہ انتظامیہ کا استدلال تھا۔

میں نے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کو سمجھایا کہ جس بات پر میں خود مطمئن نہیں ہوں اس کو کسی دوسرے سے کس طرح کہہ سکتا ہوں اور فرض کریں اگر میں ایسی بات اشارتا بھی لطیف بھائی سے کہہ دیتا ہوں تو میری ان سے چالیس سالہ دوستی خطرے میں پڑ جائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم یہاں مسائل کو حل کرنے کے لئے بیٹھے ہیں اور وہ ایسی بات کیوں بیچ میں لا رہے ہیں جس پر بات سرے سے ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کی ضد تھی کہ لطیف مغل صاحب اگر مزدوروں سے گولڈن ہینڈ شیک لینے کے لئے کہدیتے ہیں تو ہمارے نوے فیصد مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا سوائے اس کے کہ میں میٹنگ کو ختم کردوں۔

کے ای ایس سی انتظامیہ جب دوبارہ مجھ سے ملنے آئی اس وقت لطیف بھائی کے کینسر کی تشخیض ہو چکی تھی۔ کے ای ایس سی کے ملازمین کو یونین سے معاہدے کے تحت علاج کی سہولت حاصل تھی۔ میں نے جب لطیف بھائی کے علاج کی جانب انتظامیہ کی توجہ دلائی تو انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگلے ہی روز سے لطیف بھائی کا علاج شروع ہوجائے گا۔ اگلے ہی روز کو تو جانے دیں۔ بار بار کی یاد دہانی کے باوجود صرف آج اور کل کے وعدے ہوتے رہے۔علاج شروع نہیں ہوا۔ تنگ آکر میں نے وزیر اعلی جناب قائم علی شاہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ پر زور ڈالیں کہ لطیف بھائی کا علاج شروع کرا یا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے ای ایس سی کی انتظامیہ کے وعدوں پر نہ جائیں۔ مجھے کل ہی نوٹ بھیجیں۔ ہم ان کا علاج خود کر ائیں گے۔علاج شروع ہوا لیکن اس دوران چار ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔

تمامتر علاج کے باوجود لطیف بھائی کی حالت روز بروز گرتی چلی گئی۔ وہ سخت جسمانی اذیت میں مبتلا تھے لیکن اپنی بیماری سے مردانہ وار جنگ کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پورے عزم و استقلال کے ساتھ مزدور تحریک اور پارٹی کی ذمہ داریوں کو نبھا رہے تھے۔ کے ای ایس سی کے مزدوروں کا سیدھا سادہ مقدمہ بھی طول پکڑتا چلا جا رہا تھا۔لطیف بھائی ختم ہو گئے۔ مزدوروں کا مقدمہ ختم نہیں ہوا۔ اسلم سموں بھائی نے لطیف بھاائی کی یاد میں منعقد ہونے والے پریس کلب کے جلسے کو بتایا کہ ان کی وفات سے چند روز قبل عدالت میں پیشی پر جب انہوں نے لطیف بھائی کا میڈیکل سرٹیفیکٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتا یاتھا کہ لطیف بھائی بیماری کی وجہ سے چل پھر بھی نہیں سکتے تھے تو انتظامیہ کے وکیل بار بار عدالت سے یہ کہتے رہے تھے کہ لطیف بھائی بالکل صحت منداور خوش و خرم ہیں۔ لطیف بھائی کے انتقال کے چند روز بعد اگلی پیشی پر اسلم سموں نے ان کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ پیش کیا۔ شکر ہے کہ سرمایہ داروں کے وکیل نے اس سرٹیفیکٹ کو جھوٹا نہیں کہا۔

اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہو رہا تھا کہ لطیف مغل سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کے ای ایس سی کے مزدوروں سے گولڈن ہینڈ شیک قبول کرنے کو کہیں۔ اور ہاں مجھے یاد آیا کہ کاسموپولیٹن کونسل میں مزدوروں کی نشست پر پارٹی ٹکٹ کے لئے اسلم سموں بھائی نے بھی درخواست دی تھی۔ جب میں نے انہیں بتا یا کہ پارٹی ٹکٹ لطیف بھائی کو دے رہی تھی اور وہ لطیف بھائی کے کورنگ امیدوار ہونگے تو اسلم سموں بھائی کا فوری جواب تھا کہ یہ ان کے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی کہ وہ لطیف مغل جیسے ساتھی کے کورنگ امیدوار بن رہے تھے۔

آخر وہ کیا بات ہے جو کسی کو اتنا ہر دلعزیز اور لائق احترام بنا دیتی ہے جتنے کہ لطیف بھائی تھے۔ خود میں نے ان کے پیٹھ پیچھے بھی اور ان کے سامنے بھی بارہا کہا کہ ان جیسے لوگ کم ہو تے ہیں۔ جناب سید قائم علی شاہ انہیں اپنے گھر کا فرد سمجھتے رہے۔مراد علی شاہ ان کی عزت اپنے بڑے بھائیوں کی طرح کرتے تھے۔ میری پوری سیاسی ٹیم کی سربراہی لطیف بھائی کرتے تھے اور ہر پروگرام ان کے مشورے سے طے ہوتا تھا۔ کارکنوں کے تو وہ محبوب تھے ہی لیکن پارٹی کے سارے بڑے چھوٹے لیڈر ان کے معترف اور مداح تھے۔ اور ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ اگر ایک جانب شدید ترین آزمائش کے وقتوں میں لطیف مغل جد و جہد میں سب سے ایک قدم آگے ہوتے تھے اور مشکل ترین ذمہ داری پورے اعتماد کے ساتھ نبھاتے تھے تو دوسری جانب اقتدار کے دنوں میں انہوں نے اپنے لئے یا اپنے بچوں کے لئے ایک روپیہ کا بھی فائدہ حکومت سے حاصل نہیں کیا۔ اقتدار ہو یا حزب اختلاف زندگی ان کے لئے پیہم جد و جہد اور دلیری کا نام تھی۔

اورآخر وہ کیا بات ہے جو کسی بھی انسان کو اتنا حوصلہ دیتی ہے کہ وہ شدید معاشی مسائل اور دشواریوں کے باوجود لمحہ بھر کو ہراساں نہیں ہوتا اور اپنی دشواریوں کو کم کرنے کے لئے سمجھوتے نہیں کرتا۔ اس کی خوش اخلاقی ، چہرے کی مسکراہٹ اور اطمینان قلب ہمیشہ کی طرح برقرار رہتے ہیں۔ با لکل جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کے ای ایس سی سے تنخواہ بند ہو چکی تھی۔ گھر کی ذمہ داریاں تھیں۔ بچیوں کی شادیاں سر پر تھیں۔ بیماری کی پریشانیاں اور اخراجات تھے۔ لطیف بھائی ہنستے ہوئے دفتر میں آرہے ہیں۔ ”تاج بھائی میں جلدی آنا چاہ رہاتھا لیکن اصل میں آج کل میں اپنے ایک دوست کے دفتر میں صبح کو کام کرنے لگا ہوں وہاں سے تھوڑی بہت آمدنی ہوجاتی ہیں۔ ہاں بتائیے آپ کا بیان مکمل ہوگیا۔ “

یہ حوصلہ اور یہ اطمینان قلب اللہ کا خصوصی عطیہ ہے جو گنے چنے افراد ہی کو ملتا ہے۔ اور پھر اللہ کی خصوصی عنایت یہ ہوتی ہے کہ ایسے بندوں کے کام رکتے نہیں۔ وہ کار ساز خود ان کے کاموں کی فکر کرتا ہے اور ان لوگوں سے اپنی مخلوق کے لئے کام لیتا ہے۔ یہ شہر ارب پتی لوگوں کا شہر ہے اور سب کو اپنی اولاد پیاری ہوتی ہے۔ لیکن میں چیلنج کے ساتھ کہتا ہوں کہ کوئی ارب پتی اس شہر میں ایسا دکھا دیجئے جس کی اولاد لطیف بھائی کی اولاد کی طرح نیک ، مہذب اور اعلی تعلیم یافتہ ہو۔ کوئی گھرانہ ایسا دکھا دیجئے جس میں خاتون خانہ اور بچوں نے ہر برے بھلے وقت میں اس طرح صاحب خانہ کا ساتھ دیا ہواور دکھ بیماری میں اس طرح اس کی دلجوئی اور خدمت کی ہو۔ آخر دولت مند لوگ اور صاحبان اقتدار زندگی سے ایسی اور کیا چیز چاہتے ہیں جو لطیف بھائی اور ان کے گھر والوں کو خدا نے نہیں دی تھی۔ اور اطمینان قلب کی دولت کہ بے انتہا دولت اور آرام میسر ہونے باوجود صرف چند لوگوں کو ہی میسر ہوتی ہے۔ آرام اور اطمینان سے جینا اور پھر اسی آرام اور اطمینان سے اپنے رب کی طرف لوٹ جانا ، کیا اس سے بڑھ کر بھی خدا کاکوئی انعام ہے ؟

ہم سب کا تجربہ ہے کہ نماز جنازہ میں امام آیات قرانی با آواز بلند نہیں پڑھتے۔ گھر کے سامنے کی مسجد میں لطیف بھائی کی نماز جنازہ میں بھی آیات کی با آواز بلند تلاوت نہیں ہوئی تھی۔ قبرستان پہنچنے کہ بعد جنازے میں دیر سے شریک ہونے والوں کے لئے ایک بار مزید نماز جنازہ ہوئی۔ یہاں امام صاحب نے با آواز بلند آیات کی تلا وت کی۔ میں چونک گیا جب پہلی ہی آیات یہ تھیں کہ ”اے نفس مطمئنہ اب رجوع کر اپنے رب کی طرف ، اس طرح کہ وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی ہے۔ “ بچپن سے لیکراب تک کتنی ہی محرم کی مجالس میں ذاکرین کی زبان سے امام عالی مقام شہید کربلا کے ذکر مبارک میں یہ آیات سنتا چلا آیا ہوں۔ خدا یا اتنی بر کت ، اتنا کرم کہ آج اپنے بھائی کی نماز جنازہ میں تمام روایت سے ہٹ کر میں یہ آیات سن رہا ہوں۔ بے شک گفتگو موت پر نہیں ہورہی بلکہ زندہ رہنے کے ڈھنگ پر ہورہی ہے۔ یا الہی کرم۔ یا الہی خیر۔ تیرا ایک گناہ گا ر بندہ تیرے حضور حاضر ہے ، جس میں ہم نے بھلائی ہی بھلائی دیکھی، خیر ہی خیر دیکھی۔

میری عمر بڑھتی جارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ دفتر کی دیوار پر دو تصاویر آویزاں ہیں۔ پہلی یوسف پیرزادہ کی اور دوسری منظور بدایونی بھائی کی ہے۔ اب ان میں ایک اور تصویر کا اضافہ ہوگا۔ یوسف نے تو خیر خبر ہی نہیں دی۔ دفتر سے یہ کہہ کر گئے کہ تاج بھائی پریس کانفرنس میں جا رہا ہوں۔ آدھے گھنٹے بعد خبر ملی کہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے۔ مارچ 2014 میں تھر جا رہا تھا۔ حالات خراب تھے۔ میں نے منظور بھائی کو راستے سے فون کیا کہ آپ کی ضرورت ہے اور یہ پہلا کراچی سے باہر کا سفر ہے جو میں آپ کے بغیر کر رہا ہوں۔ دو روز بعد ان کے بچوں نے بتایا کہ طبیعت ایک دم سے بگڑی ہے۔ ناہید فورا مٹھی سے کراچی کے لئے روانہ ہو گئیں کہ بچے چھوٹے ہیں وہ نہیں سنبھال پائیں گے۔ رات کو ان کا فون آیا کہ اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی تھر سے نکل سکیں تو آن کر دیکھ جائیں۔ صبح چار بجے میں مٹھی سے نکلا۔ منظور بھائی سخت تکلیف کے عالم میں تھے۔ بات نہیں کرسکتے تھے۔ صرف مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ گھنٹہ بھر پاس بیٹھ کر پھر دن کے ایک بجے تھر کے محاذ پر واپس پہنچ گیا۔ لطیف بھائی کے پاس میں اور ناہید کچھ دیر بیٹھے۔ باتیں بھی ہوئیں۔ اٹھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن مسلسل یہ احساس ستا رہا تھا کہ ہم ان کو تکلیف دے رہے ہیں۔ واپسی کا سفر ایسے ہوا کہ بہت دیر تک میں اور ناہید ایک دوسرے سے بات نہیں کر پائے۔ ہاں میرے دفتر کی دیوار پر اب ایک اور تصویر کا اضافہ ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).