سی پیک : کیا حکومت عوام سے خوفزدہ ہے ؟


سی پیک ان تمام پاکستانیوں کے لئے ایک اہم موضوع ہے جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ اور مخلص ہیں – اس راہداری کے ہماری معیشت سیاست اور سوسائٹی پر دور رس اثرات ہوں گے اس لئے اسے نظرانداز کرنا ناممکن ہے – یہ محض ایک گزرگاہ نہیں بلکہ یہ دو ممالک کے درمیان ایک وسیع تر تعاون (اگر واقعی میں یہ آج بھی معاشی تعاون ہے اور کل بھی تعاون ہی ثابت ہو گا ، نہ کہ کسی طرز کا سیاسی و معاشی جبر ) کا نیا باب ہے –

 اگر تو اس تعاون کا نتیجہ دونوں ممالک کے شہریوں کے لئے فوائد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو اسے ضرور خوش آمدید کہنا چاہئے اور اس کی کامیابی کے لئے پرامید رہنا چاہئے – اور اگر جیسا کہ مجھے ڈر ہے ، اس کا نتیجہ ایک ملک (جیسا کہ چین) کا فائدہ اور دوسرے ملک (جیسا کہ پاکستان) کا نقصان ہے تو یہ ایک خطرناک اقدام ہو گا کیونکہ اس سے دو اچھے پڑوسیوں کے درمیان تنازعات کی آگ بھڑک اٹھے گی جو دونوں ممالک کو خوشحالی کی جانب کامیاب پیش قدمی سے دور جا پھینکے گی –

وہ بنیادی چیز جو میرے ذہن میں شکوک و شبہات اور اعتراضات پیدا کر رہی ہے وہ اس راہداری کے کنٹریکٹس اور ان میں شرائط و ضوابط کی ایک طویل لسٹ ہے جو سوالات اٹھا رہی ہے کہ آیا یہ ڈیل چینی سرمایہ کاروں کو مقامی کاروباروں پر اجارہ داری یعنی مناپلی بخشے گی یا مواقع میں مساوات کا عہد قائم ہو گا ؟ اکبر زیدی ایک مشہور پولیٹیکل اکانومسٹ ہیں ، گزشتہ جمعہ کو انہوں نے بنگلہ دیش کے ایک تھنک ٹینک کلکتہ ریسرچ گروپ کی ایک تقریب میں خطاب کیا اور اس راہداری پر کافی سنجیدہ سوالات اٹھائے جو یقینا جواب طلب ہیں – اس تقریر میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں –

“جتنا تھوڑا بہت اس راہداری کے بارے میں ہم جانتے ہیں وہ سب میڈیا رپورٹس ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اس راہداری کے تمام پروجیکٹس چینی سرمایہ کاروں کو دیئے جائیں گے جن کی مرضی کہ وہ مقامی فرمز کے ساتھ اشتراک کریں یا نہ کریں ، مقامی کمپنیوں سے مٹیریل خریدیں یا نہ خریں انہیں اس بارے میں کھلی چھوٹ ہو گی – انہیں خاص مراعات دی جائیں گی جو کہ پاکستانیوں کو فراہم نہیں کی جائیں گی – ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ ان پروجیکٹس سے کتنے ہزار لوگ بے گھر ہوں گے – “

اگر چینی سرمایہ داروں کو مقامی مارکیٹ میں خاص مراعات دی جاتی ہیں یا انہیں اجارہ داری عطا کی جاتی ہے اس سے انہیں مقامی کمپنیوں پر مسابقتی برتری (comparative advantage) حاصل ہو جائے گی جس کا نتیجہ مقامی صنعتوں میں زوال کی صورت میں ہی برآمد ہو گا –

میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کا مخالف نہیں ہوں چاہے وہ چین سے آئے امریکہ سے یا بھارت سے – اس ملک میں جتنی مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہو گی اتنا ہی زیادہ روزگار پیدا ہو گا اور قومی پیداوار میں اضافہ ہو گا – میں درحقیقت ایک مقابلہ کی مارکیٹ میں مواقع کی مساوات کا پرجوش سپورٹر ہوں – چینی اس ملک میں آئیں اور سرمایہ لگائیں جس طرح دوسرے ممالک کے شہری آتے ہیں اور سرمایہ لگاتے ہیں یا ہمارے مقامی شہری جس طرح کاروبار کرتے ہیں – مگر میں چینی یا کسی دوسرے ملک کے سرمایہ کاروں کے لئے خصوصی مراعات یا امتیازی برتاؤ کا قائل نہیں – کمپنی مقامی ہو یا غیر ملکی ، مساوات کا چال چلن ضروری ہے – اگر ایسا ممکن بنایا جاتا ہے تو مقابلہ کی مارکیٹ کو فیصلہ کرنے دیں کہ کون سوسائٹی اور صارفین کے فائدے کے لئے زیادہ بہتر کام کرتا ہے ؛ آیا مقامی بزنس مین یا چینی ؟

اجارہ داری ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے چاہے یہ ریاستی ہو یا نجی ، چاہے یہ مقامی ہو یا کسی غیر ملکی کمپنی کی – کیونکہ اس سے ارتقاء تھم سا جاتا ہے – مقابلہ کی معیشت میں نہ مناپلی ممکن ہے اور نہ ہی کوئی ایک کاروبار یا کاروباری افراد کا کوئی گروپ پوری معیشت پر حاوی ہو سکتا ہے – مقابلہ کی ثقافت کمپنیوں کو ان کی کمرشل سرگرمیوں میں ہی متوجہ رکھتی ہے تب ہی وہ نفع کما سکتے ہیں – یہ کارجوئی (Entrepreneurship) کی قوتوں کو متحرک رکھتی ہے جس میں نئے کارجو (entrepreneur) مارکیٹ میں موجود پرڈکٹس ، سروسز اور پریکٹسز کو چیلنج کرتے ہیں ، جدت لاتے ہیں کیونکہ اسی میں ہی ان کے لئے مارکیٹ میں داخلے کا راستہ ہے ،اور اسی میں ہی ان کی کامیابی ہے – یوں مارکیٹ متحرک رہتی ہے – کمپنیاں پیدا ہوتی ہیں اور فنا ہوتی ہیں ، کچھ فائدہ میں رہتی ہیں اور کچھ نقصان کے سبب منظر سے غائب ہو جاتی ہیں ، مگر مارکیٹ آگے بڑھتی جاتی ہے –

ضروری ہے کہ حکومت اس بے چینی کو ختم کرے جو معلومات کی عدم دستیابی کے سبب پاکستانی معاشی ماہرین اور شہریوں کے ذہنوں میں پل رہی ہے – شہریوں سے معلومات share کی جائیں اور انہیں ان معلومات کی بنا پر مکالمہ کی آزادی حاصل ہو – جتنا آپ ایک معاشی راہداری کی معلومات کو قومی رازوں کی طرح چھپا کر رکھیں گے اتنا ہی شکوک و شبہات اور عدم اطمینانی میں اضافہ ہو گا –

ہم ایک جمہوری دور میں رہ رہے ہیں جس کا مطلب شہریوں کی حکومت ہی ہے – حکومت شہریوں کی نمائندہ ہے اور شہریوں کے حضور جوابدہ ہے – جمہوریت میں اشرافیہ کی بالادستی نہیں پائی جاتی کہ وہ عوام کو اعتماد میں لائے بغیر فیصلے کرتے پھریں – اگر حکومت نے عوام کو اعتماد میں نہ لیا تو جمہوری ارتقاء ناممکن ہے – اس سے لوگوں میں جمہوری نظام سیاست کے خلاف بے زاری پیدا ہو گی – جس کا نقصان بشمول سیاستدانوں کے ہم سب کو ہو گا –

ضروری ہے کہ سول سوسائٹی کی سطح پر یہ سوال بار بار اٹھایا جائے کہ آخر حکومت اس راہداری سے متعلق شہریوں سے اتنی رازداری کیوں برت رہی ہے ؟ کیا اس میں کچھ ایسی گڑبڑ ہے جو عوام میں ناپسندیدگی کا سبب بنے گی ؟ اور اگر سب ٹھیک ہے تو معلومات کے شہری حق کو تسلیم کرتے ہوئے شہریوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لایا جا رہا کہ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں جو چہار سو پھیلی ہوئی ہیں اور عدم اطمینانی کی فضا کا سبب ہیں – میں پرامید ہوں (حالانکہ اس امید کا لیول ذرا کمزور ہی ہے ) کہ حکومت جمہوری اقدار کی ضرور پاسداری کرے گی ، جس کی پاسداری میں ہی اس حکومت کی اور آنے والی تمام حکومتوں کی بقا ہے –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments