ہائپرتھائرائڈزم کیا ہے؟


پچھلا مضمون ہائیپو تھائرائڈزم کے موضوع پر لکھا تھا۔ آج کا ٹاپک ہے ہائپر تھائرائڈزم۔ ہائپو جس لفظ کے ساتھ بھی جڑا ہو اس کا مطلب ہوتا ہے کم اور ہائپر جس لفظ کے ساتھ جڑا ہو اس کا مطلب ہوتا ہے زیادہ۔ نارمل تھائرائڈ لیول کو یو تھائرائڈ کہتے ہیں۔ ای یو، یو تھائرائڈ۔

جب ذیابیطس پر اردو میں‌ کتاب لکھنا شروع کی تو اس کی تعمیری تنقید کے لئیے اپنے ایک ماموں‌ کو بھیجی اور اس کو مکمل کرنے کے بعد اپنی امی سے اس کی املا کی غلطیاں ٹھیک کروائیں۔ اس کے پیچھے میرا سیکرٹ مقصد یہ تھا کہ امی ذیابیطس کے بارے میں‌ سیکھ لیں کیونکہ ذیابیطس کا مریض خود ہی اپنا خیال رکھ سکتا ہے، باہر سے لوگ صرف مشورہ دے سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ انہوں‌ نے جو بھی املا ٹھیک کیا اس سے مجھے تسلی ہوگئی کہ سارے سیکشن پڑھ لئیے ہیں۔ میرے رشید ماموں ریٹائرڈ ہیں، انہوں‌ نے ساری زندگی کام کیا اور اپنی فیملی کو سپورٹ کیا۔ وہ ان دنوں‌ میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہوتے تھے جب سارے ملک میں‌ ٹوٹل 25 سے کم لوگ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور قانون کی ڈگری بھی لی ہوئی تھی، انہوں نے توجہ سے اس کتاب کو پڑھا اور مجھے فون کرکے کہا کہ بھئی لبانا! یہ کتاب ایسے لکھی ہے جیسے کوئی ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ دوسرے میڈیکل اسٹوڈنٹ سے بات کررہا ہو۔ بالکل خشک ہے اور اس کو پڑھنا ایک عام انسان کے لئیے مشکل ہوگا۔ اس کو سادہ بناؤ، اس میں‌ اپنی اصلی زندگی کی کہانیاں شامل کرو اور اس انفارمیشن کو اس طرح لکھو کہ لوگ اس کو پڑھ سکیں اور سمجھ بھی سکیں۔ اس فیڈ بیک کے بعد دوبارہ سے لکھنا شروع کیا اور مضامین میں‌ بھی یہی سوچ شامل کی گئی ہے۔ جو بھی ہم کام کرتے ہیں اس کو بہتر بنانے کے لئیے مثبت تنقید انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لئیے تنقید کو ٹھکرانے کے بجائے اس کو ہم کل سے آج خود کو اور اپنے کام کو بہتر بنانے کے لئیے استعمال کرسکتے ہیں۔ کچھ تنقید تخریبی بھی ہوگی۔ ایسا ہوچکا ہے کہ ریسرچرز نے اپنی تحقیق بھیجی اور جو پروفیسر رویو کررہے تھے انہوں‌ نے ایسی شدید تنقید کی کہ لکھنے والے کا کیریر ٹھپ ہوگیا اور اس کے بعد انہوں‌ نے کچھ اور لکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ تنقید کرنے والے پر بھی منحصر ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گیا کہ کیا ہم دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں یا لوگوں‌ کی ٹانگ کھینچ کر ان کو اور دنیا کو پیچھے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہم سے آگے جارہی ہے۔

ہائپرتھائرائڈزم تھائرائڈ کی کمی سے زیادہ خطرناک بیماری ہے۔ اس میں مرنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ جب میں‌ اینڈوکرنالوجی میں‌ فیلوشپ کررہی تھی تو ایک مریض ایمرجنسی روم میں‌ ٹیکی کارڈیا یعنی دل کی تیز رفتار دھڑکن کے ساتھ آئے اور جب معمول کی دوا دی گئی تو ان کا دل رک گیا تھا۔ انٹرنل میڈیسن کے ڈاکٹرز نے مشکل سے ان کی جان بچائی۔ ان کو کئی سال سے ہائپرتھائرائڈزم کی بیماری تھی جس کو وہ نظر انداز کرتے چلے آرہے تھے اس لئیے ان کا ہارٹ فیلیر انتہائی بگڑ چکا تھا۔ اس کیس کے بعد بہت اچھی طرح‌ سے ہائپرتھائرائڈزم اور اس کے علاج کو سیکھ لیا اور تب سے آج تک ان گنت لوگوں‌ کا علاج کیا ہے۔ اب تک اور کوئی مریض نہیں مرا، سب بچ گئے ہیں اور آگے بھی میں‌ یہی امید کرتی ہوں‌ کہ کوئی کم از کم میری چوکیداری کی شفٹ کے دوران نہیں‌ مرے گا۔ جب آپ میڈیکل اسٹوڈنٹ ہوں‌ یا پریکٹس کرتے ہوئے پرانے ڈاکٹر، جب بھی کوئی مر جاتا ہے تو آپ ایسا ہی محسوس کریں‌ گی کہ یہ آپ کی غلطی سے ہوا اور آپ اپنے دل میں کافی عرصہ سوچیں گی کہ کیا مختلف کرتے۔ یہ نارمل ری ایکشن ہے۔

“بلڈ اینڈ تھنڈر” یونیورسٹی آف اوکلاہوما کی ہیومینیٹیز ان میڈیسن پبلیکیشن میں‌ ایک شارٹ اسٹوری چھپی تھی جس میں‌ ایک کارڈیالوجسٹ کی بیوی اپنے شوہر کے بارے میں لکھتی ہے جو بچوں کے دل کی سرجری کرتے ہیں۔ وہ سرجری چھوڑ دیتے ہیں اور ہر روز لیموؤں کو تیز دھار چھری سے پرفیکٹ حصوں میں‌ کاٹتے رہتے ہیں۔ لیموں بالکل اسی سائز کے تھے جس سائز کا اس بچے کا دل تھا جو سرجری کے دوران مر گیا تھا۔

یہ مضمون پیرس میں لکھ رہی ہوں۔ کھڑکی سے ایفل ٹاور روشنیوں‌ سے جھلملاتا دکھائی دے رہا ہے۔ کل ہم لوگ ایفل ٹاور کی پانچ سو سے زیادہ سیڑھیاں‌ چڑھ کر پیرس کی تصویریں‌ کھینچ رہے تھے۔ پیرس کتنا خوبصورت ہے! یہ ٹین ایجر اس ٹرپ کے لیڈر ہیں اور یہ ان کی لیڈرشپ اور پرابلم سالونگ ٹریننگ ہے۔ آنے سے پہلے کتنے مہینے انہوں‌ نے انٹرنیٹ سے ریسرچ کی کہ کہاں‌ ٹھہرے ہیں، کہاں‌ گھومنے جانا ہے، “پیرس پاس” اور میٹرو کے ٹکٹ بھی گھر پر ہی منگوالیے تھے۔ ہر دن کہاں‌ کھانا کھانا ہے اور کون سی جگہ دیکھنی ہے سارا پلان بنایا ہوا ہے۔ گم ہوتے ہیں پھر راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ جو کہاوت ہے کہ چائے تبھی چائے بنتی ہے جب اس کو گرم پانی میں ڈالیں وہ بالکل درست ہے۔ ہر مسئلہ کچھ سکھاتا ہے۔ زندگی وقت کے ساتھ آسان نہیں‌ ہوتی جاتی بلکہ ہم اس سے نبٹنا سیکھ لیتے ہیں۔

تھائرائڈ گلینڈ کی عام بیماریوں‌ میں‌ تھائرائڈ کی کمی یا زیادگی شامل ہیں۔ انٹرنیٹ سے عام پوچھے گئے سوال جمع کرکے یہاں‌ ان کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

تھائرائڈ گلینڈ کیا ہے اور کہاں‌ پایا جاتا ہے؟

تھائرائڈ گلینڈ اینڈوکرائن سسٹم کا ایک اہم حصہ ہے۔ تھائرائڈ گلینڈ تتلی کی طرح‌ کی شیپ کا ہوتا ہے اور وہ گردن میں ہوتا ہے۔

تھائرائڈ گلینڈ کیسے کام کرتا ہے؟

تھائرائڈ گلینڈ کو کام کرنے کے لئیے ہارمون آرڈر کی ضرورت ہوتی ہے جو پچوٹری گلینڈ سے آتا ہے۔ پچوٹری گلینڈ آنکھوں‌ کے پیچھے دماغ کے نیچے موجود ہوتا ہے، جس کو ماسٹر گلینڈ بھی کہتے ہیں۔ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک آگے والا اور ایک پیچھے والا۔ اینٹیریر پچوٹری یعنی آگے والے میں‌ سے پانچ مختلف ہارمون نکلتے ہیں‌ جن میں‌ ایک تھائرائڈ اسٹی میولیٹینگ ہارمون یعنی کہ ٹی ایس ایچ ہے۔ ٹی ایس ایچ کا کام ہے کہ تھائرائڈ گلینڈ پر موجود رسیپٹرز کے ساتھ جڑ کر تھائرائڈ ہارمون بنانے کا پروسس شروع کرے۔ ٹی ایس ایچ کو تھائرائڈ کی بیماری کے لئیے چیک کرتے ہیں۔ اس کے زیادہ یا کم ہونے سے تھائرائڈ میں‌ مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ٹی ایس ایچ کا نارمل لیول انفرادی حالات پر مبنی ہے لیکن جنرل پاپولیشن کے لئیے اعشاریہ چار سے چار تک ہے۔

ہائپر تھائرائڈزم کی لیب کو کیسے سمجھیں؟

آج کل تیسری نسل کے عمدہ اور حساس ٹی ایس ایچ ٹیسٹ ایجاد ہوجانے کے بعد تھائرائڈ کی بیماری کو تشخیص کرنے اور پھر دوا دینے کے بعد فالو اپ میں‌ بہت مدد ملتی ہے۔

ہائپر تھائرائڈ گلینڈ کی تشخیص کے لئیے یہ تین ٹیسٹ کافی انفامیشن فراہم کرتے ہیں۔ ٹی ایس ایچ، فری ٹی فور اور فری ٹی تھری۔ ان کے مختلف کامبینیشن مختلف بیماریوں‌ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جیسے پزل کے ٹکڑے مل کر ایک تصویر بناتے ہیں۔ ہائپرتھائرائڈزم میں‌ ٹی ایس ایچ کم اور فری ہارمون زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک ترازو کے پلڑوں‌ کی طرح۔

تھائرائڈ گلینڈ کا کیا کام ہے؟

تھائرائڈ گلینڈ تھائرائڈ ہارمون بناتا ہے۔ تھائرائڈ ہارمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے بغیر یا اس کے زیادہ ہوجانے سے دل، سرکیولیشن، معدہ، آنتیں، مسلز یا نروس سسٹم کچھ بھی ٹھیک سے کام نہیں‌ کرسکتے۔ تھائرائڈ ہارمون جسم کے درجہ حرارت کو نارمل رکھتا ہے۔ تھائرائڈ کے کم یا زیادہ ہونے سے تمام جسم متاثر ہوتا ہے۔ ہائپر تھائرائڈزم میں دل کی دھڑکن بے قاعدہ ہوجاتی ہے اور ہڈیوں کے بھربھرے ہونے کی بیماری کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ تھائرائڈ ہارمون کو نارمل دائرے میں‌ رکھنا سب کے لئیے اہم ہے۔ خاص طور پر حاملہ خواتین میں تھائرائڈ ہارمون نارمل لیول میں‌ رکھنے سے ان کے ہونے والے بچوں‌ میں‌ پیچیدگیوں کا رسک کم ہوجاتا ہے۔ حمل کے 11 ہفتے تک بچے کا اپنا تھائرائڈ گلینڈ نہیں‌ بنا ہوتا اور وہ اپنی ماں‌ پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ماں کو ہائپرتھائرائڈزم کی بیماری ہو تو ان میں‌ پری میچیور ڈیلیوری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ہائپرتھائرائڈزم کی کیا وجوہات ہیں؟

95 فیصد افراد میں ہائپرتھائرائڈزم آٹو امیونٹی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نارمل حالات میں‌ امیون سسٹم کو بیکٹیریا اور وائرس سے لڑنا چاہئیے لیکن ان مریضوں میں‌ جینیاتی مسائل کی وجہ سے ان کا مدافعتی نظام اپنے ہی جسم کے اعضاء پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ وہ خون کے سفید جسیموں کو تھائرائڈ کے لئیے بنانا شروع کردیتا ہے جس کی وجہ سے ہائپرتھائرائڈزم ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری خاندانی ہے اور ایک ہی خاندان کے کچھ لوگوں کو ہائپوتھائرائڈزم اور کچھ کو ہائپرتھائرائڈزم ہوسکتا ہے۔

ہائپرتھائرائڈزم کی دیگر وجوہات ایسے ٹیومر ہیں جو بہت زیادہ تھائرائد ہارمون بنانے لگیں۔ جو لوگ ہائپوتھائرائڈزم کے لئیے تھائراگزین لیتے ہیں اگر وہ ضروت سے زیادہ لے لیں تو ان میں بھی یہی علامات پیدا ہوں گی۔

ہائپرتھائرائڈزم کی کیا علامات ہیں؟

ہائپرتھائرائڈزم میں‌ تھائرائڈ ہارمون کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وزن کی کمی، دل کی دھڑکن تیز ہونا، ڈائریا، دماغی یکسوئی کی کمی، جسم کا درجہ حرارت زیادہ ہونا اور کانپنا شامل ہیں۔ اگر ہائپرتھائرائڈزم کا علاج نہ کیا جائے تو ان مریضوں کی موت واقع ہوسکتی ہے۔

ہائپرتھائرائڈزم میں‌ آنکھیں‌ بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ سبھی نے دیکھے ہوئے ہیں جن کی آنکھیں ابلی پڑرہی ہوتی ہیں۔ اس کا شروع کی اسٹیج میں‌ ہی علاج نہ کرایا جائے تو آگے چل کر سنجیدہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ مریض‌ اندھے تک ہوسکتے ہیں۔

ہائپرتھائرائڈزم کا کیا علاج ہے؟

ہائپرتھائرائڈزم کا علاج ہائپوتھائرائڈزم کے مقابلے میں پیچیدہ ہے۔ ہائپرتھائرائڈزم کو تین طرح ٹریٹ کرسکتے ہیں۔ اینٹی تھائرائڈ دوائی دے سکتے ہیں، سرجری کرکے گلینڈ نکال سکتے ہیں اور ریڈیوایکٹو آیوڈین سے بھی علاج ہوتا ہے۔ علاج کے طریقے کا چناؤ علاقے، مریض کی چوائس اور لوکل ڈاکٹرز پر منحصر ہے۔ سرجری اور ریڈیو ایکٹو آیوڈین کے بعد مریض ہائپوتھائرائڈ بن جاتے ہیں جن کو تمام زندگی تھائرائڈ کی دوا لینے کی ضروت ہوگی۔ اینٹی تھائرائڈ دوا لینے سے ہائپرتھائرائڈذم کے ٹھیک ہوجانے کا چانس ہوتا ہے۔ اگر مریض باقاعدگی سے واپس آتے ہوں اور ان کا کہیں دور شفٹ ہوجانے کا پروگرام نہ ہو تو یہ طریقہ چنا جاسکتا ہے۔

عام سوالات

اکٹر لوگ پوچھتے ہیں‌ کہ یہ ہاشی موٹو تھائرائڈ کیا ہے اور گریو ڈیزیز کیا ہے؟ ان الفاظ کا کوئی سیکرٹ مطلب نہیں‌ ہے۔ ہاشی موٹو نے ہائپوتھائرائڈزم کا پہلا کیس ریکارڈ کیا تھا اور ڈاکٹر رابرٹ گریو نے آٹوامیون ہائپرتھائرائڈزم کو پہلی مرتبہ ایکسپلین کیا تھا اس لئیے ان بیماریوں‌ کو ان ناموں سے بھی پکار سکتے ہیں۔

پچھلے مضمون پر ایک فیڈ بیک ملی کہ ڈاکٹرز اپنے آپ کو کوئی دوسری دنیا کی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ایک لحاظ سے ٹھیک ہی ہے۔ اتنی ساری پڑھائی کرنے کے بعد، اتنا کام کرنے کے بعد، جب ہر دن کے سارے چوبیس گھنٹوں کے سارے ساٹھ منٹوں کے سارے ساٹھ سیکنڈوں میں مستقل کوئی نہ کوئی گھنٹی، دروازہ، فون، ٹیکسٹ، ای میل، ڈاک، فیس بک میسج سے کچھ نہ کچھ پوچھ رہا ہو تو ایک لمحہ یہ بھی آتا ہے کہ انسان شٹ ڈاؤن ہوجائے۔ بریک ڈاؤن ہو بھی نہیں‌ سکتے کیونکہ وہ بہت سارے لوگوں کی ذمہ داری لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کی فیملی کیسی ہے تو انہوں‌ نے کہا کہ معلوم نہیں، وہ لوگ تبھی فون کرتے ہیں جب کسی کو پیسوں‌ کی ضرورت ہو۔ اگر آپ کی زندگی میں‌ ایسے کوئی ڈاکٹرز ہیں تو ان سے ہمدردی کریں۔ یہ بھی سوچئیے کہ ان کے اپنے بھی کوئی بوجھ ہوں گے۔ ایسا کون سا انسان ہے اس دنیا میں‌ جس کی زندگی میں کوئی مسائل نہ ہوں؟

یہ مضمون پڑھنے والے تمام افراد سے گذارش ہے کہ انفرادی علاج کے لئیے لوکل ڈاکٹر سے رجوع کریں اور مثبت یا منفی جو بھی ہے اپنی فیڈ بیک یہاں کامنٹ سیکشن میں لکھیں۔ شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).