اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔: نواز شریف


پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ زمانہ گیا جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا اور اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کے بعد صحافیوں کے سامنے ایک تحریری بیان پڑھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ انھوں نے جے آئی ٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کر دیا ہے۔

اپنے بیان میں وزیراعظم نواز شریف نے زور دے کر کہا کہ’پاکستان کے عوام پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا سرکاری خزانے میں خردبرد یا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی میرے اوپر کرپشن کا کوئی الزام ہے بلکہ ہمارے خاندان کے نجی اور ذاتی کاروبار اور اس کے معاملات کو الجھایا اور اچھالا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘چند دن میں جے آئی ٹی کی رپورٹ اور عدالت کا فیصلہ بھی آ جائے گا لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ 20 کروڑ عوام کی عدالت بھی لگنے والی ہے جس کے سامنے ہم سب کو پیش ہونا ہے۔’

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان سازشوں اور تماشوں کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ حق اور سچ کا علم حقیقی معنوں میں بلند ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے فیصلوں کو روند کر مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں اگر بند نہ ہوئیں تو آئین اور جمہوریت ہی نہیں ملک کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ’ میں واضح کر دوں کہ اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں موڑنے دیں گے، وہ زمانے گئے جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا اور اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔‘

جعمرات کو تحقیقاتی ٹیم کے ارکان نے تین گھنٹے تک وزیراعظم نواز شریف سے سوالات کیے۔ نواز شریف کے دونوں صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں

اپنے بیان میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ انھوں نے، ان کے خاندان نے اور حکومت نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔ ‘میں نے اپنے اثاثوں اور وسائل کی ساری دستاویزات جو پہلے ہی متعلقہ اداروں بشمول سپریم کورٹ کے پاس موجود ہیں، ایک مرتبہ پھر جے آئی ٹی کو دے دی ہیں۔’

نواز شریف نے کہا کہ ‘آج کا دن آئین اور قانون کی سربلندی کے حوالے سے سنگِ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ صرف اس لیے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے کیونکہ ‘وزیراعظم سمیت ہم سب آئین اور قانون کے سامنے جواب دہ ہیں۔ آئین عوام کی حکمرانی کا جبکہ جمہوریت عوام کے فیصلوں کے احترام کا نام ہے۔’

انھوں نے خبردار کیا کہ ‘عوام کے فیصلوں پر مخصوص ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں اگر بند نہ ہوئیں تو آئین اور جمہوریت ہی نہیں ملک کی سلامتی بھی خدا نخواستہ خطرے میں پڑ جائے گی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سوا سال قبل پاناما لیکس کا معاملہ سامنا آتے ہی ان کی جانب سے کمیشن قائم کرنے کی جو پیشکش کی گئی تھی اگر اسے سیاسی تماشوں اور سازشوں کی نظر نہ کیا جاتا تو یہ معاملہ حل ہو چکا ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان کا احتساب ہو چکا ہے اور ‘نہ پہلے ہمارے دامن پر کرپشن کا داغ پایا گیا نہ اب ہوگا’ اور ان کے ‘مخالفین جو جتن کر لیں، جتنی جی چاہیں سازشیں کر لیں، ناکام و نامراد رہیں گے۔’

تقریر کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے جو وہ مستقبل قریب میں عوام سے کہیں گے۔ موقع پر موجود بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کے لیے جوڈیشل اکیڈمی پہنچے تو ان کے ہمراہ ان کے بیٹے حسین نواز، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ان کے بیٹے اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی تھے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز پانچ مرتبہ جبکہ حسن نواز دو مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ خود شہباز شریف بھی 17 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں جبکہ وزیراعظم کے داماد اور رکنِ قومی اسمبلی کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کی پیشی 24 جون کو ہے۔

وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹوئٹر پر نواز شریف کی روانگی کی تصاویر شیئر کیں اور اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج ایک تاریخ ساز دن ہے اور ایک ایسی خوش آئند مثال قائم ہو رہی ہے جس کی دوسروں کو بھی پیروی کرنی چاہیے۔

وزیر اعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی کے پیش نظر سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق تقریباً ڈھائی ہزار اہلکار اس موقع پر حفاظتی فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ مکمل طور پر بند تھا جبکہ شہریوں کے لیے متبادل راستوں کا انتظام کیا گیا۔

واضح رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں چھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا تھا۔

اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان نے کمیٹی کو 60 دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا وقت دیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیم کے لیے وضع کیے گئے ضوابط کمیٹی کو ہر 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

22 مئی کو وزیر اعظم اور ان کے دو بیٹوں کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز سے زیادہ کی مہلت نہیں دی جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp