جب لندن کی گلیوں میں لاہور کی پروائی چلی


شان دار عمارتیں، عجائب گھر، آرٹ گیلری، تاریخی آثار، پُرشکوہ مجسّمے__ لندن میں دیکھنے کے لیے کتنا کچھ ہے۔ ان عالی شان عمارتوں کے علاوہ مجھے لندن کے ٹیوب اسٹیشن بہت مسحور کرتے ہیں۔ زمین کے نیچے پیچ در پیچ گلیاں، آنے والا پلیٹ فارم کون سا ہے اور جانے والا کون سا، پھر ایک لائن سے دوسری لائن تک کس راستے سے آنا ہے، ان کا نقشہ کس طرح پڑھا جائے۔ پھر بعض اسٹیشنوں کی طویل خودکار سیڑھیاں جن کے دونوں طرف ثقافتی سرگرمیوں کے پوسٹر لگے ہوئے ہیں__ فلمیں، موسیقی کے کونسرٹ، اشتہار۔ ایسا لگتا ہے شہر کا شہر نظروں کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ اور پھر تیز رفتار لوگ جو دوسری طرف سے آرہے ہیں، اس طرف جا رہے ہیں۔ ایک اعلان کے ساتھ دروازے کُھلتے ہیں، اندر والے باہر نکلتے ہیں اور باہر والے اندر، دروازے بند ہو جاتے ہیں، ٹرین چل پڑتی ہے، مسلسل حرکت رہتی ہے، دیکھنے والوں کا دل لگا رہتا ہے۔

میٹرو سے جانا ہو یا پیدل، اگر میرے پاس فیصلے کی گنجائش ہو تو میں پیدل کو ترجیح دوں گا۔ صرف اس لیے نہیں کہ عمارتیں اور مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور شہر سے واقفیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

اصل وجہ میری سمجھ میں آگئی۔ ٹیوب کا ٹکٹ ایک خودکار مشین میں داخل کرنا پڑتا ہے، دھات کی سلاخ ہٹ جاتی ہے، ٹکٹ باہر آجاتا ہے۔ مجھے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے کہ اگر ٹکٹ اندر پھنس گیا تو کیا ہوگا؟

ایسی بات کا میرے پاس کوئی عقلی جواز نہیں ہے، بس اپنے ہاتھ پائوں پر اختیار ہے۔

اس ناہنجار، مردم ناشناس مشین سے ایک ملاقات ایج ویر روڈ کے اسٹیشن پر ہوئی۔ اس پر ہدایت درج تھی کہ کُھلے پیسے واپس نہیں ملیں گے۔ میرے پاس جو نوٹ تھا، میرے لیے بڑا تھا۔ اب کیا کروں؟ اس شش و پنج میں باہر نکلنے لگا تو بھورے رنگ کی ہیٹ اور جیکٹ میں ایک شخص نے راستہ روک کر مجھ سے پوچھا، کیا ہو گیا۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ وہ حارث خلیق تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انھوں نے مسکرانا شروع کر دیا اور پوچھا ’’پباں بار‘‘ چلنا ہے۔ وہ گنگنانے لگے ’’عُمراں لنگھیاں پباں بار‘‘ اور مجھ سے کہا، یہ دعوت پنجابی میں نہیں، انگریزی میں دے رہا ہوں۔‘‘

میں اتنا گڑبڑایا ہوا تھا کہ ان کے ساتھ چلا جاتا، پھر خیال آگیا۔ مولا نے خیر کر دی، لندن کی اس شام میں بھی۔ میرا معاملہ یہ ہوگیا کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے ’لندن‘ نہ گئی۔

بچپن میں لندن کے بوبی کے بارے میں پڑھا تھا کہ اگر آپ شہر میں چلتے چلتے کہیں راستہ بھول جائیں تو ان سے پوچھ لیں، لندن کی پولیس والے بہت مدد کرتے ہیں۔ اکادکّا پولیس والے سڑکوں کے ساتھ اب بھی نظر آتے ہیں مگر شاذ ہی کوئی ان سے راستہ پوچھتا ہے، سیّاحوں کی مدد کے لیے جابجا کھمبے نصب ہیں جن پر نقشے، فاصلے، ہدایات وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ پھر جسے دیکھو ٹیلی فون پر نقشہ دیکھتا ہوا جا رہا ہے۔ کسی سے راستہ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔

ٹیوب میں بے تحاشا لوگ پڑھتے ہوئے دکھائی دیا کرتے تھے۔ چند ایک لوگ تو اب بھی ناول یا اخبار میں غرق نظر آئیں گے لیکن کتاب کے بجائے اب زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں ٹیلی فون ہوتا ہے اور نظریں اس کے روشن اسکرین پر۔ مطالعے کے انداز بدلنے لگے۔

جو چیز نہیں بدلی وہ ہے شہر کی رونق۔

لندن میں ایک آدھ دن کی مُہلت مل جائے تو میری ترجیحات متعیّن ہیں۔ پکاڈلی، ٹریفلگر، چیرنگ کراس، کتابوں کی وہ شان دار دکانیں سب سے پہلے۔ پھر شام تک برٹش میوزم میں گھومتے پھرنا۔ چیرنگ کراس کے آس پاس پرانی کتابوں کی دکانیں تو خزانے کے ذخیرے ہیں اور پچھلی بار ان میں خوب وقت گزرا۔ اس بار وقت محدود تھا تو میں سیدھا پکاڈلی والے واٹر اسٹون کی طرف چلا گیا۔ مجھے وہ فوئلزکی مشہور زمانہ دکان سے زیادہ سہل معلوم ہوتا ہے۔ فوئلز میں فکشن کا شعبہ زیادہ پھیلا ہو ہے، کتاب ڈھونڈنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں فوری طور پر دوچار نام نہ ہوں اور میری طرح ’’برائوزنگ‘‘ کررہے ہوں تو آسانی نہیں ہوتی۔ بہت بڑے ذخیرے میں سے اپنی پسند یا ضرورت کی کتاب حاصل کر لینا، دریافت کی اس لذّت کو بھلا میں کیسے بیان کروں؟ اس لذّت سے سرشار، جو کتابیں چُن لی ہیں ان کا تھیلا اٹھائے سارے شہر میں گھومے جارہا ہوں۔

اس گہما گہمی میں کھانے کی جگہوں کا خاص طور پر ذکر ہوناچاہیےجن کی بہتات ہی نہیں، تنّوع بھی قابل ذکر ہے۔ دنیا کا کوئی کونا ہو وہاں کا کھانا لندن میں ضرور دستیاب۔ پکاڈلی کے پاس شیرِ پنجاب ریستوران مجھے یاد ہے۔ اس کے قریب انڈونیشی ریستوران جہاں چند سال پہلے عامر حسین نے میری سالگرہ کے دن مجھے دعوت دی تھی۔ ایوسٹن کے نزدیک کامران اصدر علی کے ساتھ جنوبی ہندوستان کا کھانا بھی خوب مگر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ کیونکہ ہندوستان تو لندن میں جابجا نظر آتا ہے۔ پچھلے سفر میں سید راشد اشرف اور دردانہ انصاری نے بہت تعریف کی تھی کہ جاپانی ریستوران بڑا عمدہ ہے۔ مگر انتظار صاحب جاپانی کھانے کے نام پر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وہاں ایک موقعے پر ان کے بغیر کھانا کھایا۔ واقعی جیسا سُنا تھا ویسا ہی پایا۔ انتظار صاحب نے تو لُطف لے کر دیسی اسٹائل کا کھانا کھایا تھا۔

میں اس بار اس طرف نہیں گیا۔ جس محلّے میں ہمارا ہوٹل تھا اور جس ریستوان میں صبح ناشتہ کرتے تھے، ا س کو دور سے سلام کرلیا۔ میں وہاں کیسے جاتا؟

شعر ناصر کاظمی کا ہے مگر میرے کانوں میں آواز انتظار صاحب کی گونج رہی ہے۔ گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل۔۔۔

وہ گلی خوب یاد ہے جہاں ہمارا ہوٹل تھا، اس سے آگے گھوم کے چھوٹے سے ریستوران میں ناشتہ کرنے سویرے سویرے جایا کرتے تھے۔ وہ ان کا نئی باتوں پر بہت خوش ہونا، لوگوں سے ملنا، ایک پوری کیفیت تھی جو اب تک میری آنکھوں میں سمائی ہوئی ہے۔

پھر ایک گلی کے کونے پر انتظار صاحب مل گئے۔

بین الاقوامی فکشن کے حصّے سے نکلتے ہوئے فوئلز کے عظیم الشان اور کئی منزلہ کتاب خانے میں ایک علیحدہ ڈسپلے میں یہ ناول رکھے ہیں اور اس کے ایک کونے پر بستی کا وہ نیویارک والا ایڈیشن موجود ہے۔ میں اس کتاب کو دوبارہ چھو کر دیکھتا ہوں۔ میں انتظار صاحب کو سلام کرنا چاہتا ہوں۔

ایسا لگتا ہے وہ اس کونے میں چنبیلی کے پھولوں کے ڈھیر کی طرح مسکرا رہے ہیں۔

اس بار وہ ہنس کر کہہ رہے ہوں گے، تمہاری پسند کے کھانے سے میں بچ گیا۔ یہ سب تم ہی کھائو۔

یہاں انتظار صاحب کا خیال آنا ناگزیر تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد یان لیانکے کا نیا ناول نظر آجاتا ہے۔ میں اس کے ورق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگتا ہوں۔ چین کے اس جدّت کار ناول نگار سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جب انتظار صاحب کے ساتھ وہ بھی مین بُکر بین الاقوامی ادبی انعام کے لیے نام زد ہوا تھا۔ تب میں نے اس کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ سائوتھ بینک سنٹر میں انتظار صاحب کے ساتھ اس کی ریڈنگ بھی ہوئی۔ تب سے میں اس کا گرویدہ ہوگیا۔

اس ناول سے تفصیلی ملاقات کے لیے مجھے ایک اور سفر چاہیے۔ چند صفحے بھی ذہن میں ہلچل مچا دینے کے لیے کافی ہیں۔ اس ناول کے مرکزی گائوں بلکہ صحیح معنوں میں تو یہ بستی ہے جس کا نام Explosion ہے، پھر یہ بڑھتے بڑھتے ایک وسیع و عریض شہر بن جاتا ہے۔ ناول قدیم چینی سوانح اور تاریخی تذکروں کے سے انداز میں شروع ہوتا ہے مگر اختتامیہ، مصنّف نے اپنے اسلوب و انداز میں لکھا ہے۔ کافکا اور مارکیز کے ناولوں کے ابتدائی پیراگراف درج کرنے سے پہلے وہ اپنے مُلک کی بابت لکھتا ہے:

’’ہماری قوم نئی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بہت قدیم۔ یہ جدید اور مال دار ہے مگر بیک وقت جاگیردارانہ اور مطلق العنان۔ وہ مغرب زدہ ہے مگر اندرونی طور پر ایشیائی۔۔۔۔‘‘

میں سوچنے لگا کہ چین کے بارے میں یہ بصیرت ہمارے ہاں زیرگفتگو آنی چاہیے کہ ہم چین کے ساتھ ایک طویل تعلق میں گُندھ گئے ہیں۔ لیانکے نے لکھا ہے کہ ان حالات کی وجہ سے ہماری قوم نے ایک طرح کی غیرحقیقت پسند حقیقت، ایک ناموجود وجود، ایک ناممکن ممکن حاصل کر لیا ہے__ ایسے اصول و ضوابط جن کو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ چھوا جا سکتا ہے۔ اپنی قوم کی حاصل کردہ اس نئی منطق کے لیے اس نے اسطورہ حقیقت mythoreal کی نئی ترکیب وضع کی ہے۔ اس بات کی وضاحت جس طرح کی گئی ہے، اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ یہ اپنے ملک کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش ہے اور ناول کا نیا تصوّر بھی۔ انتظار صاحب کے پاس اس بارے میں کہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا مگر واقعیت اور اسطورہ کو بیک وقت کارفرما ظاہر کرکے انھوں نے بھی مختلف انداز کا ادبی عمل اختیار کیا۔ اس زاویے سے ان کے ناولوں، افسانوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہت کچھ سوچتا ہوا میں کتابوں کی دکان کے باہر نکل آیا اور جانے ان جانے راستوں پر چلتا چلا گیا۔

ایک سڑک سے نکلا اور پھر بیکر اسٹریٹ تک پہنچا۔ شرلاک ہومز کے نام سے وابستہ میوزیم پر ٹھیکی دی۔ اپنے لڑکپن کے ہیرو کو عقیدت بھرا سلام پیش کرنے کے لیے۔ قریب ہی کتابوں کی دکان ’’الف‘‘ موجود تھی جہاں عربی ادب کے علاوہ جدید ادب کے تراجم بہت ملتے ہیں۔ عامر حسین کے ساتھ ریجنٹ پارک کی صاف ستھری روشن اور ترشے ترشائے سبزہ زار پر چہل قدمی۔ سبزے کے اثر سے پارک کا ماحول بالکل افسانوی معلوم ہورہا ہے پھر عامر حسین گفتگو بھی افسانے کے بارے میں کررہے ہیں۔ کون سے افسانے پسند ہیں اور کون سے نہیں۔ ان کی کون سی کہانی میں یہاں کے راج ہنس کا ذکر آتا ہے۔ افسانے پر گفتگو میں بھی افسانویت آجاتی ہے۔

عامر کے ساتھ گفتگو کسی بھی موضوع پر ہو اس میں لامحالہ قرۃ العین حیدر کا ذکر آجاتا ہے جن کو وہ بڑے احترام سے عینی خالہ کہتے ہیں۔ اس طرح کا ذکر جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کہیں اریب قریب موجود ہیں۔ ان کی روح یہیں کہیں سے گزر رہی ہے۔ اب میز پر پیالہ گھومنے لگے گا، حروف بننے لگیں گے۔

شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے، افسانہ نگاروں کی ٹھیٹھ زبان میں جب میں نے رُخ بدلا جس طرف مجھے ایک ادبی تقریب میں جانا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).