اہل کراچی، سلامت رہو . تم اچھی روایت کے امین ہو


 بیٹا روزہ کھل گیا ہے…

 کسی نے کندھا ہلایا تھا اور ساتھ ہی ہاتھ میں کوئی ٹھنڈی چیز پکڑا دی تھی۔ کیا چیز تھی جس کا لمس ہی فرحت بخش تھا۔ جس کی ٹھنڈک ہتھیلی پہ دھری تھی اور جس کے لمس پہ پیاس بے چینی سے تھرک رہی تھی . دماغ ابھی بھی نیند کی گھمن گھیر یوں میں قلابازیاں کھا رہا تھا- نیند نے سارے حواس معطل کر رکھے تھے۔ انکھیں تھیں کہ باوجود کوششس کے کھل کر ہی نہ دے رہی تھیں۔

بیٹا اٹھو شاباش، دو گھونٹ پانی پی لو، مکروہ نہیں کرتے روزہ ؟ برابر بیٹھی خاتون نے کندھا ہلایا تھا اور ساتھ ایک کھجور بھی پکڑائی تھی

 بسم الله ا لرحمان الرحیم۔ کھجور منہ میں ڈال غٹ غٹ ایک ہی سانس میں ہم نے گلاس خالی کیا تھا۔ پیاسی تپتی زمین سیراب ہوئی تھی

اور پی لو۔ کسی نے خالی گلاس دوبارہ بھر دیا تھا۔ ساتھ ہی ایک ڈبہ بھی پکڑایا تھا۔

الله اکبر۔ فبا ا الا ربکما تکذ بن۔

الحمد الله رب ا لعا لمین۔ بے اختیار ہی زبان سے ادا ہوا تھا۔

ہوش بحال ہویے تو ہم نے بس کی کھڑکی سے باہر نگاہ دوڑائی۔ بس کسی سڑ ک کنارے رکی ہوئی تھی اور روزہ افطاری کے لیے فٹ پاتھ پر دستر خوان بچھا ہوا تھا۔ سلیقے سے لگی میزیں پر بڑے بڑے مٹی کے کونڈے کھجور سیب پکوڑوں سموسوں سے بھرےرکھے تھے تھے۔ کچھ لوگ شربت کے جگ ہاتھ میں پکڑے گلاس بھر بھر کے بانٹنے میں مصروف تھے۔ دو تین بسیں اور بھی رکی ہوئیں تھیں۔ اور ایک کونڈے کو تین تین چار چار مسافر شئیر کر رہے تھے

خواتین بس میں ہی تھیں اور انھیں مسافروں اور کنڈیکٹر نے بس ہی میں شربت اور کونڈے لا دیے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سڑک پہ ہی صف بچھی اور فرض نماز باجماعت اد کی گئی۔ اور ٹھیک دس پندرہ منٹ بعد بس اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔

 اگر آپ کراچی کے باسی نہیں ہیں تو آپ کے لیے یہ منظر اسی طرح حیران کن ہو گا جس طرح دس برس پہلے ہمارے لیے تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمیں کراچی آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور ہمیں ابھی ٹھیک سے بس میں چڑھنا اور اترنا بھی نہیں آیا تھا۔ بس میں ذرا سا جھٹکا لگنے پر توازن بر قرار نہیں رہ پاتا تھا اور ایسے ہر ہر جھٹکے پہ ہم اپنے اگے کھڑ ی خواتین پہ ایک مستانہ چیخ کے ساتھ گرتے تھے۔جب رستوں سے ناواقفیت اس حد تک تھی کہ ہم نے گھر کے سٹاپ پہ اترنے کے لیے نشانیاں رکھی ہوئی تھیں اور یہ نشانیاں آئے دن آپس میں گڈ مڈ ہو کر کچھ نہ کچھ “گل” ضرور کھلاتی تھیں۔ جب چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اپنا شہر، اپنی گلیاں، سنگی ساتھی یاد آجاتے تھے اور انکھیں بے اختیار بھیگ جاتی تھیں اور ہم خود کو کوستے تھے کہ یہاں اس شہر میں آنے ہی کیوں ؟۔یہ دور ہمارے کیریر کا شرو ع تھا اور پروفیشن ٹف۔ پھر پبلک ٹرانسپورٹ سے آنا جانا۔ گھر پہنچتے رات ہو جاتی تھی۔ ایسے مشکل وقت میں رمضان کی آمد۔ پہلے روزے کا سوچ کر ہی دل بھر آیا تھا ابا کے لاڈ اور بھائیوں کے ناز سب یاد آئے۔ اماں سے زیادہ اماں کی مشہور زمانہ “چپل” کی یاد آئی جس کے بغیر روزہ رکھنا ہماری ڈکشنری میں ناپید تھا . ہم شرو ع ہی سے نیند کے رسیا ہیں اور نیند بھی اتنی گہری کہ اٹھانے والے کے حوصلے ہانپ جائیں لیکن مجال ہے جو ہماری نیند پہ کوئی حرف بھی آئے۔ سحری میں چھت سے سیڑھیاں اترتے اور ہر چار سیڑھیاں اترنے کے بعد وہیں سیڑھی پہ بیٹھتے اور بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے۔ اور اماں بے چاری نیچے سے آواز دیتیں اور ساتھ ہی چپل کھینچ کر مارتی تھیں۔۔ چھت سے نیچے نچلی منزل تک آنا صرف چار چپلوں کی مار تھا۔ مگر یہ چار چپلوں کا فاصلہ طے ہونے تک مولوی صاحب “سحری کا ٹائیم ختم ہونے والا ہے جلدی جلدی ……” کا ا علان فرما دیتے۔ اور بس پھر اس افراتفری اور بھا گ دوڑ میں کبھی ابا نوالے بنا ہمارے منہ میں ڈالتے اورکبھی بہن بھائی پانی کا گلاس پکڑا دیتے۔ رہیں اماں ان کی چپل روزہ دار کے احترام میں “سرنگوں” ہو جاتی۔

بھلا بتائیے اتنا نازوں پلا روزہ ہمیں کراچی میں کون رکھواتا ؟

کتنے بڑے بڑے مسایل تھے ہمارے . اماں کی چپل کہاں سے لائیں؟ روزہ کیسے کھولیں گے؟ گھر کب پہنچیں گے؟ سب سوالات ہی بھیانک تھے۔ اور ان سوالات سے جڑے مسایل۔ ان کو حل کرنا ہمارا دم ہی نہ تھا۔ سو پریشان ہوتے تھے اور خوب ہوتے تھے۔

 مگر پہلا روزہ سڑک کنارے کیا کھولا پھر تو بس جیسے چسکا ہی لگ گیا۔اس کے بعد کتنے سال تک سڑک کنارے روزہ افطار کیا ٹھیک سے یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ سب افطار کرنے والے اپنے اپنے سے ہی لگتے تھے اور گھر کی یاد تو آتی تھیں پہ یہ افطار پارٹیاں ان یادوں پہ مرہم رکھ دیتی تھیں۔ ہم نے اپنی وکالت کے جوہر انہی افطار پارٹیوں سے شرو ع ہونے والی دوستیوں پہ آزمائے۔

 سیچ پوچھیں تو ہمیں پہلی بار یہ منظر بہت حیران کن لگا تھا۔ ڈرائیور عین روزے کے وقت کسی نہ کسی طرح کسی افطار پواینٹ پہ بس پہنچا ہی دیتا تھا اور خواتین اور بچوں کو بس میں ہی افطاری فراہم کی جاتی۔ ڈرائیور کنڈیکٹر مسافر مجال ہے جو کسی کی لڑائی افطاری پہ یا کھانے پہ ہوتی ہو۔ افطاری اور فرض جماعت کے بعد بس دس پندرہ منٹ میں چلنے کو تیار۔اتنا نظم اتنا ڈسپلن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

 کئی بار ایسا بھی ہوا کہ بس ٹر یفک جام کی وجہ سےسڑک کے کنارے افطاری دسترخوان تک بھی نہیں پہنچ پائی۔ تو کسی ایک مسافر نے کھجوریں نکالیں اور ایک ایک سب کو بانٹ دیں۔ کسی نے پکوڑوں کا تھیلا نکالا اور سب نے تھوڑا تھوڑا لے لیا۔ کبھی بس کی کھڑ کی سے کسی نے جوس یا دودھ کا ڈبہ پکڑا دیا۔

جیسی افطار پارٹیاں کراچی میں سڑک کے کنارے ہوتی ہیں ان کی پاکستان کے دوسرے شہروں میں نظیر ملنی مشکل ہے۔ افطاری کی کوالٹی اور معیار اتنا عمدہ کہ ماشا الله کیا کہنے۔ انتظام و اہتمام ایسا کہ کوئی بد نظمی نہیں ملتی۔ اور مزے کی بات یہ کہ آج تک کسی نے افطاری انتظامات کے لیے چندہ یا پیسہ نہیں مانگا۔ میں نے آج تک کسی بازار میں افطاری کے نام پہ پیسے ڈالنے کا ڈبہ نہیں دیکھا۔ بہت سے لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر پس پردہ رہ کر اس روایت کے امین ہیں۔ یہ ایک ایسی روایت جو سب نے مل کر خود تخلیق کی ہے۔

افطار سے ذرا دیر پہلے آپ کو میزیں، دستر خوان سجتے نظر آئیں گے یا سڑک کنارے بہت سے روزے دار روزہ کھولتے نظر آئیں گے

 یا کبھی کوئی گاڑی رکوا کر پانی کی بوتل کھجور اور افطاری کے پیکٹ پکڑا دے اور کہے “روزہ کھول لیجیے وقت ہو گیا ہے” تو سجمھ لیجیے آپ محبتوں اور روایات کے امین ہمارے شہر “کراچی” میں ہیں۔

کسی پردیسی کو، مسافر کو جبکہ وہ گھر سے دور ہو ٹھنڈا پانی پلانے والو،

کسی بھوکے کے لیے کھانے کا اہتمام کرنے والو،

دستر خوان سجانے والو، آسانیاں بانٹنے والو

سلامت رہو . تم اس دور ابتلا میں اچھی روایت کے امین ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).