کیا مسلمانوں کو لڑایا جا رہا ہے؟


 پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں بیشتر گھروں میں عموماً گھٹن ہوتی ہے اورجہاں عمروں کی خلیج یعنی جنریشن گیپ کچھ زیادہ واضح ہوتا ہے، جب جوان لڑکے لڑکیاں کالج جانے لگتے ہیں تو انہیں کچھ آزادی ملتی ہے۔ یوں کچھ لڑکے اور شاید ایک دو لڑکیاں بھی مختلف وتیرہ اپنا لیتے ہیں جسے عرف عام میں “بگڑ جانا” یا ” خراب ہو جانا” کہا جاتا تھا، اب شاید پٹڑی سے اتر جانا کہتے ہوں یا کچھ اور۔ والدین اپنے بچے نچی کو سب و شتم تو کرتے ہیں لیکن اس کے مختلف وتیرے کا دوش دینے کے لیے اس کے نزدیکی دوست یا سہیلی کو چنتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ایک کے والدین دوسرے کے بارے میں کہیں گے کہ اس نے ہمارے بچے کو خراب کر دیا، اسی طرح جس پر وہ الزام لگا رہے ہوتے ہیں اس کے والدین الٹا یہ کہیں گے کہ ان کے بچے نے ہمارے بچے کو خراب کر دیا۔

 یقیناً دوستوں کا ایک دوسرے پر اثر ہوتا ہے لیکن جب تک کسی میں دوسرے کے کہے پر چلنے یا اس کے اعمال کو اپنانے کا عنصر پہلے سے موجود نہ ہو تو نہ کسی کے کہے پر کوئی چل سکتا ہے اور نہ کسی کے اعمال اپنا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جن اعمال و افعال کو دوسرے چاہے اکثریت میں ہی کیوں نہ ہوں برا یا غلط سمجھتے ہوں ان پر عمل کرنے والے کے پاس ان کو اپنانے کی منطقی دلیل ہو۔ منطق اور دلیل سے عاری لوگ اس کی بات کو چاہے نہ مانیں مگر وہ اپنے طور پر اپنے کیے کو درست سمجھ رہا ہو۔

 اپنی سختی یا پیدا کردہ گھٹن کو الزام دینے کی بجائے کسی اور کے بچے کو الزام دینے والے والدین کی طرح عالم اسلام کے ملکوں میں بھی اپنی کمزوریوں سے صرف نگاہ کرنے کی غرض سے ویسا ہی رویہ اپنایا جاتا ہے کبھی ہمسایوں کو الزام دیا جاتا ہے تو کبھی مختلف مذہب ماننے والے کو لیکن جس مختلف مذہب والوں کے ساتھ مفادات وابستہ ہوں ان پر انگلی اٹھانے سے گریز بریا جاتا ہے۔ یہ کبھی سنے میں نہیں آیا کہ فلاں فلاں ملک کے مسیحیوں نے یا فلاں فلاں ملک کے بدھ مت ماننے والوں نے اسلام کے خلاف ریشہ دوانی کرنے کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ البتہ یہ کہہ دیں گے کہ امریکہ کر رہا ہے یا کوئی اور ملک کا نام لے دیں گے۔

 حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت والے ملکوں میں جنہیں عرف عام میں اسلامی ملک کہا جاتا ہے چاہے وہ اپنے ساتھ مملکت العربیہ کا لاحقہ لگاتے ہوں، اسلامی جمہوریہ کے باقاعدہ نام والے ملک صرف پاکستان، ایران اور افغانستان ہیں، بے تحاشا انتظامی اور سماجی مسائل ہیں جن کا اثر لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کی زندگیوں اور ذہنوں پر پڑتا ہے۔ کچھ مذہب کی بنیاد پرستی کو شعار بنا کر اپنے مسائل حل کرنے کی جنگ کرنے یا کم از کم ان سے اغماض برتنے کی راہ اپنا لیتے ہیں تو کچھ منشیات میں غرق ہو کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مسائل سے جان چھڑا لی۔ یہ دونوں منفی انداز وہ اپنی اپنی مرضی اور انتخاب سے اختیار کرتے ہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ قدرت نے انسانوں کو اختیار دیا ہے کہ جو چاہیں راہ اپنائیں۔

 ایسا بھی نہیں کہ اغیار جن کا اسلامی ملکوں کے ساتھ عناد ہے وہ چپ سادھے بیٹھے ہوں۔ البتہ یہ یکسر نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ان ملکوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے باعث وہاں بسنے والوں کی زندگیوں میں ایسی سہولتیں نہیں ہوتیں جن کے وہ متقاضی ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کا کہا بہت کام کرتا ہے جن کا واضح تعلق تو مذہب کے ساتھ ہوتا ہے مگر انہوں نے جیسے مذہب کو غیر منطقی پیش کرنے کی قسم کھائی ہوتی ہے۔ مذہبی اطورا پنانے والوں کو اتنا خطرہ ملحدین سے نہیں ہوتا جتنا ان بزعم خود شارحین سے۔ جیسے روزہ ٹوٹنے سے متعلق تازہ صراحت کہ پانی مقعد سے معدے میں جا سکتا ہے۔ لاحول ولا قوہ ایسا کسی بھی طرح نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایک غوغا شروع ہو گیا۔

  خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اصل مثال تو حال میں قطر سے کچھ عرب ملکوں کی ناراحتی کا قضیہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی خطے میں کوئی نہ کوئی ملک تو چوہدری ہوتا ہی ہے جسے بڑے چوہدری کی اشیر واد حاصل ہوتی ہے۔ رضا شاہ کے دور میں ایران کو مشرق وسطٰی میں یہ حیثت حاصل تھی۔ حالیہ ادوار میں اس خطاب کو پانے کا جتن سعودی عرب اور ترکی کرتے چلے آئے ہیں لیکن قرعہ مملکت العربیہ کے نام نکلا۔ قطر کے امیر کے چاہے جتنے گن گائیں۔ قطر کی گیس کا جتنا بھی غلغلہ کیوں نہ ہو، شام کے معاملات کے بگاڑ میں قطر کا ہاتھ ترکی سے چاہے زیادہ ہو لیکن ایک بات اندھے کو بھی معلوم تھی کہ قطر پر پرزے نکال رہا ہے۔ اب قرعہ جس کے نام پڑے گا وہ اڑنے کی کوشش کرنے والے کے پر تو کترنے کی کوشش کرے گا ہی۔ یہ دال کا ابال ہے، ڈھکن ہٹ جائے گا تو جھاگ بھی بیٹھ جائے گی۔ یہ اور بات ہے کہ ڈھکن جن کے ہاتھ میں ہے وہ اسے کتنی بار ہنڈیا پر رکھتے اور اتارتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں جیسے سوشل میڈیا پر اس نوع کا پروپیگنڈہ جگہ پارہا ہے کہ ایک نوجوان یہودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے شیعوں کو سنیوں سے بھڑا دیا۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا دیا۔ آپ کے ملکوں میں تنگ لباس کو عام کر دیا، وغیرہ وغیرہ۔

 میں نے کوئی دس سال پہلے ایک کتاب لکھی تھی،” یہودیوں کا نسلی تفاخر”، “بک ہوم” کی شائع کردہ یہ کتاب شاید اب بھی دستیاب ہو جس میں صیہونیت کی سازشوں کو دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ جب میں نے ایک اسرائیلی سے اس کا ذکر کیا تو اس نے کھلے دل سے کہا تھا کہ انگریزی ترجمہ کراؤ، ہم اسے اسرائیل میں شائع کرائیں گے۔ جہاں اس قدر اختلاف کی اشاعت پر بھی قدغن نہ ہو انہیں یہ نہیں پڑی کہ سب کو سب سے لڑانے کے لیے اپنی توانائی اور وسائل خرچ کریں۔ ان کے پاس دنیا کی دو بڑے ہتھیار ذرائع ابلاغ اور بینک ہیں۔ آپ کی آنکھیں کھلی ہیں، آپ ذرائع ابلاغ میں ان کے پروپیگنڈے کا اثر نہ لیں نہ ہی اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے انہیں پھیلائیں۔ آپ ان کے بینکوں پر بھروسہ نہ کریں اپنے بینکوں کو عالمی اہمیت کا بنا لیں۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے بینک کے نام کے ساتھ مذہب پیوست کر دیاجاتا ہے اور لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ سب اور طرح کا ہو گیا ہے حالانکہ بینکاری بینکاری ہے چاہے جیسا بھی لاحقہ، سابقہ یا وسطیہ کیوں نہ لگا دیں۔ رہی ذرائع ابلاغ عامہ کی بات اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلامی ملکوں میں وہ کیسے ہیں۔ اگر الجزیرہ چینل جیسا کوئی کچھ ویسا نہیں ہے تو آپ کو اس لیے نہیں بھاتا کہ وہ آپ کی پنڈلی پر سے کپڑا اٹھا کر اس پر ابھری پھنسیاں عیاں کرتا ہے اگرچہ پورا بدن دکھانے کا اس میں بھی دم نہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ ابدان کن کن عوارض سے داغدار ہیں۔

 آج کے دور میں کوئی کسی کو کسی کے ساتھ نہیں لڑا سکتا جب تک لڑنے والے خود نہ لڑنا چاہیں۔ ان کی غایت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ لوگ اندھے نہیں ہیں دیکھتے ہیں کہ جو سامنے ہو کر لڑا رہا ہے کل کن حالات میں تھا اور آج اس کے حالات کیا ہیں۔ کل اس کی حیثیت کیا تھی، آج اس کی حیثیت کیا ہے؟

 مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں مگر وہ اپنے مسالک، مقاصد اور مفادات کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے جو سوچا ہوتا ہے وہ اسے درست خیال کرتے ہیں یا کم از کم اپنے ساتھیوں کو باور کرا چکے ہوتے ہیں کہ ان کی راہ درست ہے۔ اب درست راہ والے کو کوئی بھلا اپنی راہ پر لگا سکتا ہے جو اس کے نزدیک ویسے ہی راہ نہیں چاہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).