افغانستان میں امریکہ اور پاکستان پھنس گئے: سلیم صافی


معروف صحافی سلیم صحافی نے کہا ہے کہ افغناستان کے امن مذاکرات میں ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہو گئے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ڈیل 29 فروری 2020 کو طے پائی تھی۔ جس میں کہا گیا کہ غیرملکی افواج چودہ ماہ کے عرصے میں (مئی 2021سے پہلے) افغانستان سے نکلیں گی۔ امریکہ کی طرف سے دوسرا وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کردئیے جائیں گے اور انہیں اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکال دیا جائے۔

زلمے خلیل زاد نے یہ وعدے تین مفروضوں کی بنیاد پر کئے تھے۔ ایک یہ کہ طالبان تشدد میں کمی لائیں گے۔ دوسرا القاعدہ اور اسی نوع کی دیگر تنظیموں سے ناطے توڑ کر انہیں اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے اور تیسرا یہ کہ ان چودہ ماہ کے دوران بین الافغان مذاکرات کے ذریعے سب کے لئے قابل قبول حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ لیکن عملا کیا ہوا؟

طالبان قیدیوں کی رہائی اور بلیک لسٹ سے نکلنے کا وعدہ تو پورا ہوا لیکن تشدد میں کمی صرف اس حد تک آئی کہ امریکیوں نے طالبان پر اور طالبان نے امریکیوں پر حملے بند کئے تاہم دوسری طرف بین الافغان جنگ جاری تھی اور جاری ہے۔ جن بین الافغان مذاکرات کا ذکر کیا گیا تھا، وہ چند روز میں شروع ہونے کی بجائے کئی ماہ کی تاخیر سے شروع ہوئے۔ کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد صرف ایجنڈے پر اتفاق ہوا اور اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کی ٹیم باقی چار ماہ میں کسی انتظام پر متفق ہوسکے۔

طالبان کا موقف یہ ہے کہ حکومت انہیں دے کر ان کی امارات اسلامی بحال کی جائے اور کابل میں بیٹھے ہوئے سیاسی عناصر اس کا حصہ بن جائیں۔ دوسری طرف افغان حکومت کا مطالبہ ہے کہ ان کی حکومت آئینی حکومت ہے اور طالبان ان کی حکومت کا حصہ بن جائیں۔ ظاہر ہے نہ افغان حکومت اس کے لئے تیار ہوگی اور نہ طالبان افغان حکومت کا مطالبہ تسلیم کر سکتے ہیں۔ یہ ڈیل تو باقی چارماہ کے دوران طے پاتی نظر نہیں آرہی۔ چنانچہ اب امریکہ پھنس گیا ہے۔ وہ اگر اپنی افواج وعدے کے مطابق نکالتا ہے لیکن افغانستان کو اسی انتشار میں چھوڑتا ہے تو اسے نہ صرف سوویت یونین کی طرح بھاگ جانے کے الزام کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ مستقبل میں ہونے والی تباہی کے لئے بھی اس کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).