جمہوریت ہی کرپشن کا منبع ہے


مدتوں سے، ہمارے خالی سروں کو کھول کر،  ہماری کھوپڑیوں میں ٹھونک ٹھونک کر ایک بات بٹھا دی گئی ہے کہ جمہوریت ہی کرپشن کا منبع ہے۔ سب سیاستدان ہی لٹیرے ہیں۔ سارے ہی چور اور ڈکیت ہیں۔ انکی سیاست صرف قومی خزانے کو لوٹنے کے لئے ہے۔ رشتہ داروں کو اعلی عہدوں پر فائز کر نے کے لئے ہے۔ یہ قو م کے غدار بھی ہیں اور مذہب کے گناہ گار بھی۔ نہ انکو عوام سے کوئی دلچسپی ہے نہ ملک کا کوئی خیال۔ نہ ووٹ کی حرمت کا کوئی پاس ہے نہ ایوانوں کی تقدیس کا کوئی خیال۔ نہ انکے دل میں انسانوں سے ہمدردی ہے نہ انکو عوام کی کسمپرسی کا کوئی اندازہ۔ یہ سب جاہل،  گندے اور غلیظ لوگ ہیں۔ ان کی سیاست کا مقصد صرف لوٹ مارہے۔ جمہوریت انکی ڈھال ہے جسکی آڑ میں یہ قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔

اس کند ذہن قوم کو بار بار یہ سبق پڑھایا گیا کہ یہ جلاد صفت لوگ ہیں۔ اس عوام کو بار بار یہ رٹایا گیا کہ سیاست دان معاشرے کا خود غرض ترین طبقہ ہیں۔ ہمیں بارہا یاد کروایا گیا کہ دھوکے باز لوگ اور مجرم ہیں۔ یہ جمہوریت کا نعرہ لگا کر،  ووٹ کے کرتب دکھا کر،  الیکشن کا میلہ لگا کر،  عوام کو لوٹتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ نواز شریف نے خزانے کا برا حال کر دیا۔ دساور میں دولت کے انبار لگا دیئے۔ کرپشن کا بازار گرم کر دیا۔ لندن میں چار فلیٹس خرید لئے۔ پاناما میں بھی نام آگیا۔ ہمیں سکھایا گیا کہ آصف علی زرداری اس دنیا کے کرپٹ ترین آدمی ہیں۔ پہلے ٹن پرسنٹ تھے صدر بن کر ہنڈرڈ پرسنٹ ہو گئے۔ ہر سودے میں اپنا حصہ رکھتے ہیں۔ کمیشن کی خاطر سب کچھ بیچ سکتے ہیں۔ ۔ پارٹی کے سب عہدے کرپشن کے ایجنٹوں کے حوالے ہیں۔ یہ کمیشن کی خاطر ملک سے غداری سے بھی نہیں چوکتے۔ ہمیں رٹایا گیا کہ عمران خان وہ نہیں ہے جو دکھتا ہے۔ صدقے،  خیرات کے پیسے سے پارٹی چلاتا ہے۔ ہسپتال کے چندے میں سے پیسے بناتا ہے۔ بنی گالہ کا فارم ہاﺅس فراڈ سے خریدا گیا۔ فارن فنڈنگ کی وجہ سے اس کے اکاﺅنٹ داغدار ہیں۔ یہ چیرٹی کے نام پر لوگوں سے پیسے بٹورتا ہے۔ یہ دھوکے باز اور فراڈ ہے۔

یہ سبق ہمیں اتنی بار سنا یا گیا کہ اب ہمارے کند ذہنوں پر نقش ہو گیا ہے۔ اب نواز شریف کے حامیوں کے پاس عمران خان کے خلاف ثبوت ہیں۔ عمران خان کے حامی میاں صاحب سے رسیدوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان دونوں کو جب موقع ملتا ہے تو زرداری اور پیپلز پارٹی کو توم ڈالتے ہیں۔ ہر ایک کے دور حکومت میں مخالف کے خلاف فائلیں بنتی ہیں،  ثبوت اکھٹے کیئے جاتے ہیں،  ایک دوسرے کی موقع بہ موقع تذلیل کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے سے تلاشی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

ہماری کیفیت تانگے کے اس گھوڑے کی سی ہو گئی ہے جس کی آنکھوںپر کھوپے چڑھے ہوتے ہیں اور ایک سمت کے سوا اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی نظر محدود اور اس کا زاویہ نظر تنگ کر دیا جاتاہے۔ اس کی چال کا رخ صرف ایک سمت رہتا ہے۔ باقی جہان میں کیا ہو رہا ہے اس کی اسے قطعا خبر نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ہی دھن میں سرپٹ دوڑتا جاتا ہے۔ اس کو صرف اپنی کمر پر پڑنے والی چابک کی سفاکی کا خوف ہوتا ہے۔ یہ خوف اس کو رکنے نہیں دیتا،  اس کو کسی اور سمت دیکھنے نہیں دیتا۔ اس کی نظر کا دائرہ وسیع نہیں ہونے دیتا۔

اہل پاکستان کے لئے یہ معلومات نئی نہیں ہو گی کہ اس ملک میں جتنا عرصہ جمہوریت رہی ہے قریبا اتنا ہی عرصہ ہم نے ڈکٹیٹروں کو حاکم رکھا

 ہے۔ یہ وہی ڈکٹیٹر ہیں جنکی تصاویر ٹرکوں کے پیچھے پینٹ کی جاتی ہیں۔ جن کو ہر جگہ سلیوٹ پڑتے ہیں،  جنکی بہادری کے قصے بیان کیئے جاتے ہیں۔ جنکی شان میں ترانے لکھے جاتے ہیں۔ وہی لوگ اس ملک پر تین دہائیوں سے زیادہ حاکم بھی رہے ہیں۔ ان ہی کی نگری میں ہم سب پلے، بڑھے اور جوان ہوئے ہیں۔ اس سماج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کی یہ جرات نہیں ہوئی ہے کہ ان ڈکٹیٹرڑوں کی تین دھائیوں کا احتساب کرے؟ آئین کو پامال کرنے کا جواب طلب کرے؟ عوام کے مینڈیٹ کو پاﺅں تلے روندنے پر سوال کرے؟سوچئیے، کیا کسی نے ان سے کرپشن کے بارے میں پوچھنے کی جرات کی ہے؟ کیاکسی نے ان سے تلاشی مانگی ہے؟ کیاکسی نے ان سے رسیدیں دکھانے کی فرمائش کی ؟ کیاکسی کو جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا ؟ کیاکسی کے بھائی پر کرپشن کا الزام لگا ہے؟ کیاکسی کی بیٹی کے کردار پر تہمت لگی ؟ کیاکسی کے فلیٹ پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات ہوئی ؟کیاکسی کو ٹین پر سینٹ کہا گیا؟ کیاکسی پر صدقے خیرات میں بے ایمانی کرنے کا الزام لگا؟کیا کسی کی پیشیاں ہوئیں؟ کیا کسی کی اولاد کے حلال ہونے کے بارے میں سوال اٹھا؟کیاکسی کے بینک اکاونٹ چیک کیئے گئے؟ کیاکسی کے خلاف میڈیا میں کمپئین چلی؟ کیاکسی سے نسلوں کا حساب مانگا گیا؟

نہیں ایسا نہیں ہوا۔ کسی کی اتنی جرات نہیں ہوئی۔ کسی کی آنکھوں سے کھوپا نہیں ہٹا۔ کسی کو اتنی وسعت النظری بخشی نہیںگئی۔ اگر آپ یہ دلیل دیں کہ ان ادوار میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس کا حساب لیا جائے تو سوال صرف اتنا ہے کہ تیس سال سے زیادہ عرصہ قوموں کی زندگی میں بہت ہوتا ہے۔ ان تین بے مثال دھائیاں کے باوجود اس ملک نے ترقی کیوں نہیںکی؟ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع کیوں نہیں ہوئیں؟ یہاں بجلی کے کارخانے کیوں نہیں لگے؟ سارے ملک میں سڑکوں کا جال کیوں نہیں بچھا؟ ہم کوریا اور چین کی طرح ترقی یافتہ کیوں نہیں ہو ئے؟یہاں سے غربت ختم کیوں نہیں ہو ئی؟ہزاروں ڈیم کیوں نہیں بن گئے؟ یہاں تعلیم عام کیوں نہیں ہوگئی؟ یہاں صحت کی سہولیات سب کو فراہم کیوں نہیں ہو ئیں؟یہاں سے جرائم کیوں ختم نہیں ہوئے؟ دہشت گردی کا قلع قمع کیوں نہیں ہوا؟سکھ،  چین اور امن قائم کیوں نہیں ہوا؟

اس ملک کے آئین کو توڑنا،  دستور کو پامال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ جرم سزا کے لئے بہت کافی ہے۔ جمہوریت کو آہنی قدموں تلے روندنا بہت بڑا جرم ہے۔ عوام کے ووٹوں کی توہین بہت سنگین جرم ہے۔ لیکن بد قستی سے یہ واحد جرم نہیں ہے۔ مقامات آہ فغاں اور بھی ہیں۔ لیکن اس طرف ہماری نظر نہیں جاتی۔ ہم ایک چابک کے خوف سے ادھر ادھر دیکھے بغیر سرپٹ بھاگتے رہتے ہیں۔ ہر جمہوری حکمران کو یہی خوف مارتا ہے۔ جو جمہوری حکمران نڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ یا تو برطرف ہو جاتے ہیں یا پھر سولی پر چڑھا دیئے جاتے ہیں۔ یا غداری کا الزام لگتا ہے یا پھر کرپشن کے خلاف ایک مشکوک جے آئی ٹی سر اٹھا لیتی ہے۔ ہمارے ہاں ہمیشہ جمہوریت،  آمریت کے خوف میںجنم لیتی ہے۔ لیکن یاد رکھیئے۔ ملکوں کی تقدیر خوف کے تابع ہو کر نہیں بدلی جا سکتی۔

ہمارے نوزائیدہ دانشور جب جوہڑ سے پانی پیتے انسان کی تصویر پر روتے ہیں،  جب انکو ہسپتال میں دوائی کے بغیر مرنے والی عورت کے موت پر رونا آتا ہے جب ان کو کیچڑ میں کھیلتے ہوئے بچوں کے مقدر کی الم ناک یاد ستاتی ہے تو ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ یہ ملک ایسے ہی

 چل رہا ہے۔ جمہوری دور میں آپ کو الم کی یہ تصاویر نظر آجاتی ہیں۔ آمریت کے دور میں آپ کی سماعتوں پر پردہ کیوں پڑ جاتا ہے، ؟بینائی کیوں کھو جاتی ہے ؟ قوت گویائی کیوں گم ہو جاتی ہیں؟یہ منظر تب کیوں نہیں دکھتے؟یہ آنسو تب کیوں نہیں بہتے؟

جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد وزیر اعظم کے خطاب میں سب سے حوصلہ افزا بات یہی تھی کہ اب سچ پردوں کے پیچھے نہیں چھپے گا۔ اب کٹھ پتلیوں کا کھیل نہیں چلے گااور اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے موڑنے نہیں دیں گے۔ یہ دعوی اس ملک میں بہت بڑا دعوی ہے اور کٹھ پتلیوں کے اس دیس میں ہم سب بہت ہی بے بس ہیں۔ کیونکہ ہمارے خالی سروں کو کھول کر،  ہماری کھوپڑیوں میں ٹھونک ٹھونک کر ایک بات بٹھا دی گئی ہے کہ جمہوریت ہی کرپشن کا منبع ہے۔ سب سیاست دان ہی لٹیرے ہیں۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar