پاناما کا انجام: فیض کی نظم یا منٹو کا افسانہ؟


پاکستان میں کئی بار ایسا ہوا کہ کرپشن کے نام پر ”کئی تاج اچھالے گئے، کئی تخت گرائے گئے“۔ لوگ کئی بار منتظر ہوئے ”وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جو لوحِ ازل میں لکھا ہے“۔ پاک شہریوں کو بہت دفعہ امید بندھی کہ ”جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں، روئی کی طرح اڑ جائیں گے“۔ وہ کم عزت والے بھی خوش فہمی سے بہت دفعہ ناچے کہ ”ہم محکوموں کے پاﺅں تلے، جب دھرتی دھڑدھڑ دھڑکے گی“۔ گھاس پھوس کی مانند عوام کا ہر بار خیا ل تھا کہ ”اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی“۔ اُن سادہ لوح بت شکنوں نے ہر بار سوچ لیا تھا کہ ”جب ارضِ خدا کے کعبے سے، سب بت اٹھوائے جائیں گے“۔ حقیر کپڑے پہننے والوں نے اپنے میلے پہناوے ہرمرتبہ دھلوائے کہ ”ہم اہلِ صفا مردودِ حرم، مسند پہ بٹھائے جائیں گے“۔ انہیں ہرمرتبہ یقین دلایا گیا کہ ”سب تاج اچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے“۔ ایمان والے معصوم شہری ہمیشہ یقین رکھتے آئے کہ ”بس نام رہے گا اللہ کا، جو غائب بھی ہے حاضر بھی، جو منظر بھی ہے ناظر بھی“۔ بہرے کردیئے گئے اُن کے کانوں نے ہمیشہ سننے کی کوشش کی کہ ”اٹھے گا اناالحق کا نعرہ، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو“۔ کروڑوں بدحال باشندوں نے باربار یک زبان ہوکر کہا ”اور راج کرے گی خلقِ خدا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو“۔ تبھی بھولے بھالے لوگوں نے آنکھوں میں باربار خواب سجائے کہ ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ لیکن گزشتہ 70 برسوں میں کب ایسا ہوا؟

کب خلقِ خدا نے راج کیا؟ ہمیشہ لوگوں کی امیدیں بجھتی گئیں۔ انہوں نے جسے بھی اپنی کشتی کا کپتان سمجھا وہ منزل بھول دوسرے جزیروں کی طرف چل نکلا۔ راج کرنے کی لوگوں کی معصوم خواہشیں اپنے وعدہ معاف لیڈروں کی وجہ سے اکثر سازشیں قرار پائیں اور زمین پر گرے انڈوں کی طرح ٹوٹ کر ضائع ہوگئیں۔

ایسی ہی معصوم سازشوں کے حوالے سے منٹو اپنے ایک افسانے ”پھولوں کی سازش“ میں لکھتے ہیں کہ ”باغ میں جتنے پھول تھے سب کے سب باغی ہوگئے۔ گلاب کے سینے میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کی ایک ایک رگ آتشیں جذبے کے تحت پھڑک رہی تھی۔ ایک روز اُس نے اپنی کانٹوں بھری گردن اٹھائی اور غوروفکر کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔ ”کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ ہمارے پسینے سے اپنے عیش کا سامان مہیا کرے۔ ہماری زندگی کی بہاریں ہمارے لئے ہیں اور ہم اس میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کر سکتے”۔ گلاب کا منہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔ اس کی پنکھڑیاں تھرتھرا رہی تھیں۔ چنبیلی کی جھاڑی میں تمام کلیاں یہ شور سن کر جاگ اٹھیں اور حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ گلاب کی مردانہ آواز پھر بلند ہوئی۔ ”ہر ذی روح کو اپنے حقوق کی نگرانی کا حق حاصل ہے اور ہم پھول اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ہمارے قلوب زیادہ نازک اور حساس ہیں۔ گرم ہوا کا ایک جھونکا ہماری دنیائے رنگ وبو کو جلا کر خاکستر کرسکتا ہے اور شبنم کا ایک بے معنی قطرہ ہماری پیاس بجھا سکتا ہے۔ کیا ہم اس مالی کے کھردرے ہاتھوں کو برداشت کرسکتے ہیں جس پر موسموں کے تغیرو تبدل کا کچھ اثر ہی نہیں ہوتا؟“ موتیا کے پھول چلائے ”ہرگز نہیں“۔ لالہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور کہنے لگا ”اس کے ظلم سے میرا سینہ داغدار ہورہا ہے۔ میں پہلا پھول ہوں گا جو اس جلاد کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرے گا“۔ یہ کہہ کر وہ غصے سے تھرتھر کانپنے لگا۔ چنبیلی کی کلیاں متحیر تھیں کہ یہ شور کیوں بلند ہورہا ہے۔ ایک کلی ناز کے ساتھ گلاب کے پودے کی طرف جھکی اور کہنے لگی ”تم نے میری نیند خراب کردی ہے۔ آخر گلا پھلا پھلا کر کیوں چلا رہے ہو؟“ گلِ خیرا جو دور کھڑا گلاب کی قائدانہ تقریر پر غور کررہا تھا بولا ”قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ گو ہم ناتواں پھول ہیں لیکن اگر ہم سب مل جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی جان کے دشمن کو پیس کر نہ رکھ دیں۔ ہماری پتیاں اگر خوشبو پیدا کرتی ہیں تو زہریلی گیس بھی تیار کرسکتی ہیں۔ بھائیو! گلاب کا ساتھ دو اور اپنی فتح سمجھو“۔ یہ کہہ کر اس نے اخوت کے جذبے کے ساتھ ہر پھول کی طرف دیکھا۔ گلاب کچھ کہنے ہی والا تھا کہ چنبیلی کی کلی نے اپنے مرمریں جسم پر ایک تھرتھری پیدا کرتے ہوئے کہا ”یہ سب بیکار باتیں ہے۔ آﺅ تم مجھے شعر سناﺅ، میں آج تمہاری گود میں سونا چاہتی ہوں۔ تم شاعر ہو، میرے پیارے آﺅ ہم بہار کے اِن خوشگوار دنوں کو ایسی فضول باتوں میں ضائع نہ کریں اور اُس دنیا میں جائیں جہاں نیند ہی نیند ہے، میٹھی اور راحت بخش نیند“۔

گلاب کے سینے میں ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ اس کی نبض کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی اتھاہ گہرائی میں اتر رہا ہے۔ اسی نے کلی کی گفتگو کے اثر کو دور کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا ”نہیں میں میدان جنگ میں اترنے کی قسم کھا چکا ہوں۔ اب یہ تمام رومان میرے لئے مہمل ہیں“۔ کلی نے اپنے لچکیلے جسم کو بل دے کر خواب گوں لہجہ میں کہا ”آہ، میرے پیارے گلاب ایسی باتیں نہ کرو، مجھے وحشت ہوتی ہے۔ چاندنی راتوں کا خیال کرو۔ جب میں اُس روشنی کے فوارے کے نیچے نہاﺅں گی تو تمہارے گالوں پر سرخی کا اتار چڑھاﺅ مجھے کتنا پیارا معلوم ہوگا۔ چھوڑو اِن فضول باتوں کو۔ میں تمہارے کاندھے پر سررکھ کر سونا چاہتی ہوں“ اور چنبیلی کی نازک ادا کلی تھراتے ہوئے گلاب کے ساتھ لگ کر سوگئی۔ گلاب مدہوش ہوگیا۔ چاروں طرف سے ایک عرصہ تک دوسرے پھولوں کی صدائیں بلند ہوتی رہیں مگر گلاب نہ جاگا۔ ساری رات وہ مخمور رہا۔ صبح مالی آیا۔ اُس نے گلاب کے پھول کی ٹہنی کے ساتھ چنبیلی کی کلی چمٹی ہوئی پائی۔ اُس نے اپنا کھردرا ہاتھ بڑھایا اور دونوں کو توڑ لیا“۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے۔ اب دیکھنا ہے کہ پاناما کا انجام فیض کی نظم ہوگا یا منٹو کا افسانہ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).