ہندوستان پر برطانوی راج کے ْفائدوںٗ کی حقیقت (2)


برطانوی استعمار کا ہندوستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا دعویٰ بھی اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ یہ کہنا کہ برطانیہ نے ہندوستان کو سیاسی وحدت اور جمہوریت جیسی برکات سے نوازا۔ یہ خودساختہ مفروضہ درحقیقت برطانوی استعمار کا اپنے تَسلّط کو جواز بخشنے کا ایک مرکزی بہانہ تھا۔ مشہور برطانوی شاعر رڈ یارڈ کپلنگ، جو کہ وکٹورین دور کے استعمار کا پرجوش وکیل تھا، نےتاج برطانیہ کی قانون کی اہمیت سے ناواقف اقوام ( ہندوستان، افریقہ وغیرہ) کو قانون سے روشناس کروانے کی” عظیم خدمت“ کا زورو شور سے ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بات کہتے وقت اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہےکہ برطانوی قانون جس ہندوستانی قوم پر مسلط کیا گیا وہ خود اپنے قانونی ڈھانچے سمیت ایک انتہائی جاندار تہذیب کی حامل تھی اور برطانیہ کو اپنا اقتدار اور قانون نافذ کرتے وقت زور زبردستی اور جبر کا استعمال کرنا پڑا۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نوآبادیاتی دور میں قانون کی حکمرانی بھی مساواتِ انسانی کے تصور پر قائم نہیں تھی۔ گوروں (برطانوی باشندوں) کو ہندوستانیوں کے خلاف کئے گئے جرائم پر انتہائی معمولی سزائیں ملتی تھیں؛ مثلاً ایک برطانوی کو اپنے ہندوستانی ملازم کو پستول سے قتل کرنے کے جرم میں چھ ماہ قید اورتقریباً سوروپے (اس زمانے کے حساب سے) جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اس کے مقابلے میں ایک ہندوستانی کو انگریز خاتون سے زیادتی کی کوشش کرنے کے جرم میں 20سال قیدبا مشقت کی سزا سنائی گئی۔

برطانوی اقتدار کی دو صدیوں کے دوران صرف تین برطانوی شہریوں کو ہندوستانی افراد کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی جبکہ ہزاروں ہندوستانیوں کے قتل کئے جانے کے مختلف واقعات میں کسی بھی برطانوی کو سزا سنائی نہ جا سکی۔

برطانوی شہریوں کے ہاتھوں ہندوستانیوں کی ہلاکت ہمیشہ ایک ”حادثہ“ ہوتی تھی جبکہ کسی بھی برطانوی کی ہندوستانیوں کے ہاتھوں موت ناقابل معافی اور بدلے میں قتل کئے جانے کے لائق سمجھی جاتی تھی (چاہے یہ ہلاکت واقعی کسی لاعلمی یا حادثے کی وجہ سے ہوئی ہو)۔ جب ایک ہندوستانی خادم کی موت اس کے برطانوی آقا کے اس کے پیٹ میں لات مارنے اور نتیجتاً انتڑیوں کے پھٹ جانے کی وجہ سے واقع ہوئی تو اس کی موت کا ذمہ دار ملیریا کی وجہ سے اس کی بڑھی ہوئی انتڑیوں کو قرار دیا گیا۔ پنچ میگزین نے قابل اعتماد برطانوی بوٹ (جس کے ذریعے محکوم اقوام کو ٹُھّڈے مارے جا سکیں) کی تعریف میں پوری ایک نظم شائع کی جس میں انگریزی بوٹوں کا، مقامی آبادی کو اپنی اوقات میں رکھنے کے ایک انتہائی کارگر آلے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

سیاسی معاملات میں اِختلاف رائے اور حُقوق کے مطالبے کو مختلف قوانین کے نفاذ کے ذریعے سختی سے کچلا گیا۔ ہندوستان میں نافذ کیا جانا والا قانونِ بغاوت اُسی دور میں برطانیہ میں نافذ کئے جانے والے قانون سے کئی درجہ زیادہ سخت تھا۔ ہندوستان میں نافذ پینل کوڈ (سزاؤں کی فہرست) میں ریاست سے اختلاف کرنے سے متعلق 49 آرٹیکل درج تھے جبکہ اموات اور قتل کےجرائم سے متعلق صرف 11 آرٹیکل موجود تھے (گویا حکومت سے اختلاف کرنا لوگوں کی جان لینے سے بھی زیادہ سنگین جرم تھا)۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ برطانوی اقتدار نے ہندوستان کو انگریزی زبان سے روشناس کروایا جس کے فوائد (اور شاید نقصانات بھی) ہم آج تک سمیٹ رہے ہیں ۔ تاج برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں انگریزی زبان کے فروغ کے پیچھے اِس خطے کی خیرخواہی کی کوئی سوچ نہیں تھی ۔ انگریزی زبان کو بھی نوآبادیاتی غلبے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ ہندوستانیوں کو یہ زبان سکھا کر برطانوی مفادات کے حصول کی راہ ہموار کی گئی۔ 1835ء میں ديے گئے اپنے مشہور خطاب میں لارڈ میکالے نے (پوری قوم کی بجائے) ہندوستانیوں کی ایک محدود اقلیت کو انگریزی زبان سکھانے کی وجہ درج ذیل الفاظ میں بیان کی: ”ہمیں اپنی بھرپور کوششیں اور صلاحیتیں اس بات کے لئے صَرف کرنی چاہیے کہ ہم ہندوستان میں ایک ایسی کلاس (یا طبقے) کو پیدا کریں جو ہمارے اور ہمارے زیرنگیں کروڑوں ہندوستانیوں کے بیچ مترجّم کی ذمہ داریاں نباہ سکے۔ یہ کلاس (یا طبقہ ) ایسے افراد پر مشتمل ہوجو کہ رنگت اور جسمانی خدوخال میں ہندوستانی ہوں، لیکن مزاج، پسند ناپسند، نظریات، اخلاقیات اور عقل و دانش کے استعمال میں برطانوی باشندوں جیسے ہوں۔ “(آج بھی یہ طبقہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی شکل میں خطے کے ممالک میں عوام کے سروں پر سوار ہے۔ مترجم)

زبان کو سکھانے کا واحد مقصد حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان واسطے اور رابطے کا کردار ادا کرنا تھا۔ برطانوی حکومت کو ہندوستانی عوام کو تعلیم یافتہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور نہ ہی وہ اس مقصد کے حصول کے لئے مطلوبہ بجٹ مہیا کرنے کو تیار تھے۔ ہندوستانیوں کا انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا، اُسے اپنی آزادی کے حصول کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور اُسے برطانوی ظلم وجبر کے خلا ف اپنے قومی جذبات کے اظہار کا زریعہ بنانا، اِس کا کریڈٹ خود اِن ہندوستانیوں کو دیا جانا چاہیے نا کہ برطانوی پالیسیوں کو۔

ہندوستان میں ریلوے نظام کی تعمیر کو برطانوی نوآبادیاتی نظام کے وکلاء اور خیر خواہوں کی طرف سے ایک ایسے عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ہندوستان کو بے انتہا فائدہ پہنچا۔ یہ لوگ اس سادہ حقیقت کو کمال مہارت (لاعلمی یا بددیانتی ) سے نظر انداز کردیتے ہیں کہ بہت سے دیگر ممالک نے بھی ریلوے نظام کو تعمیر کیا لیکن اس کے لئے اُنہیں نوآبادیاتی نظام کی تکالیف اور لوٹ مار کے عمل سے گزرنا نہیں پڑا۔ ریلوے کے ضمن میں حقائق توقعات سے زيادہ تلخ ہیں۔

ریلوے کا نظام تعمیر کرنے کا خیال سب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذہن میں آیا اورظاہر ہے کہ دیگر تمام معاملات کی طرح یہاں بھی اصل ہدف کمپنی کو فائدہ پہنچانا تھا۔ 1843ء میں گورنر جنرل لارڈ ہارڈینگ نے ریلوے کے فوائد بیان کرتے ہو‏‏ئے دلائل ديے کہ اس کے ذریعے ہمیں ملک (ہندوستان) میں تجارت، حکومتی معاملات اور فوجی کنٹرول بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اپنے آغاز سے لے کر تکمیل تک، ہندوستانی ریلوے نوآبادیاتی دور کی دھوکہ دہی، کرپشن اور لوٹ مار کی ایک بدترین مثال تھی۔ برطانوی کمپنیوں کے حصہ داروں نے ریلوے میں سرمایہ کاری کرکے ناقابل یقین حد تک دولت کمائی جہاں حکومت نے عام سرکاری شرح سے دوگنا شرح پر انہیں منافع دیا۔ یاد رہے کہ یہ دوگنا منافع ہندوستانی ٹیکس دہندگان کی ہر دم سکڑتی جیبوں سے برطانوی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں منتقل کیا گیا۔ (یعنی ریلوے کی تعمیر کے ذریعے برطانوی حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ نے بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھوئے اور لامحدود منافع بٹورا۔ (آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں حکمران طبقات کمیشن اور کالے دھن کی کمائی کے لئے اس طرح کے پراجیکٹس میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور عوام کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔ مترجم)

ریلوے نظام کا بنیادی مقصد خام مال اور معدنی وسائل مثلاً کوئلہ، لوہا، کپاس وغیرہ کو برطانوی فیکٹریوں تک بآسانی اور تیز رفتار طریقے سے پہنچانا تھا (تاکہ اِس سستے خام مال سے مہنگی اشیاء تیار کر کے ہندوستانی بازاروں میں بیچی جا سکیں)۔ ریلوے کے ذریعے افراد کی نقل و حمل میں آسانی کا پیدا ہونا محض ایک ذیلی معاملہ (یا بائی پراڈکٹ) تھا جس کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ اس کے ذریعے نوآبادیاتی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ عوام کے سفر کےلئےلکڑی سے بنے تیسرے درجے کے جو ڈبے فراہم کئے گئے وہ کسی بھی قسم کی سہولتوں سے یکسر بے نیاز تھے جن میں ہندوستانیوں کو جانوروں کی طرح بھرا اور ہانکا جاتا تھا۔ غیر معیاری سفری سہولیات کی فراہمی پر اس دور میں بھی شدید تنقید کی گئی۔

دیگر تمام شعبہ ہائے حیات کی طرح یہاں بھی نسل پرستی کا غلبہ تھا۔ اگرچہ” صرف گوروں کے لئے“ والے ڈبے ناقابل برداشت اخراجات کی وجہ سے بند کرديے گئے لیکن اس کے باوجود ہندوستانیوں کے لئے سستے داموں میسر ڈبوں اور سہولتوں کی شدید کمی رہی۔ (آزادی کے بعد شائع ہونے والےایک کارٹون میں اس صورتحال کی شاندار منظر کشی کی گئی ہے۔ تصویر میں ایک گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ٹرین دکھائی گئی ہے، تیسرے درجے کے ڈبے انسانوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں، جن کو جگہ نہ ملی وہ خطرات کو مول لے کر کھڑکیوں اور دروازے سے لٹکے ہوئے ہیں یا ٹرین کی چھت پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس اول درجے کے ڈبے میں دو انگریز سولا ٹوپیاں (ایک خاص قسم کی ٹوپی جو نوآبادیاتی دور میں انگریز پہنا کرتے تھے) پہنے ایک دوسرے سے گفتگو کررہے ہیں، ”میرے عزیز دوست! لگتا ہے کہ ٹرین میں ہمارے علاوہ کوئی بھی سوار نہیں ہے۔ “ “My dear chap, there’s nobody on this train!”)

مزید یہ کہ ہندوستانیوں کو ریلوے میں نوکریاں بھی نہیں دی جاتی تھیں۔ اُس زمانے میں برطانوی ارباب اختیار کی متفقہ رائے یہ تھی کہ ”سرمایہ کاری کے تحفظ“ کے لئے ریلوے میں صرف یورپی النسل افراد کو بھرتی کیا جائے۔ خاص طور پر سگنل پر تعینات ملازموں اوربھاپ سے چلنے والے انجنوں کی مرمت اور استعمال کے لئے اس اصول کو سختی سے لاگو کیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ نسل پرستانہ پالیسی اِس حد تک بری صورت اختیار کر چکی تھی کہ ریلوے بورڈ کے ڈائریکٹرز سے لے کر ٹکٹ چیک کرنے والوں تک تمام عہدوں پر گورے افراد تعینات تھے۔ ان گورے ملازموں کو ہندوستان کے بجائے یورپی معیارات کے مطابق تنخواہیں اور سہولیات دی جاتی تھیں جس کا تمام تر بوجھ ہندوستانی عوام پر پڑتا تھا۔ مزید یہ کہ ان مالی فوائد اور سہولیات کا بڑا حصہ واپس برطانیہ منتقل ہوجاتا تھا۔

نسل پرستی اور برطانوی معاشی مفادات کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ریلوے کی کارکردگی اور کفایت شعاری بھی شدید متاثر ہوئی۔ 1862ء میں بنگال کے شہر جمال پور اور راجپوتانہ کے شہر اجمیر میں ٹرینوں کی مرمت کے لئے ورکشاپس قائم کی گئیں۔ ان ورکشاپس کے ہندوستانی مکینک اپنے کام کے اتنے ماہر ہوگئے کہ وہ اپنے انجن خودڈیزائن اور تیار کرنے لگے۔ ان کی کامیابی نے برطانوی پالیسی سازوں کو خبردار کردیا کیوں کہ ہندوستانی انجن کارکردگی میں برطانوی انجنوں جتنے ہی مؤثر تھے جبکہ ان کی پیداواری لاگت کئی گنا کم تھی۔ چنانچہ، 1912ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک خصوصی قانون منظور کیا جس کے ذریعے انڈین ورکشاپس میں انجن ڈیزائن اور تیار کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

ہندوستانی معیشت کو اس ظالمانہ پالیسی سے کتنا نقصان پہنچا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1854ء سے لے کر 1947ء کے درمیانی عرصے میں، ہندوستان نے برطانیہ سے 14400 انجن درآمد کئے۔ اس کے علاوہ تقریباً 3000 انجن کینیڈا، امریکا اور جرمنی سے برآمد کئے گئے، لیکن 1912ء میں درج بالا قانون پاس ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک بھی انجن تیار نہ کیا جاسکا ۔ آزادی کے 35 برس بعد، انجن بنانے کا قدیم تکنیکی علم اور مہارت مکمل طو ر پر ضائع ہوچکے تھے اور مجبوراً ہندوستانی ریلوے کو برطانیہ کے سامنے مؤدبانہ درخواست کرنی پڑی کہ وہ اسے انجن بنانے کی فیکٹری قائم کرنے میں راہنمائی فراہم کرے۔ اس قصے کا آخری حصہ انتہائی دلچسپ ہے۔ آزادی کے 70 برس بعد ہندوستانی ریلوے (اس سے مراد انڈین ریلویز ہے، پاکستان کا ریلوے نظام تو انگریز دور سے بھی زیادہ بری حالت کا شکار ہے اور ریلوے ٹریک بتدریج کم ہوا ہے۔ مترجم) نے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ برطانوی ریلوے کو تکنیکی مشاورت فراہم کرنے والی کمپنی رینڈل (RENDEL) ہندوستان کی تکنیکی مہارتوں پر انحصار کرتی ہے۔ اِس کمپنی کا مرکزی دفتر لندن میں واقع ہے اور یہ تکنیکی معاونت اُسے ہندوستانی ریلوے کا ایک ذیلی ادارہ فراہم کررہا ہے۔

ہندوستان میں نوآبادیاتی نظام کے نتیجے میں معاشی استحصال اور بربادی کروڑوں لوگوں کامقدر بنی، رواں دواں صنعتیں تباہ کردی گئیں، مساویانہ بنیادوں پر مقابلے کی منظم اندازمیں حوصلہ شکنی کی گئی، حکومت اور انتظامی امور چلانے کے مقامی اداروں کا خاتمہ کردیا گیا، ہزاروں سال سے پھلتی پھولتی تہذیب، رسم و رواج اور رہن سہن کو انتہائی بھونڈے انداز میں بالجبر بدل دیا گیا اور سب سے بڑا ظلم محکوم لوگوں کے ساتھ یہ کیا گیا کہ انہیں ان کی شناخت، عزت نفس اور خود داری سے محروم کردیاگیا۔

1600ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی گئی تو برطانیہ کاعالمی پیداوار میں حصہ صرف 1.8 فی صد تھا جبکہ اسی دور میں ہندوستان کا حصہ 23 فی صد (سترہویں صدی میں 27 فی صد) تھا۔ 1940ء کی دہائی تک، ہندوستان پر برطانوی قبضے کے تقریباً دو سو سال بعد، برطانیہ کا عالمی پیداوار میں حصہ 10 فی صد ہوچکا تھا جبکہ ہندوستان کو تیسری دنیا کے ایک غریب اور بدحال ملک میں تبدیل کیا جاچکا تھا۔ بھلے وقتوں میں وافر مقدار میں غلہ اور اناج پیدا کرنے والے اس خطے کی غربت اور قحط سالی کی مثالیں پوری دنیا میں دی جانے لگیں۔

برطانوی استعمار ہندوستانی معاشرے (جسے انگریز کی آمد سے پہلے اپنی معاشی خوشحالی کی بنیاد پر سونے کی چڑیا کہا جاتھا) کو اس حال میں چھوڑ کر گیا کہ یہاں کی مقامی صنعت تباہ وبرباد، تعلیمی شرح صرف16 فی صد، اوسط عمر 27 سال اور 90 فی صد سے زائد آبادی خط ِغربت کے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔

برطانیہ جس ہندوستان میں داخل ہوا تھا وہ ایک خوشحال، ترقی پذیر اور تجارتی معاشرہ تھا: انہیں خصوصیات کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی اس خطےمیں کام کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ انگریز سے پہلے کے ہندوستان کے بارے میں عام تاثر ایک پسماندہ اور غیر صنعتی خطے کا ہے جب کہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔ نوآبادیاتی دور سے پہلے کا ہندوستان بہترین معیار کی صنعتی اشیاء پیدا کرتا تھا جن کی برطانیہ کے اعلیٰ طبقات میں بہت مانگ تھی۔ برطانوی اشرافیہ ہندوستانی ململ اور ریشم سے بنے لباس بڑے فخر سے زیب تن کرتی تھی، اپنے گھروں کو ہندوستان کے بنے پردوں اور قالینوں سے سجاتی تھی اور کھانوں میں ہندوستانی ذائقوں اورمصالحوں کی انتہائی گرویدہ تھی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں برطانوی دوکاندار گھٹیا درجے کے برطانوی کپڑے کو ہندوستانی ظاہر کر کے بیچنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہ زیادہ دام وصول کرسکیں۔

ہندوستان کی کہانی، اپنی ہزاروں سال کی تہذیبی تاریخ کے مختلف ادوار میں شاندار تعلیمی اداروں، جدید ترین سہولیات سے مزین شہروں، ایجادات، عالمی معیار کی پیداواری صنعتوں اور بے مثال خوشحالی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو کہ ہندوستان ميں جدید ترقیات کے روشن امکانات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر برطانیہ دو سو سال تک ہندوستان کے وسائل نہ لوٹتا تو عین ممکن تھا کہ آج ہندوستان (موجودہ انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان) ایک جدید، ترقی یافتہ اور خوشحال خطہ بن چکا ہوتا۔

اگرچہ برطانوی استعمار کی طرف سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے تعمیر کئے گئے اداروں کے فوائد ہندوستانی معاشرے کو بھی پہنچے لیکن یہ فوائدغیر ارادی اور ثانوی نوعیت کے تھے۔ آج ریلوے کا نظام ہندوستانی معاشرے (موجودہ انڈیا) ميں انتہا درجہ کی اہمیت اختیار کرچکا ہے؛ ہندوستانی حکام نے برطانوی پالیسیوں کا رخ تبدیل کردیا ہے۔ اصل اہمیت عوام کو سفری سہولیات فراہم کرنے کو دی جا رہی ہے۔ مال بردار گاڑیوں کے کرائے زیادہ رکھے گئے ہیں تاکہ عوام کو ترجیحی بنیادوں پر کم قیمت سفری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ (برطانیہ کی پالیسی اس کے بالکل الٹ تھی؛ سفری کرائے مہنگے رکھ کر مال بردار گاڑیوں کے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔)

اس حقیقت پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ برطانوی معاشرہ اپنی تاریخ اور ہندوستان میں لوٹ مار پر مبنی حکومت سےمتعلق شرمناک حد تک لاعلم ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے برطانوی شہنشائیت کی عظمت کی کہانیاں مقبول ہورہی ہیں جسے ممتاز عالم پال گیلروئے نے ”ماضی سے متعلق جدید نوآبادیاتی اداسی“ کا عنوان دیا ہے۔ 2014ء میں ہونے والے ایک سروے میں 59فی صد افراد نے برطانوی سلطنت کو اپنے لئے باعثِ فخر قرار دیا، صرف 19فی صد نے اِس کے برے اعمال کی وجہ سے اِس پر شرمندگی کا اظہار کیا۔

اس ساری گفتگو کا مقصد آج کے دور میں ہندوستان اور برطانیہ کے باہمی تعلقات کو خراب کرنا نہیں ہے۔ ویسے بھی آج کےتعلقات، سامراجی آقا اور مجبور غلاموں کی بجائے، دو خودمختار اور برابر کی اقوام کے درمیان قائم ہیں۔ حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئے نے ہندوستان کا دورہ کیا اور امید ظاہر کی کہ بریگزٹ (برطانیہ کا یورپی یونین سے الگ ہوجانا) کے بعد ہندوستان برطانوی معیشت کو سہارا دینے کے لئے وہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ آپ کو تاریخی امور میں بدلہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاریخ اپنا انتقام خود ہوتی ہے۔

مترجم: محمد عثمان

مترجم: محمد عثمان

بشکریہ: دی گارڈین

اصل مضمون کا لنک درج ذیل ہے:

https://www.theguardian.com/world/2017/mar/08/india-britain-empire-railways-myths-gifts

http://www.humsub.com.pk/67291/shashi-tharoor/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).