عامر بھائی پلیز ایسی باتیں نہ کریں


 پاکستان پہلی بار آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچ گیا،بیشتر کرکٹ ماہرین کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی، سب سمجھ رہے تھے کہ ابتدائی دونوں میچز ہار کر ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگی پھر سری لنکا کو زیر کر کے واپس آ جائے گی، مگر کھلاڑیوں نے سب کو غلط ثابت کر دکھایا، اس شاندار کارکردگی پر تمام پاکستانی بیحد مسرور ہیں، ہر طرف خوشی کا سماں ہے، رمضان المبارک میں کی گئی دعائیں رنگ لے آئیں،ان دنوں ملک میں کرکٹ کا جنون عروج پر پہنچا ہوا ہے، البتہ اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ کامیابیاں ہضم نہیں ہوئیں اور وہ اس سے خوش نہیں ہیں، افسوس ان میں سے کچھ کا تعلق اپنے ہی ملک سے ہے۔

ان کے تبصروں اور باڈی لینگوئج سے واضح ہو جاتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی گرین شرٹس کی تعریف کر رہے ہیں، عامر سہیل ایک محب الوطن پاکستانی ہیں اور انھوں نے ہمیشہ ملک کیلیے کرکٹ کھیلی، میچ فکسنگ وغیرہ سے بھی دور رہے، غصے کا ان کا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے کرکٹ کیریئر میں نقصان ہوا، بعد میں جب چیف سلیکٹر بنے تو بھی انھوں نے ایمانداری سے فرائض نبھائے، مگر افسوس بطور ماہر وہ اپنے کردار سے انصاف نہیں کر پا رہے۔

گزشتہ دنوں ان کے ٹی وی شو کی ایک کلپ سوشل میڈیا پر دیکھی، میں نے اپنے ساتھی عباس رضا کو وہ کلپ بھجوائی اور پھر ہم نے طے کیا کہ اس کی خبر شائع کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ خوشی کے ماحول میں رنگ میں بھنگ ڈالنے والی بات ہو گی، مگر یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، زبان سے نکلی بات یا کی بورڈ سے لکھے چند جملے لمحوں میں دنیا کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں، اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا، عامر سہیل نے سرفراز احمد کے بارے میں جو کچھ کہا اور ٹیم کی فتح کو داغدار بنایا اس کی گونج دنیا بھر میں سنائی دی۔

بھارت تو ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتا ہے، اس کے میڈیا نے نمک مرچ لگا کر اسے پیش کیا یوں پاکستان کی خوب جگ ہنسائی ہوئی، میں عامر سہیل کی فرسٹریشن سمجھ سکتا ہوں، انھیں اس بات کا خدشہ ہو گا کہ اگر ٹیم اسی طرح جیتتی رہی تو موجودہ بورڈ آفیشلزکی کرسیاں پکی ہوں گی جنھیں وہ بالکل بھی پسند نہیں کرتے، بعض لوگ نئے چیئرمین کیلیے ان کا نام بھی لے رہے تھے مگر انھیں خدشہ ہوگا کہ ان فتوحات سے میرا کیس کمزور ہو گیا، مگر اس کیلیے گرین شرٹس پر انگلیاں اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

یہ کلپ سیمی فائنل سے پہلے کی تھی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ’’سرفراز کو جتوایا جا رہا ہے‘‘ یعنی ان کا مطلب تھا کہ ساری ٹیمیں پاگل ہو گئی ہیں اور سرفراز احمد کو کامیاب بنانے کیلیے جان بوجھ کر ہار رہی ہیں،یقیناً سری لنکن فیلڈرز نے کیچز چھوڑے لیکن اس کا تو ہمیں فائدہ ہی ہوا، اگر ہم سری لنکنز ہوتے تو ہمارا رونا دھونا جائز ہوتا، عامر بھائی پلیز ایسی باتیں نہ کریں ، اس سے بعض ملک دشمن معاملات کو کچھ اور ہی رنگ دے رہے ہیں، میں نے تو سرفراز کا کوئی ایسا بیان نہیں دیکھا جس میں انھوں نے تنقید کرنے پر کسی سابق کرکٹر کو اڑایا ہو،آپ نے تو ان کا نام لے لے کر توہین کی، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جیت تو پاکستان رہا ہے ناں، لہذا اس پر خوش کیوں نہ ہوں؟

افسوس اس بات کا ہے کہ ساتھ بیٹھے جاوید میانداد نے بھی عامر سہیل کو روکنے کی کوشش نہ کی اور وہ جو دل میں آیا بولتے رہے، سرفراز یقیناً ابھی پرفیکٹ کپتان نہیں، نہ ہی ہمیں ایسی توقع رکھنی چاہیے، ابھی انھیں یہ ذمہ داری سنبھالے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی تو ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ٹیم نئے روپ میں نظر آ رہی ہے،پہلے دفاعی قیادت کے سبب ون ڈے میں کیا حال تھا اب جیت رہے ہیں، اس کا کچھ تو کریڈٹ دیں، بھارت سے پہلے میچ میں سرفراز نے یقیناً بہت غلطیاں کیں جو سب کو دکھائی بھی دیں مگر ان سے انھوں نے سبق سیکھا۔

میں نے برمنگھم میں جنوبی افریقہ سے میچ کے بعد یہ بات جب سرفراز سے کہی تو انھوں نے بھی اعتراف کیا تھا کہ پہلے میچ میں کچھ غلطیاں ہوئیں جنھیں پھر پروٹیز سے میچ میں ٹھیک کیا، ہر مقابلے کے بعد ان کی کارکردگی میں بہتری آ رہی ہے اسی لیے ٹیم فائنل میں پہنچی،کپتان کی حوصلہ شکنی کرنا درست نہیں۔

یہ بات مان لیں کہ سلیکٹرز ہر دور میں اسکواڈ پورا کرنے کیلیے بعض نئے کھلاڑی ٹیم میں شامل کرتے رہے ہیں مگر وہ سیر کر کے ہی واپس آ جاتے تھے، اس بار نوجوانوں پر سرفراز احمد اور کوچ مکی آرتھر نے اعتماد کیا اور اہم میچز کھلائے جنھوں نے اپنی کارکردگی سے مایوس بھی نہیں کیا، یہ کریڈٹ ان سے نہیں چھینا جا سکتا، محمد حفیظ، اظہر علی، شعیب ملک اور احمد شہزاد جیسے سینئرز کی جانب سے کنٹری بیوشن کے بغیر گرین شرٹس اب فیصلہ کن معرکے میں شریک ہیں، اس سے اندازہ لگا لیں کہ ٹیم کتنی کامیاب ہے۔

فائنل میں اگر یہ سینئرز بھی چل پڑے تو فتح ضرور نصیب ہو گی، کوئی تصور کر سکتا تھا کہ کسی نئے کھلاڑی کا سیمی فائنل میں ڈیبیو ہو، وہ وکٹیں بھی لے اور بھرپور اعتماد سے مسکراتا نظر آئے مگر یہ مناظر ہمیں رومان رئیس نے انگلینڈ سے میچ میں دکھائے، ہم شرجیل خان کے فکسنگ کیس میں ملوث ہونے پر افسردہ تھے مگر ہمیں فخر زمان کی صورت میں فوراً ہی ایک اور اچھا اوپنر مل گیا، آل راؤنڈرز کی طویل عرصے سے کمی ہے مگر اب فہیم اشرف کے آنے سے امید کی کرن دکھائی دینے لگی،میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ تینوں نوجوان سپراسٹارز بن گئے، یقیناً انھیں اپنے آپ کو منوانے میں وقت لگے گا مگر صلاحیتوں کی کچھ جھلک تو دکھائی ہے ناں۔

ہمارے ملک میں طویل عرصے سے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی، آئی پی ایل جیسے بڑے ایونٹ میں نہیں کھلایا جاتا، بھارت سیریز کھیلنے کیلیے تیار نہیں، اس کے باوجود ہم ٹاپ ٹو ٹیموں میں شامل ہو گئے جو بڑی بات ہے، یہ درست ہے کہ چیمپئن بننے سے بھی بورڈ میں موجود خامیاں ختم نہیں ہو جائیں گی، شہریارخان تو اب جا رہے ہیں، نجم سیٹھی بطور چیئرمین اچھے امیدوار نہیں یہ حقیقت ٹرافی کے پیچھے چھپائی نہیں جا سکتی لیکن ابھی گرین شرٹس کی فتوحات سے لطف اندوز ہوں کیونکہ یہ کسی کو ورثے میں ملی ٹیم نہیں ہم کروڑوں پاکستانیوں کی ٹیم ہے اور ہمیں اس پر ناز ہے، پاکستان زندہ باد۔

 

 بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).