بھانڈ مراسی اچھے یا بھانڈ صحافی؟


میں نے جب شوبز میں قدم رکھا تو میرے خاندان والوں نے طعنہ دیا، کہ تم تو کنجروں والا کام کرنے جا رہے ہو، بھانڈ مراسی بننے چلے ہو۔ میں فخریہ کہتا تھا کہ ہاں میں کنجر ہوں، بھانڈ مراسی ہوں، لیکن آپ سوچیے آپ کیا ہیں۔ گھر گھر میں یہ ڈبا (ٹی وی مانیٹر) ہے، جس پر آپ پروگرام دیکھ کر کنجروں کی نقل کرتے ہیں۔ شادی بیاہ پر ان گانوں پر انھی کی ادا میں ناچتی بہو بیٹیاں، فیشن میں ان مراسیوں کی نقل کرنے والے آپ تماش بینوں کو کیا نام دیا جائے؟

کہانی میری دل چسپی کا سامان ہے۔ ہم داستان سناتے ہیں تو سبھی کو معلوم ہے، یہ داستان جھوٹی ہے۔ سچی بھی ہے تو اس کو جھوٹ سمجھ کے دیکھا جائے۔ ہمارے شعبے میں سب کچھ آئیڈیل نہیں ہے۔ بہت سی خرابیاں ہیں جن پر ہم کڑھتے ہیں۔ اپنے طور پہ وہ کمیاں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے کلاینٹ ٹیلے ویژن چینل اور پروڈکشن ہاوس ہیں۔ ظاہر ہے وہ بھی فرشتے نہیں ہیں، کیوں کہ ہم فرشتے نہیں ہیں۔ جہاں ہمیں اپنے کلاینٹس سے شکایت ہے، ان کے بھی ہم سے گلے ہیں۔

صحافت کا شعبے کا اعتبار حقائق پر مبنی خبروں کی ترسیل سے بنتا ہے۔ صحافی کا فرض ہے، کہ وہ چھان پھٹک کے عوام تک سچ پہنچائے۔ اس کے بعد اس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ خبروں کا تجزیہ کرے، لیکن خبر کے نام پر داستان سنانا صحافی کا کام نہیں ہے۔ صحافیوں کے بہت سے مسائل ہیں، کئی اخبارات، کئی نیوز چینل کئی کئی ماہ کی تن خواہیں نہیں دیتے، یا ترسا ترسا کے دیتے ہیں۔ کئی صحافیوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کی تن خواہیں اتنی ہیں، کہ دو تین ماہ تو گزار ہی لیتے ہیں، پھر وہ جس مقام پر ہیں، وہاں اس بات کے محتاج نہیں کہ ان کے ادارے کا مالک ہی ان کی تن خواہ جاری کرے تو وہ گھر کا کچن چلائیں۔ بہت سے صحافی تو ایسے ہیں جو ادارے کے مالک کو کما کے دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ پسنے والے وہ صحافی ہیں، جن کی تن خواہیں کم ہیں، اور ان کی واحد آمدن تن خواہ ہے۔ یہ ایسے ”نالائق“ رپورٹر ہوتے ہیں جنھیں کمائی کے طریقے نہیں آتے، یا نیوز ڈیسک کی ڈیوٹی دینے والے مجبور۔ میں بہت ایسے لوگوں کو جانتا ہوں، یہ منت کرتے ہیں، ہمیں بس نیوز چینل یا اخبار کا کارڈ لے دیں، بھلے تن خواہ نہ دیں۔

نیوز چینل ہو، یا انٹرٹینمنٹ چینل؛ سیلز ڈپارٹ منٹ کی تن خواہ نہ لیٹ ہوتی ہے، نہ ضبط۔ کیوں کہ یہ وہ شعبہ ہے جس نے اشتہارات لا کے دینے ہیں۔ یہ باتیں میں نے محض یاد دہانی کے لیے کی ہیں، ورنہ یہ وہ معلومات ہیں جن سے عام آدمی بھی واقف ہے۔

کھلاڑی کا کام کھیلنا ہوتا ہے۔ کھیل کی بہتری کے لیے کوششیں کرتا ہے۔ کوئی کھلاڑی شستہ اردو نہیں بول پاتا، انگریزی اٹک اٹک کے اور غلط سلط بولتا ہے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اردو یا انگریزی کا پروفیسر نہیں ہے، جس کی زبان پر اعتراض کیا جائے۔ اس کا کھیل اس کی پہچان ہے۔

مبلغ اور مصلح کے فرائض میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قالب میں‌ ڈھال لے، جس کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس کے قول و فعل میں تضاد کسی صورت پسندیدہ نہیں کہلائے گا۔ کھلاڑی، فن کار، مصور، ٹیلے ویژن پروگرام اینکر، صحافی اور دیگر مصلح نہیں ہوتے، مبلغ نہیں ہوتے، سیاست دان نہیں ہوتے۔ انھیں اپنی حدود میں رہ کے کام کرنا ہوتا ہے۔ منصف کا کام ہے عدل کرنا، عدل ہوتا دکھائی نہ دے، قاضی کے سیاسی بیان آئے دن اخباروں کی زینت بنیں، تو اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہی لگا رہے گا۔ کوئی اور نہیں وہ خود اپنے پیشے کی توہین کر رہا ہے، جو اپنے پیشے سے انصاف نہیں کرتا۔

چلن یہ ہوگیا ہے، کہ انھی کا کوئی ہم پیشہ ان کی رائے سے اختلاف کرے وہ بکا ہوا ہوتا ہے۔ ریٹنگ کے خواہش مند یہ صحافتی اداکار بعض اوقات عجیب بھونڈی حرکتیں کر جاتے ہیں۔ کہیں زبان چڑانے کی وڈیو ہی کروڑوں کی تعداد میں دیکھی جا رہی ہے تو کہیں ایسی وڈیو ریٹنگ لیتی ہے جس میں اینکر نے کسی کے ”بے نقاب“ کر دیا ہے۔ کئی بار تو یہ لگتا ہے، یہ اینکر نالاں ہیں حکومت ان کی سفارشات و ہدایات کو نہ جانے کیوں‌ نظر انداز کرتی ہے۔ یہی نہیں یہ اینکر حکومتی نمایندوں کوللکارنے بھی لگ جاتے ہیں۔ کسی پہ کوئی الزام لگا دیں، احتجاج پر کہتے ہیں، اگر میں جھوٹا ہوں تو کورٹ میں چلے جاو۔ اچھا آپ تصور کریں، کہ کوئی معروف فن کار، کوئی مقبول کھلاڑی حکومت وقت کو ہدایات دینے لگے یا للکارے، تو کیسا لگے گا؟ آج کے دور میں ٹی وی شو کرنے والے کچھ اینکروں کو وہی پذیرائی مل گئی ہے، جو اداکاروں کا مقدر تھی۔ ان کا بھی فین کلب ہے، جیسے اداکاروں کھلاڑیوں کا ہوتا ہے۔ ان گیم شو، نیوز شو کے اینکروں کے اسکینڈل بھی ایک معمول بن گئے ہیں، ایسے ہی جیسے کبھی اداکاروں کے اسیکنڈل آتےتھے۔ دیکھنے کا منظر وہ ہوتا ہے جب دوسروں کو ”بے نقاب“ کرنے کے دعوے دار یہ اینکر اپنے پر لگے الزامات پر سراسیمہ ہو جاتے ہیں، حال آں کہ یہ بھی کورٹ کا راستہ جانتے ہیں، لیکن کورٹ جاتے نہیں، جیسے اپنے معترضین کو مشورہ دیا کرتے ہیں۔

آج کے دن خدا کا شکر ادا کرتا ہوں، میں بھانڈ مراسی ہوں، بھانڈ صحافی نہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran