توہین مذہب کے الزامات، مشتعل ہجوم ۔ غور و فکر کی ضرورت  (1)


13 اپریل 2017ء کو عبدالولی خان یونیورسٹی، مردان کے طالب علم مشال خان پر توہین  مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر بلوائیوں نے انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا۔ مشال خان کے قتل سے قبل اور بعد ازاں اور واقعات بھی ہوئے جن میں کچھ افراد پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں مار دیا گیا یا مارنے کی کوشش کی گئی۔ نومبر 2014ء میں کوٹ رادھا کشن میں تین بچوں کی ماں اور چوتھے بچے سے حاملہ، 24سالہ مزدور، کرسچن عورت، شمع مسیح اور اس کے 28 سالہ شوہر شہزاد مسیح پر 1200 افراد پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم نے پہلے جسمانی تشدد کیا، پھر زندہ جلا کر مار دیا۔ اس ہجوم کو دو مقامی مسجدوں کے مولویوں نے اپنی اشتعال انگریز تقریروں سے اکٹھا کر کے اس بربریت پر اکسایا ۔ شمع مسیح پر قرآنِ کریم کے صفحات جلانے کا الزام تھا۔ 30 جولائی 2009ء میں گوجرہ کے ایک کرسچن لڑکے پر توہین اسلام کا الزام لگایا گیا۔ جس کے نتیجے میں ایک مشتعل ہجوم نے وہاں کی کرسچن آبادی کے کئی گھروں کو آگ لگا دی اور اس آگ میں سات مسیحی عورتیں اور بچے جل کر مر گئے ۔ اسی طرح لاہور کی جوزف کالونی میں بلوائیوں نے آگ لگا دی کہ وہاں کے ایک کرسچن شہری پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔

1986ء سے لے کر اب تک پاکستان میں ہزاروں لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا ہے۔ سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور درجنوں پر جسمانی تشدد کر کے اُنہیں جان سے مار دیا گیا ہے ۔ ان میں سے اکثریت پر اُن کے مخالفین نے اپنی ذاتی رنجش یا کاروبار کا حساب برابر کرنے یا اُن کی جائیداد غصب کرنے کیلئے جھوٹا الزام لگایا ہوتا ہے کہ ایک بار کسی پر توہین ِ مذہب کا الزام لگ جائے تو اُسے ہمیشہ کے لےے اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر پناہ لینا پڑتی ہے ۔ ان میں کچھ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور دماغی توازن درست نہ ہونے کے باعث نبوت وغیرہ کے دعوے کر بیٹھتے ہیں۔ ان لوگوں کو اگر عدالت اس الزام سے بری بھی کر دیتی ہے تو اُن کو جیل سے آزادی ملنے کے بعد مار دیا جاتا ہے ۔ جس وکیل نے اُن کا کیس کیا ہوتا ہے اور جس جج نے یہ فیصلہ دیا ہوتا ہے، اُن کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے پروفیسر جنید حفیظ 2013ء سے اس الزام میں جیل میں ہیں۔ اُن کے وکیل راشد رحمان کو اُن کا دفاع کرنے پر قتل کر دیا گیا ہے۔ ایک انٹرنیشنل تنظیم کے مطابق اس وقت پاکستان میں جتنے لوگ اس الزام کی وجہ سے جیل میں ہیں، کسی اور ملک میں نہیں ہیں۔

ان سب واقعات سے پوری دنیا میں پاکستان ریاست کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو جان و مال کا تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ پاکستانیوں، خصوصاً پاکستان کے مولوی صاحبان کا یہ تصور ابھرتا ہے کہ وہ مذہب کے معاملات میں شدت پسند واقع ہوئے ہیں اور وہ اپنے مذہب کے پرامن ہونے پر یقین نہیں رکھتے۔ پاکستانی اس کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ پاکستانی مسلمان اپنے عقائد سے اتنا عشق کرتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں کسی توہین کو برداشت نہیں کرتے اور اس کے صرف شبے میں کسی کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتے۔ پاکستانی شہری اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ انصاف کے بغیر کسی کی جان لینا کسی بھی نظامِ قانون میں قابل قبول نہیں ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنا فردِ واحد، ایک گروپ یا ایک مشتعل ہجوم کا کام نہیں ہے، یہ ملک کی عدالتوں کا فرض ہے۔ جو شخص یا گروپ ریاست کو اس کے قانونی تقاضے پورا کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے وہ ریاست میں فساد پھیلانے کے خطر ناک جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور ایک منصف ریاست ایسے مجرموں کو قرار واقعی سزا دے کر ہی ملک میں امن و امان قائم کرسکتی ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے مجرم کی سزا موت ہے اس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں سے نیت کی شق بھی نکال دی گئی ہے۔ لہٰذا یہ قانون ملزم کی نیت کو مد ِنظر نہیں رکھتا کہ آیا اُس نے مذہب کی جان بوجھ کر توہین کی ہے یا وہ بے دھیانی اور لاعلمی میں توہین آمیز بات کر گیا ہے۔ ایسے قانون کو اگر اسلامی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی 1400سالہ تاریخ میں جن اکا دکا افراد کو سزا دی گئی تو اُس کی اصل وجہ اُن لوگوں کا اسلامی ریاست کے خلاف سازشی یا سرکش ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے مولوی حضرات کی اس بات کو درست سمجھ لیا جائے کہ توہین مذہب کے مجرم کو توبہ کا حق بھی حاصل نہیں تو اس منطق کے مطابق سارے کفارِ مکہ کو قتل ہو جانا چاہیے تھا۔ یا پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ اُنہیں اسلام کے اصولوں پر رسول کریم ﷺاور صحابہ کرام ؓ سے بھی زیادہ عبور حاصل ہے؟

دنیا میں کوئی ریاست اپنے شہریوں خصوصاً اقلیتوں کو انصاف فراہم کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی اسلامی ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ توہین مذہب جیسے  واقعات اُس زمانے میں بھی ہوتے تھے ۔ اس معاملے میں امام ابو حنیفہ اور امام غزالی جیسے پائے کے علماءاور فقیہان دین کی آرا قابل غور ہیں۔ امام ابوحنیفہ کی رائے کے مطابق ایک غیر مسلم کو اس جرم میں قتل کی سزا نہیں دی جاسکتی، اس لیے کہ اُس کا اللہ اور رسالت پر ایمان ہی نہیں ہے۔اورایک غیر مسلم پر حد نافذ نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ اگر وہ شخص کھلے عام، بار بار اس جرم کا مرتکب ہو تو عدالت اُس کی سزا متعین کر سکتی ہے۔ تاکید بار بار اور عدالت پر ہے۔ کسی گروپ یا فردِ واحد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ امام غزالی کی رائے میں سزا دینے سے پہلے اُس شخص کی نیت، علم و فہم اور سمجھ بوجھ کو مد ِنظر رکھنا ضروری ہے ۔ اس کی علاوہ اس کا جرم ثابت ہونے کے بعد توبہ کرنے کیلئے تین دن دینا ضروری ہیں اور اگر وہ توبہ کر لے تو اُسے معاف کر دیا جائے (فاصل التفریکہ)

مسلمانوں کے سپین میں 700سالہ دورِ حکومت میں یہی اسلامی قوانین توہین مذہب کے مجرموں پر لاگو کیے گئے۔ اُس دور میں صرف چند گنے چنے لوگوں کو اس جرم کی سزا ملی۔ ایک مغربی مورخ اس بارے میں لکھتا ہے کہ سپین میں مسلمانوں کی حکومت کے دور میں اسلامی عدالت نے صرف اُن ایک یا دو مسیحیوں کو اس جرم کی سزا دی جو کہ ”شہادت “کے شوق میں بار بار سرراہِ کھڑے ہو کر علی الاعلان توہین کرتے تھے اور عدالت کی بار بار سرزنش کے باوجود باز نہ آتے تھے ۔ اُس کے برعکس اُس دور کی یورپ کی حکومتیں اور عوام اسی طرح کے بے شمار مقدمات میں اپنے شہریوں کی ایذا رسانی میں مشغول تھیں۔ اُس دور میں لوگوں پر مذہب کی توہین کے الزامات پر زندہ بھی جلایا جاتا تھا ۔ اسی لئے یورپ کے اُس دور کو تاریخ کا ایک تاریک دور سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی مورخوں کی اکثریت مسلمانوں کے اُس دور کو مقابلتہً، منصفانہ اور روشن خیال قرار دیتی ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi