بھٹو صاحب سے ملاقاتیں


 اندرا گاندھی سے شملہ میں مذاکرات کے لئے جانے سے پہلے صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے زندگی کے مختلف شعبوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ طلبہ کے جن چند نمائندوں کو بلایا گیا ان میں محمد اشرف عظیم اور میں بھی شامل تھے۔ ہم گورنمنٹ کالج لاہور کی طلبہ یونین کے، بالترتیب، صدر اور سیکرٹری تھے۔ یہ ملاقات مری کے گورنر ہاﺅس میں ہونا قرار پائی۔ ہمارے سفر اور وہاں قیام کے انتظامات لاہور کے اسسٹنٹ کمشنر رضا کاظم نے کئے۔ 18جون 1972کو ہم وقت مقررہ پہ گورنر ہاﺅس پہنچے۔ گیٹ پہ رجسٹر میں اندراج کرا کے مرکزی عمارت کی طرف جا رہے تھے کہ ایک لڑکے نے آ کے بتایا کہ جاوید ہاشمی اور دیگر طلبہ دوسری طرف لان میں تھے۔ جاوید ہاشمی جہانگیر بدر کے مقابلے میں پنجاب یونیورسٹی طلبہ یونین کا صدر منتخب ہوا تھا۔ ہم وہاں گئے تو دیکھا کہ ہاشمی اورچند طلبہ کرسیوں پہ بیٹھے تھے۔ ان میں کنگ ایڈورڈ کالج کی یونین کا صدر خالد نواز بھی تھا۔ پتا چلا کہ انہوں نے بھٹو صاحب سے نہ ملنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہم نے کہا کہ ملاقات کا بائیکاٹ کیوں کیا جائے، ہم اپنی اختلافی رائے کا کھل کے اظہار کر سکتے ہیں۔ ہاشمی نے کہا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، بعد میں پریس میں یہی رپورٹ کیا جائے گا کہ طلبہ کے نمائندوں نے صدر بھٹو سے ملاقات میں انہیں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ ہم نے جواب دیا کہ پھردعوت قبول ہی نہیں کرنی تھی؛ اب حکومت کے خرچ پہ آئے ہیں تو ملنا چاہئے۔ ہاشمی کا کہنا تھا کہ سرکاری خزانے پہ صرف حکومت کا حق ہی نہیں تھا، یہاں آکے بائیکاٹ کرنے سے اختلاف رجسٹر ہو گا۔ اگر وہ نہ آتے تو کسی کو پتا ہی نہ چلتا کہ انہیں بھی بلایا گیا تھا اورانہوں نے اختلاف کی بنا پر دعوت قبول نہیں کی تھی۔ ہمارا کہنا تھا کہ حکومت سے ان کے اختلافات سب پر عیاں تھے۔ ملاقات میں ان کی شرکت سے یہی سمجھا جاتا کہ انہوں نے ملک کی نازک صورت حال کے پیش نظر باہمی یک جہتی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن وہ اپنے موقف پہ قائم رہے۔

کمرہ ملاقات میں جہانگیر بدر، راجہ انور، شیخ رشید،راشد بٹ، باسط وحید اور شوکت چوہدری پہلے سے موجود تھے۔ کچھ دیر بعد صدر کے پریس سیکرٹری خالد حسن کمرے میں داخل ہوئے اور پھر صدر بھٹو۔ کریم رنگ کی پورے بازوﺅں والی بش شرٹ اور گرے رنگ کی پتلون میں ملبوس وہ بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔ ہم سے مصافحے اور فرداً فرداً تعارف کے بعد وہ اپنی نشست پہ بیٹھ گئے۔ ابتدائی رسمی گفتگو کے دوران اخبارات اور ٹی وی کے نمائندے موجود رہے، پھر انہیں جانے کے لئے کہا گیا۔ بھٹو صاحب نے ہم سے پوچھا کہ اگر ہمیں اعتراض نہ ہو تو خالد موجود رہیں گے۔ پھر کہا کہ بات چیت دوستانہ ماحول میں ہو گی اور ہم بلا جھجک اپنی بات کہہ سکتے تھے۔ سب سے پہلے شیخ رشید بولے:

”بھٹو صاحب، آپ نے مجھے پہچانا؟“

بھٹو صاحب نے سگار کا کش لیتے ہوئے اُسے بغور دیکھا۔

”یاد کریں بھٹو صاحب ۔“ شیخ رشید نے کہا۔

”گورڈن کالج؟ “ بھٹو صاحب نے چندلمحے بعد کہا۔

”جی۔“

 ”ایک ڈیڈ بوڈی کے ساتھ؟“

”جی۔“ شیخ رشید نے اطمینان اور قدرے خوشی سے کہا۔ ہم بھٹو صاحب کے حافظے کی داد دے کے رہ گئے۔ یہ ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ رہی جس میں ہم میں سے ہر ایک نے بات کی۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانیں استعمال ہوئیں۔ جب مجھ سے کچھ کہنے کو کہا گیا تو چونکہ اس سے پہلے بھٹو صاحب انگریزی میں بات کر رہے تھے لہذا میں نے انگریزی ہی میں اُن سے سوال کیا کہ ان کے منشور کے تین بنیادی نکات میں سے ایک ” سوشلزم ہماری معیشت ہے“ تھا، سو وہ اس سلسلے میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے؟

”پاکستان میں سوشلزم کی کوئی بیس (base) نہیں ہے۔“ انہوں نے جواب دیا۔

”یہ بیس کون تیار کرے گا؟ “ میرا دوسرا سوال تھا۔

”ہم کریں گے۔“ انہوں نے کہا، پھر وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ نظام کتنا ہی اچھا ہو، وہ ملک کے حالات اور ماحول کے مطابق ڈھالا جانا چاہئے ورنہ وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔  ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تاریخ میں اپنی جگہ کا شعور رکھتے تھے۔ ملاقات کے اختتام پر بھٹو صاحب نے ہمارا شکریہ ادا کیا اورسب سے الوداعی مصافحہ کیا۔

سی آئی ڈی

گورنر ہاﺅس سے نکل کر ہم ادھر ادھر گھومتے رہے۔ کبھی سستانے کے لئے کہیں بیٹھ جاتے ۔اچانک ہمیں احساس ہوا کہ ایک شخص بار بار دکھائی دے رہا تھا۔ اوہ، توگویا یہ دیکھا جا رہا تھا کہ صدر سے ملنے کے بعد ہم کہاں جاتے ہیں، کیا کرتے ہیں، کس سے ملتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی چاہئے تھا۔ ہم سیمز (Sam’s) ریسٹورینٹ میں آ بیٹھے۔وہ شخص وہاں بھی آ گیا اور کچھ فاصلے پہ ایک میز سنبھال لی۔ ہم نے اسے دو ایک دفعہ گھور کے دیکھا تاکہ وہ سمجھ جائے کہ ہم سمجھ چکے ہیں۔ اس نے جلد کھانا ختم کیااور رخصت ہوا۔ ہمیں جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔

جہانگیر بدر کی پیشکش

سیمز ریسٹورینٹ (Sam’s Restaurant) کا فلور سڑ ک کی سطح سے چند گز بلند، دکانوں کے اوپر تھا جس تک ایک خوش نما زینے کے ذریعے پہنچا جاتا تھا۔ دو برس قبل میں نے اسی جگہ پاپا اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ لنچ کیا تھا اور پھر ایک شام اس سے ملحقہ لن ٹوٹس ریسٹورینٹ (Lintott’s Restaurant) میں چائے پی تھی۔ اس وقت ہم کھڑکی کے ساتھ والی میز پہ بیٹھے تھے جہاں سے سڑک کا منظر بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ دیکھا کہ جہانگیر بدر تیزتیز قدم اٹھاتا جی پی او کی طرف سے آ رہا تھا۔ قریب پہنچ کے اس کی نگاہ اوپر اٹھی تو اس نے ہمیں دیکھ لیا۔ ایک لمحے کے لئے وہ ٹھٹکا، پھر سیڑھیاں چڑھ کے ہمارے پاس آگیا۔ طلبا کے ساتھ بھٹو صاحب کی کامیاب ملاقات سے وہ بہت خوش تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا بی اے کے بعد کیا پروگرام تھا۔ میں نے بتایا کہ ایم اے انگریزی کروں گا۔ اس نے کہا کہ میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لوں اور ان کے پلیٹ فارم سے سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑوں۔ پھر اس نے انتخابی مہم کی کچھ تفصیل بیان کی کہ کس طرح بتدریج میرا پروفائیل بنایا جائے گا؛ کبھی میرا کوئی بیان شائع کرا کے، کبھی کوئی پریس کانفرنس کرا کے اور کبھی کسی اہم اجلاس میں شرکت اور اس کی تشہیر کے ذریعے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد مجھے عملی سیاست میں کردار ادا کرنے کے مواقع بھی فراہم کئے جاتے۔ اس عزت افزائی پہ مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ مجھ میں جو ایک سیاست دان پنپ رہا تھا اسے ایک اچھا موقع دکھائی دےنے لگا، لیکن مجھے کسی سیاسی بلاک کی حمایت سے طلبا یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے اختلاف تھا۔ جہا ں تک بعد میں عملی سیاست میں شرکت کا معاملہ تھا تو اس کے لئے مجھے معلوم تھا کہ ’گھر میں دانے‘ ہونے چاہئیں۔ سو مجھے پہلے ان دانوں کا انتظام کرنا تھا۔ اس وقت میرا فوری نصب العین یہ تھا کہ جلد از جلد تعلیم مکمل کرکے ملازمت حاصل کروں ۔ سو میں نے جہانگیر بدر کا شکریہ ادا کیا اور اپنی ترجیحات بتا دیں۔ اس نے کہا کہ میرے پاس ابھی بہت وقت تھا، اچھی طرح سوچ بچار کر کے اگر اس کی تجویز سے متفق ہو جاﺅں تو اسے بتا دوں۔

تصویری خبرنامہ

صدر سے ملاقات کی خبراور تصاویراخبارات کے پہلے صفحات پہ شائع ہوئیں۔ اس کی ویڈیو ٹی وی کے خبرنامے اور اس کے بعد کافی عرصہ سنیماگھروں میں تصویری خبرنامے میں بھی دکھائی گئی۔ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ مجھے بات کرتے ہوئے دکھانے کے فوراً بعد بھٹو صاحب کو ہنستے ہوئے دکھایا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایڈٹنگ تھی لیکن مجھ سے بہت عرصہ لوگ یہ پوچھتے رہے کہ میں نے کیا کہا تھا جس پہ بھٹو ہنسے۔ میں ہنس کے کہتا کہ بھئی، لیڈروں میں آپس کی کچھ باتیں بھی ہوتی ہیں جو رازداری کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس ملاقات کی تصویر بھٹو کے دورصدارت پہ مبنی سرکاری البم میں بھی شائع ہوئی۔

 دوسری ملاقات

ایک صبح اشرف عظیم نے اطلاع دی کہ بھٹو صاحب لاہور آ رہے تھے اور طالب علم رہنماﺅں سے ملنا چاہتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اپنے ہم خیال طلبہ سے یا سب سے؟ جواب ملا کہ سب سے۔ کم از کم اسے یہی بتایا گیا تھا۔ گورنر ہاﺅس پہنچے تو دیکھا کہ وہاں صرف بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے منتخب اور غیر منتخب طلبہ موجود تھے۔ بھٹو کی شخصیت کا مداح ہونے کے باوجود مجھے وہاں آنے کی قطعاً خوشی نہیں ہوئی۔ میں ایک غیر جانبدار امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوا تھا اور میرے منشور کا پہلا نقطہ درسگاہوں میں سیاسی جماعتوں کی مداخلت کو روکنا تھا۔ میٹنگ لان میں رکھی گئی تھی۔ بھٹو صاحب نے آسمانی رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور ان کے ساتھ گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر بھی تھے۔ طلبا نے انہیں تعلیمی معاملات اور درسگاہوں کی صورت حال کے بارے میں بڑھ چڑھ کے ’مشورے ‘ دیئے اور صوبائی حکام پہ تنقید بھی کی۔ سب سے زیادہ تند و تیز باتیں پرویز بیگ نے کیں۔ پرویز بیگ ہمارے کالج کی انٹرمیڈیٹ یونین کا سابق صدر تھا اور اس کی والدہ پیپلز پارٹی کی عہدے دار تھیں۔ بھٹو صاحب نے سب کچھ بہت تحمل اور توجہ سے سنا۔ انہیں اجلاس ختم کرنے کی کوئی جلدی نظرنہیں آتی تھی۔

ملاقات کے بعد گروپ فوٹو ہوئی۔ میں جان بوجھ کے دوسری قطار میں کھڑا ہوا اور جب فوٹوگرافر نے ”ریڈی“ کہا تو میں نے اپنا رومال گرا دیا اور اسے اٹھانے کے بہانے تصویر سے نکل گیا۔ میں کسی ایک بلاک کے ساتھ وابستہ نظر آنا نہیں چاہتا تھا۔ اگر گورنر ہاﺅس کے آرکائیوز میں اتنا پرانا ریکارڈ موجود ہو تو یہ تصدیق ہو سکتی ہے کہ میں مییٹنگ میں موجود تھا لیکن تصویر میں نہیں۔ ہم چائے پینے لگے تو ایک اہلکار نے آکے پرویز بیگ سے کہا کہ بھٹو صاحب اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ ہم چائے پیتے رہے اور دور ایک درخت کے تلے بھٹو صاحب پرویز بیگ سے بات کرتے رہے۔

تیسری ملاقات؟

مخدوم سجاد حسین قریشی گورنر تھے۔ مجھے گورنر ہاﺅس میں اتوار6 مارچ 1988کو ہونے والے ایک استقبالیہ (مارٹن لنگز کے اعزاز میں) میں شرکت کی دعوت ملی۔ وہی لان تھا۔ تقریریں ہوتی رہیں، منظر بدلتے رہے۔ چائے کا دور بھی ہوا۔ لیکن مجھے کچھ سنائی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں تو بس اس درخت کو دیکھتا رہا جس کے تلے بھٹو آسمانی رنگ کے سوٹ میں ملبوس، جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے ۔پرویز بیگ بول رہا تھا اور وہ سن رہے تھے۔ تقریب ختم ہوئی، گویا کوئی فلم ختم ہوئی۔ اب وہاں نہ بھٹو صاحب تھے نہ پرویز بیگ۔ وہ تن آور، ہرا بھرا درخت ”دار کی خشک ٹہنی“ لگ رہا تھا۔

یہ تصویر سرکاری البم سے لی گئی ہے۔ سامنے کی نشستوں پر بائیں سے دائیں، بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری خالد حسن، جہانگیر بدر، باصر سلطان کاظمی، راجہ انور، راشد بٹ، شوکت چوہدری اور کیمرے کی طرف پشت کئے محمد اشرف عظیم (عینک لگائے) اور باسط وحید ہیں۔ شیخ رشید باسط کے ساتھ بیٹھے تھے لیکن شائع شدہ تصویر میں نہیں۔ (تصویر ، بشکریہ عقیل عباس جعفری)

(زیر طبع کتاب، ’ایک شاعر کی سیاسی یادیں‘ سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).