کراچی میں نیپئر روڈ کا نام کیوں نہیں بدلا گیا؟


 پاکستان بننے کے بعد سےملک کے ارباب اختیار کوکئی طرح کے نظریاتی تذبذب کاسامنا رہا ہے۔ ملک میں کون سا نظریاتی اور سیاسی نظام رائج کیا جائے اور انیس سو سینتالیس سے پہلے کی تاریخ کو کس تناظر میں دیکھا جائے ۔کیا جس دن پاکستان وجود میں آیا اس دن سے ملک کی ایک نئی تاریخ شروع کی جائے اور اس سے پہلے کی ہزاروں برس کی تاریخ سے دست بردار ہو جایا جائے ۔ یہ اور اس نوعیت کے کئی اور سوالات نے پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔ملک میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس نظریاتی تذبذب کی جھلک نظر آتی ہے۔

قیام پاکستان کے چند برسوں کے بعد ہی سے کراچی اور لاہور کی سڑکوں کے تاریخی نام تبدیل کرکے انہیں مشرف بہ اسلام کیا جانے لگا ۔کراچی کی کوینز روڈ کا نام مولوی تمیز الدین خان روڈ رکھ دیا گیا ۔ اسٹریچن روڈ کو مولانا دین محمد وفائی روڈ میں تبدیل کر دیا گیا ۔ ہیولوک روڈ ایوان صدر روڈ اور ایلفنسن روڈ زیب النسا سٹریٹ بن گئی ۔ اسی طرح ڈرگ روڈ کا نام تبدیل کر کے شارع فیصل اور وکٹوریا روڈ کا نام عبداللہ ہارون روڈ رکھ دیا گیا ۔

کراچی کے علاوہ یہ سلسلہ اور بھی کئی شہروں میں شروع کیا گیا ۔ لاہور میں لارنس روڈ کو میاں افصل حسین روڈ، ڈیوس روڈ کو سر آغا خان سوئم روڈ اور ایمپرس روڈ شارع عبدالحمید میں بدل دی گئی ۔ اس سارے عمل میں دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کی مشہور نیپئر روڈ کا نام تبدیل کر کے کسی مشہور مسلمان رہنما یا عالم دین کے نام پر اب تک نہیں رکھا جا سکا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نیپئر روڈ پر شہر کا مشہور بازار حسن یا ریڈ لائٹ ایریا واقع ہے جو اس سڑک کی پہچان بن چکا ہے ۔

کراچی میں اردو یونیورسٹی کے پروفیسر توصیعف احمد کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں جہاں قومیں آزادی حاصل کرتی ہیں وہ سامراجی ناموں کو تبدیل کرکے ان کی جگہ اپنے حریت پسندوں کے ناموں پر سڑکوں اور عمارتوں کے رکھتی ہیں ۔ پاکستان نے جب آزادی حاصل کی تو بدقسمتی سے برصغیر کے اصل حریت پسندوں کو اہمیت نہیں دی گئی جنہوں نے حقیقی طور پر برطانوں سامراج کے خلاف لڑائی لڑی ۔ مثلا بھگت سنگھ کے نام پر کبھی کسی سڑک کا نام نہیں رکھا گیا یا بعد کے برسوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کا نام آتا ہے جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا لیکن ہمیشہ حکمران طبقے کے لیے ناپسندیدہ رہے جس کے نتیجے میں کسی سڑک یا عمارت کا نام ان کے نام پر نہیں رکھا گیا ۔منشی پریم چند اردو ادب کا ایک بڑا نام اور اردو افسانے کے بانیوں میں سے ایک تھے لیکن مذہبی وجوہات کے سبب ان کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔

پروفیسر توصیف کے مطابق ناموں کی تبدیلی یا نئی سڑکوں کے نام رکھے جانے کے معاملے میں ان افراد کو شامل نہیں کیا گیا جو شہر کی تاریخ کے بارے میں جانتے تھے بلکہ یہ کام بیوروکریسی کے حوالے کر دیا گیا جس نے اپنی مرضی سے نام تبدیل کیے اور ان ہی لوگوں کو اہمیت دی جو اس وقت مسلم لیگ کے رہنما تھے ۔

صحافی اور تجزیہ نگار انیل دتا کے مطابق ملک میں تعمیر ہونے والی نئی سڑکوں کے نام اپنے رہنماوں کے نام پر رکھنے میں تو کوئی ہرج نہیں ہے لیکن پہلے سے رکھے گئے تاریخی ناموں کو تبدیل کرنا درست نہیں کیوں کے ناموں کو محفوظ کرکے اصل میں تاریخ کو محفوظ کیا جاتا ہے ۔ مثلاً اسٹریچن روڈ آرکیٹیکٹ اسٹریچن کے نام پر رکھی گئی تھی جس نے پرانے کراچی کی اکثر عمارتیں ڈیزائن کی تھیں ۔ اسی طرح اکثر پرانی سڑکوں کے ناموں کے ساتھ ایک تاریخ وابستہ ہے اور ناموں کی تبدیلی سے تاریخ کے ساتھ رابطہ منقطہ ہوجاتا ہے ۔

شاید اس سارے عمل کا مقصد بھی یہی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ چالیس برس سے ملک میں حدود آرڈننس نافذ ہے۔ پاکستان بھر مین کہیں جسم فروشی کا نام و نشان نہیں تو پھر نیپئر روڈ کا نام کیوں نہیں بدلا؟ کسی کے دل میں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس سڑک کو کسی پرہیزگار شخصیت کے نام سے منسوب کر دیا جائے؟

(حسین عسکری )

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp