ہوائی قتل


 دولت کے لحاظ سے ہم معا شرے کو تین طبقوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، امرا (آج کل شرفا)، اوسط اورغربا، ان میں امرا اور غربا میں دو چیزیں قدرے مشترک ہیں، ہوائی فائرنگ اور منشیات جو اوسط طبقے میں بہت کم پائے جاتے ہیں، امرا کا یہ فعل سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مستی اوردولت کے گھمنڈ نے اس کو یہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن غربا کا یہ عمل ہنوز سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے ہاں ہوائی فائرنگ خو شیوں کا پیامبر ہے، چاند رات پر عید کی نوید ہوائی فائرنگ سے ملتی ہے، کر کٹ میچ جتنے یا ہارنے کا پتہ ہوائی فائرنگ سے ہو جا تا ہے ، شادیوں اور منگنی میں کوئی ہوائی فائرنگ کرنے میں پیچھے نہیں رہتا۔ شکر ہے کہ facebook کی وجہ سے لالا جی اپنے بیٹے کی پیدائش کا اشتہارچھپوا لیتے ہے۔ ورنہ یہ کام بھی پہلے ہوائی فائرنگ سے پایہ تکمیل تک پہنچتا تھا۔

ہوائی فائرنگ سمجھنے سے پہلے اس کے مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں۔ لالا جی کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک کھیل ہے‘‘، مگرکھیل سے مراد وہ تمام افعال جس کوصرف تفریح اورخوشی کے لیے کیا جائے۔ اس میں کھیلنے اوردیکھنے والے دونوں محظوظ ہوتے ہیں، مثلاً ٹینس، ریسلنگ، کرکٹ وغیرہ ان سب کھیلوں میں دونوں کھیلنے اوردیکھنے والے کے لیے تفریح کاسامان مل جاتا ہے، لالا جی میرا اعتراض یہ ہے کہ یہ ہو ائی فائرنگ کس طرح کا کھیل ہے کہ کھیلنے والے کے لیے تفریح ہے، اور گولی کا نشانہ بننے والوں کے لیے موت۔

لالا جی پھر کہنے لگے کہ’’ہوائی فائرنگ ایک کاروبارہے‘‘، کاروبار(Business) سے مراد وہ تمام ‘قانونی’ افعال جس کا مقصد نفع کمانا ہو۔ ہوائی فائرنگ کی تعریف کاروبار پراس لیے لاگو نہیں ہوتی کہ ایک تو یہ غیرقانونی ہے، اوردوسری یہ کہ ہو ائی فائرنگ کرنے والوں کو نفع کی بجا ئے نقصان ہو تاہے۔ لالا جی نے پھر کہا کہ “ہوائی فائرنگ ایک پیشہ ہے” لیکن پیشہ خصوصی تربیت لینے کے بعد اختیار کیا جاتا ہے، اورمقصد خدمات مہیا کر کے روزی کمانا ہوتا ہے، ہوا ئی فائرنگ میں نہ تو کو ئی خصوصی تربیت درکار ہوتی ہے، اور نہ حصول معا ش کا طریقہ ہے۔

لالا جی کا ایک بھی تیرجب نشانے پرنہ لگا، تو اپنا چادر جھٹک کرکہنے لگے کہ “ہوائی فائرنگ ایک شوق ہے”، چلو ہم مانتے ہیں کہ شوق ہے، اورشوق کا کوئی مول نہیں، بندہ اپنے شوق کے لیے محبت کی طرح سب کچھ کرسکتا ہے، مجھے اس موقع پرپطرس بخاری کی ایک با ت یاد آتی ہے۔ اپنے مضامین کے دیباچہ میں کتاب چرانے والے کو طنزیہ داد دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتاب چرانا چوری کے زمرے میں نہیں آتا، یہ اس شخص کی شوق و ذوق کا نتیجہ ہے کہ وہ اس کتاب کو چراتا ہے۔ تومیں بھی ہو ائی فائرنگ کرنے والوں کو اس کے شوق کی داد دیتا ہوں کہ محض اس کی شوق کی خاطر بہت سے لوگ لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔

آخرلالا جی اپنا چادر کندھے پرڈال کرچلتا بنا، اورفرمایا کہ “ہوائی فائرنگ کوئی اور چیز نہیں تو ایک شغل ہے”، میں اس کے خیال کے ساتھ اتفاق کر کے کچھ مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ کہ ’’ہوئی فائرنگ ایک شیطانی شغل ہے‘‘، ایک ایسا شغل جس کے کرنے سے چرند، پرند اور انسان حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ پریشانی کی حالت میں انسا ن اپنے عزیزواقارب کی خبرلیتا ہے، لوگ چاند رات منانے کے بجائے گھروں میں کمرے کے اندرمحصور ہوجا تے ہیں۔

میرے مطابق سب سے بڑی فضول خرچی ہوائی فائرنگ ہے، اوراﷲ تعا لیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:’’بےشک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہے‘‘۔ ہوائی فائرنگ منشیات کی طرح ایک ایسی برائی ہے، جو ہر پہلو سے ناپسندیدہ ہے، اورمالی، جانی، اخلاقی، اسلامی، قانونی، نفسیاتی عرض ہرلحاظ سے نقصان دہ ہے۔

مرحوم مولاناحسن جانؒ (خدا اس کو جنت فردوس نصیب فرمائے) نے فتویٰ دیا ہے کہ:’’ہوا ئی فائرنگ کی وجہ سے اگرکو ئی شہید ہوا تو ہو ائی فائرنگ کرنے والا قاتل ہے‘‘۔ ﷲ تعا لیٰ فرماتے ہیں:’’جس نے ایک شخص کوقتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘۔

لالا جی، میں مانتا ہوں کہ کوئی پولیس میں پرچہ درج نہیں کرے گا کوئی کورٹ کچہری نہیں ہو گی لیکن آپ “ہوائی قتل” کا مر تکب ہو چکے ہیں۔       

 

حکومت وقت اورانتظامیہ ہر بار کوشش کرتی ہے کہ چاند رات پرہوائی فائرنگ نہ ہو، لیکن صرف اس کے اقدامات کرنے سے روک تھام ممکن نہیں، جب تک ہم سب اس میں مدد نہ کریں، تمام با شعور لو گ اورعلما کرام اپنی ذمہ داری سمجھیں کہ ان لوگوں میں ہوائی فائرنگ نہ کرنے کے متعلق آگاہی پیدا کریں، ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ عید کی خوشیاں ماتم میں بدل جائیں۔ 

نعمت اللہ خان
Latest posts by نعمت اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).