لیو ٹالسٹائی نے یہ کہانی ہمارے لئے لکھی


عجب زہد و تقویٰ سے بھرے دن ہیں۔ شہر کا شہر مسلمان ہوا پھراتا ہے۔ایک طرف نیکیوں کی جمع، ضرب اور تقسیم کی دوڑ میں روزے دار اپنی افطار کے وسیع و عریض دسترخوانوں میں، کھانوں کے ڈھیروں تلے دبے صبر و استقامت کے بے مثل مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف نماز، روزہ، تراویح اور قرآن کریم کے پاروں کے عددی شمار کو اعلانیہ بتانے بلکہ جتلانے والے متقی باقی جہان کو شرمسار کرنے کا مقدس فریضہ اپنے سر لیے دکھائی دیتے ہیں۔ پارسائی اور ریاکاری کے امتزاج سے جنم لینے والے بڑے بڑے نامی گرامی ممالک جو مذہب کے رکھوالے ہونے کا اعزاز بھی اپنے گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں، اس با برکت مہینے میں فرقہ واریت کے فروغ کا فرض اٹھائے اپنے ہم مذہب ممالک سے مقدس جنگ اور جنگی اختلافات زیادہ تقدس سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جنگ جس میں جیت تو جیتنے والے کی بھی نہیں ہوتی، جس کی المناک حکایات معصوموں کے خون سے تاریخ کے پنوں پہ درج کی جاتی ہیں ۔ یہاں برتری رکھنے والے تنے ہوئے سربھی وقت کی کاٹ سہہ نہیں پاتے اور اپنے بوجھ پہ آپ ہی ڈھے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹالسٹائی کی کہانی ”شاہ اسرہادون“ (جس کا ترجمہ انور سجاد نے کیاہے) میں ملک آشوریہ کا بادشاہ اسرہادون یاد آتا ہے جو ’شاہ لا ئیلی ‘کی سلطنت کو فتح کرنے کے بعد وہاں کی بستیوں کو تاراج کرتا ہوا، وہاں کے باسیوں کو بالجبر اپنی مملکت میںلے جاتا ہے اور تمام فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اب منتظر ہے کہ اذیت کا وہ کونسا نیا انداز ہو جس کے ذریعے وہ اپنے دشمن شاہ لائیلی کو موت کے گھاٹ اتار کے آسودگی حاصل کر سکے۔ تبھی ایک مردِ پیر کہیں عدم سے ظاہر ہوتا ہے اور اور اسے سمجھاتا ہے کہ:

” تو اور شاہ لائیلی دونوں زندگی کا کُل ہیں،اور کُل زندگی ایک ہے اور زندگی کی اس کُلیت میں جب انسان بزعم دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے تو دراصل وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔ “

اور جب شاہ اسرہادون اس بات کا انکاری ہوتا ہے اور اپنے مخالف کو سخت سے سخت اذیت ناک سزا دینے اور اس کی لاش کو کتوں سے گھسیٹنے کا خواہشمند ہوتا ہے تب مردِ پیر اسے کچھ دکھانے کے لیے اپنے پاس بلاتا ہے اور پانی کا ایک پیالہ اس کے سر پر گرانے کی درخواست کرتا ہے۔ یہ درخواست کسی قدر ہچکچاہٹ سے قبول کر لی جاتی ہے اور جونہی پانی گرتا ہے شاہ کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے۔ اب وہ اسرہادون نہیں شاہ لائیلی ہے، محل، ملازم افرادِ خانہ سب بدل گئے ہیں، ایک نڈر،بہادر اور جنگجو بادشاہ جس کی کی زندگی کا مقصد شاہ اسرہادون سے جنگ ہے۔ جنگ جو کبھی سکھ نہیں دیتی، جنگ جس کی بھینٹ آہستہ آہستہ سب چڑھ جاتے ہیں، سلطنت تاراج ہو جاتی ہے،یہاں تک کہ خود اسے بھی ایک مختصر پنجرے میں قید کر کے لے جایاجاتا ہے۔

”وہ اپنے قتل کے انتظار میں بیس دن تک پنجرے میں پڑا رہا۔ اس نے اپنے دوستوں رشتہ داروںکو سوئے مقتل جاتے دیکھا۔ جب اُن کے ہاتھ پاﺅں کاٹے گئے، کھال کھینچی گئی، تواُس نے ان کی دلدوز چیخیں سنیںپر وہ مضطرب ہوا نہ خوف زدہ۔ اس نے اپنی پیاری بیوی کو زنجیروں میں بندھا ہواخواجہ سراﺅں کے ساتھ جاتے دیکھا، وہ جانتا تھا کہ اسے اسرہادون کی لونڈی بنایا جائے گا پر اس نے یہ بھی برداشت کیا۔پھر دو جلادوں نے اس کا پنجرہ کھولا، دونوں ہاتھ پشت پر باندھے اور اسے بھی خون آلود مقتل کی طرف لے گئے، جہاں گڑی لمبی تیز نوک دار سوئی سے اس کے وفادار دوست کا خون بہہ رہا تھا گویا اسے ابھی ابھی وہاں سے اتارا گیا ہو۔’اب موت میرے سامنے ہے‘۔ وہ جو ہمیشہ خود کو پر عزم رکھتا تھا آج اپنا عزم بھول گیا اور سسک سسک کراپنی جان بخشی کی التجائیں کرنے لگا پر کسی نے اُس کی ایک نہ سنی، تبھی اس نے خوف سے ایک زور دار چیخ ماری۔۔۔ اور اس کے سر پر پیالے کا آخری پانی بہہ رہا تھا۔“

تب اس وحشت کے عالم میں مردِ پیر نے اسے سمجھایا کہ ” تو اور شاہ لائیلی اصل میں ایک ہی ہیں، تو سمجھتا ہے کہ صرف تو زندہ ہے لیکن میں نے تیرے اس غلط ادراک کا پردہ چاک کر دیا ہے، تو نے دیکھا جو برائیاں تو نے دوسروں کے ساتھ کیں وہ در حقیقت تو نے اپنے ساتھ کیں، زندگی سب میں ایک ہی ہے اور تو محض اس کُلیت کا ایک حصہ۔ تو زندگی کوبرباد کرسکتا ہے، اسے گھٹا سکتا ہے۔ لیکن صرف اسی طریقے سے اسے بہتر بنا سکتا ہے کہ وہ تمام امتیازی پردے پھاڑ پھینکے جو تجھے دوسرے ذی روح سے جدا کرتے ہوں۔ ۔ زندگی لمحہ بھی ہے اور سال بھی۔نہ ہم اسے فنا کر سکتے اور نہ تبدیل، کہ زندگی ایک ہے اور باقی سب ہیر پھیر۔“

اگرچہ اس سیکھے ہوئے سبق سے شاہ اسرہادون کی زندگی تو تبدیل ہو جاتی ہے لیکن ہماری زندگی میںتبدیلی ایسے کئی بڑے سانحات سے گزرنے کے بعد نہیں آتی۔ ہمارے جیسے سنگ دل معصوم لوگوں پر سنگ زنی کرتے وقت اپنی پارسائی کے زعم کو علم کی طرح تھامتے ہیں۔ ہماری منافقتیںدوسروں کی دل آزاری سے نمو پاتی ہیں اور ہمارے قلم اپنی نفرتوں کا خون تھوکتے نہیں تھکتے۔ حاکمینِ وقت کی نا اہلیوں کا نوحہ پیٹنے والی ہم وہ قوم ہیں جو کھیل کے میدانوں میں جنگ کا جنون اور امن کے معاہدوں میںاپنے مفادات کا سکون چاہتی ہے اور یہ بھول جاتی ہے کہ جیت ہمیشہ جیتنے والے کی اور ہار ہمیشہ ہارنے والے کی نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).