بیگم اکبر جہاں: ایک کشمیری عورت کی سیاسی استقامت


1947 سے پہلے اور بعد کے کشمیر اور سیاسی خودمختاری کی تحریک کو تفصیل سے دیکھنا ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ میں نے کچھ زبانی بیانات جمع کئیے ہیں اور کچھ شیخ عبداللہ کی لکھی ہوئی دستاویزات کا جائزہ لے کر ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے جموں اور کشمیر کی تاریخ رقم کی ہے۔

شیخ عبدللہ صاحب نے محبت اور تشکر کے ساتھ اس اخلاقی ہمت کو سراہا جس کے ساتھ اکبر جہاں نے کڑے وقت میں ان کا ساتھ نبھایا۔ وہ اکبر جہاں کو بیگم صاحبہ کہہ کر بلاتے تھے اور خاندانی محفل میں پیار سے بوبو کہتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کو یہ یاد کرانے میں جھجھک سے کام نہیں لیتے تھے کہ وہ مذہبی گھرانے میں پلے بڑھے اور اکبر جہاں کے مذہبی اقدار پر عمل پیرا ہونا ان دونوں کے رشتے کو مزید مضبوط کرنے کا باعث ہوا۔ شائد کچھ لوگوں کو ایسا محسوس ہو کہ میں کوئی صوفیاء کی کہانی بنانے کی کوشش کررہی ہوں لیکن باریک بین تجزئیے سے یہ بات واضح ہے کہ کشمیری قوم پرستی اور نمود کو متزلزل کرنے کی کاوشوں کے بیچ، ذمہ داری سے حکومت کے فرائض انجام دینے اور پھرسیاسی مخالفین کا سامنا کرنے کے دوران اکبر جہاں کبھی بھی حکومت کے دباؤ میں نہیں جھکیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے شوہرشیخ محمد عبداللہ جو کہ پہلے کشمیر کے پرائم منسٹر اور پھر چیف منسٹر تھے، کو مشاورت اور سہارا دیا۔جس کی ایک مثال ان کا اپنے شوہر کو سمجھانا تھا کہ وہ نہرو کے سحر میں آکر خود کشمیر میں اپنی ساکھ کمزور نہ کریں۔

اکبر جہاں کی شیخ صاحب کے ساتھ ابتدائی زندگی غیر یقینی حالات، سیاسی دوغلے پن، اور آزادی چھن جانے کی مشکلات سے پر تھی۔ 9اگست 1953 میں انڈیا کے پرائم منسٹر جواہر لعل نہرو کے شیخ محمد عبدللہ کو کشمیر کی حکومت سے ہٹا دئیے جانے اور ان کو گرفتار کر لئیے جانے سے کشمیر کے عوام نے خود کو تنہاہ محسوس کیا ۔شیخ صاحب نے، کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو نظر انداز کیے جانے اورغیر قانونی طور پر کشمیر کو انڈیا کے ساتھ ملادینے کی سازش کے خلاف آواز اٹھائی جسے ان کے کچھ پرانے ساتھیوں نے ناپسندیدگی سے دیکھا۔

1953 میں شیخ صاحب کی گرفتاری اور ان کے بیوی بچوں کی حالت کے بارے میں ان کا بیان قارئین کے لئیے معلوماتی ثابت ہوگا :9 اگست 1953 کی سرد رات میں ، شیخ صاحب، اکبر جہاں اور ان کے بچے کشمیر کی وادی کے دورے پر گلمارگ میں گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ ان کے ساتھ شیخ صاحب کے سیکرٹری اور دو اور اسٹاف ممبر بھی موجود تھے۔ صبح سویرے شیخ صاحب کے سیکرٹری نے انہیں جگایا اور کانپتے ہوئے بتایا کہ گیسٹ ہاؤس کے گرد مسلح بردار پولیس نے گھیرا کیا ہوا ہے۔ یہ سن کر شیخ صاحب اٹھ بیٹھے اور بیڈ روم سے باہر نکلے جہاں پولیس سپرانٹنڈنٹ اپنی بٹان کے ساتھ گھسے آرہے تھے۔ شیخ صاحب نے اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے ان سے سکون سے دریافت کیا کہ ایسا کیا مسئلہ ہے کہ وہ لوگ گیسٹ ہاؤس میں جہاں ریاست کے سربراہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں ، داخل ہوگئے ہیں۔ پولیس سپرانٹنڈنٹ نے منہ سے کوئی جواب نہیں دیا ، وارنٹ آگے کیا اور پولیس کی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔

اس لمحے شیخ صاحب کو احساس ہوا کہ جن لوگوں نے ان کے نظریات سے اتفاق کیا تھا اور ان کا ساتھ نبھانے کی قسم اٹھائی تھی انہوں نے ہی ان کو دغا دی ہے۔شیخ صاحب شکست خوردگی کے ساتھ نہیں بلکہ اداسی کے ساتھ جیل جانے کے لئیے تیار ہوئے اور اس سے پہلے انہوں نے پولیس سپرانٹنڈنٹ سے صبح کی نماز پڑھنے کی اجازت مانگی جس کے لئیے اس نے فورا” ہامی بھری۔ شیخ صاحب کے نماز ادا کرتے ہی کرن سنگھ کے قابل بھروسہ سپاہی نے انہیں اس کا خط پہنچایا جس میں اس نے شیخ صاحب سے حالات پر افسوس کیا تھا۔ اس خط سے شیخ صاحب کو یہ بری خبر بھی موصول ہوئی کہ ان کو نوٹس دئیے بغیر ریجنٹ کی طرف سے کشمیر کی ریاست کی سربراہی سے برطرف کردیا گیا ہے۔ ریجنٹ کی طرف سے شیخ صاحب کی اچانک اور غیر متوقع برطرفی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کشمیر کی عدلیہ میں ان کے کولیگ بخشی غلام محمد، شیام لعل سرف اور گردھار لال ڈوگرا کا ان کی لیڈرشپ پر سے اعتماد ختم ہوگیا تھا۔

جب اس اچانک صدمے سے شیخ صاحب سنبھلے تو ان کے سامنے یہ دن کی روشنی کی طرح واضح ہوگیا کہ ان کے سیاسی دشمنوں نے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرکے ان کو کشمیر کے پرائم منسٹر کی گدی سے ہٹایا ہے۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ صبح کے چار بج کر بیس منٹ پر میں نے اپنی بیوی (اکبر جہاں ) اور بچوں کو الوداع کہا اور ملٹری کی حراست میں گلمارگ سے ادھامپور تقریبا” 175 میل لمبا سفر طے کیا۔ اس کے بعد شیخ صاحب کو جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ جو کہ ریجنٹ کرن سنگھ کے والد تھے کی رہائش گاہ میں نظر بند رکھا گیا جہاں سے ان کو باہر کسی سے بات چیت کی اجازت نہیں دی گئی۔

ان کو یہ سن کر مزید غصہ اور صدمہ ہوا کہ سری نگر میں ان کا مکان سیل کردیا گیا اور اکبر جہاں کو غیرقانونی طور پر ان کے بچوں کے ساتھ وہاں سے نکال دیا گیا۔ ان کے خاندان کو باپ سے اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کردیا گیا تھا ۔ کشمیر کے نئے پرائم منسٹر بخشی غلام محمد کی جابر حکومت نے عوام کے دلوں میں خوف بھردیا تھا اوروہ شیخ صاحب یا اکبر جہاں کی مدد کو پہنچنے سے کترانے لگے۔ اس ناامیدی کے وقت میں اکبر جہاں اور ان کے بچوں کو شیخ صاحب کی بڑی بیٹی کے دیور خواجہ علی شاہ نے رہنے کے لئیے مکان دیا۔ لیکن اس بندوبست سے اکبرجہاں کے فخر کو ٹھیس پہنچی کیونکہ وہ اپنی بیٹی کے سسرال سے مدد قبول کرنا اپنی بے عزتی محسوس کرتی تھیں۔شیخ صاحب تشکرانہ احساس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ایک ہندو دوست مدن لال میرے گھر والوں کی مدد کو آیا اور حکومت کی چالوں کے باوجود اس نے اپنے گھر کا ایک حصہ میرے بیوی بچوں کو رہنے کے لئیے دیا۔ شیخ صاحب کی غیر یقینی مدت کی قید نے ان کے جان و جسم پر ایک بھاری بوجھ لاددیا تھا۔ حکومت نے ایک نایاب فیض دکھاتے ہوئے اکبر جہاں کو کچھ پیسوں کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اس کو ٹھکرا دیا۔ کئی مہینوں کی قید کے بعد جیل کے کرتا دھرتا نے یہ فیصلہ کیا کہ شیخ صاحب کو لامتناہی مدت تک باہر کی دنیا سے بات چیت سے نہیں روکا جا سکتا اور ان کو اپنے بیوی بچوں سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔ یہاں پر شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ” اب میں کشمیر میں ہونے والے حقیقی واقعات سے باخبر ہوسکتا ہوں ۔”

1953 کے بعد کے بے رحم حالات میں جہاں اکبر جہاں اور ان کے بچوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی پسماندگی سے درکنار کردیا گیا تھا، اپنے پیاروں اور دوستوں سے دور ان کی حالت قابل رشک نہیں تھی۔ ان کے بھائی جورج نیڈو عرف محمد اکرم، ہیری نیڈو عرف غلام قادر اور بینجی نیڈو عرف شمس الدین اتنی ہمت یا اتنے اثرورسوخ نہیں رکھتے تھے کہ وہ ان کی مدد کو پہنچتے۔ اکبر جہاں کے بھائی جن میں سے دو آگے چل کر کامیاب ہوٹل کے بزنس مین بنے ، انڈیا کی حکومت سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ اور بہت سے شہریوں کی طرح ان میں بھی کشمیر کی حق خود ارادیت اور اس کے مستقبل کے لئیے کھلم کھلا لڑنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ اکبر جہاں کی والدہ کے علاوہ ان کے اور کسی رشتہ دار نے ان کو اس مشکل وقت میں کاندھا نہیں دیا ۔ اس وقت کی تلخ یادیں اکبر جہاں کی چھوٹی بیٹی ثریا اور خالدہ اور غلام محمد شاہ کے بڑے بیٹے افتخار احمد کو آج بھی ستاتی ہیں۔

ثریا اب تک 1953 سے لیکر 1964 تک کے حالات یاد کرتی ہوئی کہتی ہیں کہ وہ ان کی زندگی کا ایک نہایت مشکل دور تھا۔ ان کی بڑی بہن خالدہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اکبر جہاں اور ان کے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ ان سالوں میں ان سب نے اپنی زندگی میں نہایت صعوبتیں برداشت کیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ “1953 میں والد صاحب کی گرفتاری اور تعزلی کے بعد ہم بے گھر ہوگئے تھے۔ ایک کشمیری پنڈت مسٹر مدن اور ان کی بیوی جن کی کوئی اولاد نہیں تھی، انہوں نے ہماری مدد کی اور ہمیں رہنے کے لئیے اپنا گھر پیش کیا۔ اس مشکل وقت میں وہ لوگ ہمارے لئیے نیکی کے فرشتے ثابت ہوئے۔ ہماری والدہ اور سب بہن بھائی مدن صاحب کے سری نگر کے بچوارہ علاقے میں ، ان کے آرام دہ گھر میں شفٹ ہوگئے۔ مدن صاحب اور ان کی بیوی ایک مکان میں رہتے تھے اور ان کے ساتھ والا مکان انہوں نے ہم لوگوں کو رہنے کے لئیے دیا۔ ” ثریا کے بھائی فاروق، طارق اور مصطفیٰ اس وقت کالج میں تھے وہ خود کوٹھی باغ ہائی اسکول میں تھیں۔ اس وقت ایک اور مصیبت جو وہ لوگ جھیل رہے تھے وہ اکبر جہاں کی بڑی بیٹی خالدہ کی خراب صحت تھی۔ اس وقت یہ خاندان کشمیر ی طاقتوں کی پیدا کردہ مشکلات کے بدنصیب گھیرے میں تھا۔

ایک سیاسی قیدی کے ساتھ تعلقات رکھنے کی مستقل نگرانی اور سزا کے خوف سے ڈاکٹر بھی ان لوگوں کے علاج اور ان کی دیکھ بھال سے گھبراتے تھے۔ اس مشکل گھڑی میں ثریا کہتی ہیں کہ “خدا نے ڈاکٹر حفیظ اللہ کی شکل میں ہمارے لئیے ایک فرشتہ بھیجا جو ہمیں بچانے کے لئیے آیا۔ ہم میں سے کوئی بھی اس نیک روح کو بھلا نہیں سکتا ہے۔ ہمارے گھر میں بیماروں کا علاج کرنے کی ان کی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھانے پر ان کے لئیے بھی مشکلات کھڑی کی گئیں۔ ” وہ زور ڈال کر کہتی ہیں کہ “ان تمام مشکلات کے دوران ہماری ماں ہمت سے کھڑی رہیں اور ہمار ا گھر کوشش اور مزاحمت کا قلعہ بن گیا۔”

اکبر جہاں کی والدہ ، میر جان بیگم عرف رانی جی جن کا پہلے بھی کتاب میں ذکر ہوچکا ہے، بارملا ڈسٹرکٹ کے ایک چھوٹے شہر تانگ مرگ میں زمینوں کی مالک تھیں اور انہوں نے اپنی بیٹی اور نواسے نواسیوں کو معاشی طور پر سہارا دیا۔ ثریا بردباری سے کہتی ہیں کہ “زندگی کے اس کڑے وقت نے ہمیں نہایت کڑوے سبق دئیے۔ ” مشکلات اور امتحانات کے گیارہ بارہ سال بعداکبر جہاں اور ان کے بچے سری نگر کے باہر سورا منتقل ہوگئے جو ایک نیا باب رقم کرنے کے مترادف تھا۔ محرومیاں اور مشکلات جھیلنے کے باوجود، اکبر جہاں نے ایک بیوی ، ایک ماں اور ایک سیاسی رہنما کی ذمہ داریوں کو توازن سے نبھایا۔ انہوں نے مشکلات کے خلاف شیخ صاحب کی سیاسی تنظیم کو ان کی غیر حاضری میں کامیابی سے چلایا۔ ثریا مجھے بتاتی ہیں کہ ” جب شیخ صاحب پہلے ادھام پور کے شہر کد میں اور پھر بعد میں جموں میں قید سے کشمیر کی کنسپائریسی کا کیس شدومد سے لڑ رہے تھے جو ان کی ہمت ختم کردینا چاہتا تھا، اکبر جہاں نیشنل کانفرنس اور پاپا کے بیچ ایک مضبوط تعلق تھیں۔”

بخشی غلام محمد کی حکومت کے دوران ، اکبر جہاں حضرت بل کے مزار پر جو کہ عوامی تحریک کا گڑھ تھا، تقریر کرنے والی تھیں جہاں بہت سارے لوگ ان کو سننے کے لئیے جمع تھے۔ ظہر کی نماز کے فورا” بعد جیسے ہی وہ تقریر کرنے کھڑی ہوئیں تو سلیم شال ایک مشہور غنڈا جو پرائم منسٹر بخشی کا ایجنٹ تھا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ منظر پر نمودار ہوا اور انہوں نے وہاں جمع ہوئے لوگوں کو مارنا پیٹنا اور ہراس کرنا شروع کیا۔ثریا اس دن کو یاد کرتے ہوئے مجھے ای میل میں لکھتی ہیں کہ ہر طرف ایک دھکم پیل تھی لیکن اکبر جہاں بالکل نہ گھبرائیں اور چٹان کی طرح کھڑی رہیں۔ کچھ کارکنوں نے ہمیں حفاظت سے ہماری گاڑی تک پہنچایا۔ وہ ایک انتہائی مزہبی خاتون تھیں جن کی طاقت ان کے غیر متزلزل ایمان میں تھی۔

غیر قانونی اور غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرکے شیخ محمد عبداللہ اور اکبر جہاں کو اچھوت قرارد دے کر انڈیا کی فیڈرل حکومت کے وفادار پرائم منسٹر کو کشمیر پر مسلط کیا گیا ۔ کشمیر میں جمہوریت کی تباہی اور عوامی طاقت ،جس کو صدیوں کی کاوش سے حاصل کیا گیا تھا، کی تنزلی کا لمحہ اکبر جہاں اور ان کے بچوں کی زندگی میں ایک اہمیت کا حامل ہے۔ شائد قارئین یہ محسوس کریں کہ اس وقت کے تاریخی واقعات کا تذکرہ اکبرجہاں کی سرگزشت حیات ترتیب دینے میں اہمیت نہیں رکھتا لیکن میں اپنے لئیے اس بات کو ضروری سمجھتی ہوں کہ یہ نقطہء نظر جس کو عرصہ دراز سے نظر انداز کیا گیا ہے سامنے لایا جائے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں گذرے ہوئے سیاسی اور تاریخی واقعات وقت کی گرد میں دب کر رہ گئے ہیں اور گنتی کےچند اسکالرز کو چھوڑ کر عام لوگوں تک نہیں پہنچے ہیں۔

9 اگست، 1953 کی بغاوت کے بارے میں پرانی دستاویزات ڈھونڈتے ہوئے جن کی مزید کھوج ضروری ہے، مجھے شیخ محمد عبداللہ اور جی ایم صادق کے درمیان ، جو کہ ایک اہم سیاسی کردار اور شیخ صاحب کے ایک زمانے میں قابل اعتماد ساتھی تھے، خط وکتابت ملی۔ صادق کا غیر جمہوری طاقتوں کے ساتھ مل کر بغاوت کا ذمہ دار ہونا شک وشبہے سے بالاتر ثابت ہے۔ 16اگست، 1956 میں اپنی قید کے تیسرے سال میں شیخ صاحب نے جموں کی کد جیل سے صادق کو خط لکھا اور اپنی معزولی اور قید پر احتجاج کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ کافی شہادت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگست 9 کی بغاوت ایک ملی بھگت کا نتیجہ تھی جس میں قدامت پسند اور گروہوں کے درمیان نفرت بڑھانے والے عوامل کے ساتھ مل کر بخشی (بخشی غلام محمد نے شیخ صاحب کی تنزلی کے بعد کشمیر کے پرائم منسٹر کی جگہ لی تھی) نے اس عظیم تحریک کو سبوتاج کرنے کی کوششش کی جس کی میں 1931 سے رہنمائی کررہا تھا۔ انہوں نے اس بات کے مشاہدے پر بھی زور دیا کہ جموں اور کشمیر کی نئی حکومت نے ذمہ دارانہ حکومت اور کشمیر ی عوام کی سلامتی کی حفاظت جیسے بنیادی اصولوں کو پامال کیا جن کے لئیے ان کے کئی ساتھیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی۔ اس وقت کے حکمران گروہ نے انڈیا کی مرکزی حکومت اور اس کے ساتھ انضمام کی حمایت کی۔ وہ کشمیر کی آزادی کے سپاہیوں میں آزادی کے جذبے کو کچل دینا چاہتے تھے۔ کشمیر میں اس وقت ایسی حکومت کا راج تھا جومحض احتیاطی تدابیر کے طور پر ایک غیر قانونی بلاوارنٹ کی گرفتاری اور پانچ سال کی قید پر یقین رکھتی تھی۔ احتیاطی تدابیر کے طور پرشہریوں کو مقید کرنے کا کالا قانون حکومت کے خلاف احتجاج اور جائز سیاسی مقاصد کے حصول کی کوششوں کا گلا گھونٹنے کے لئیے استعمال کئیے گئے۔ یہ بے انصاف قانون ، قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان پر دباؤ ڈالنے اور ان سے استعفیٰ لینے میں استعمال کیا گیا۔ (شیخ اور صادق کے درمیان خط وکتابت اگست سے اکتوبر 1956)

 شیخ صاحب نے احتجاجا” لکھا کہ ، “ان تمام شرمناک حالات کے اوپر میری تین سال سے جاری مستقل قید ہے جس کو طوالت اس لئیے دی جارہی ہے تاکہ ایک ناجائز حکومت کا دورانیہء حیات بڑھایا جا سکے۔ ” یہاں یہ دہرانا غیر ضروری ہوگا کہ اس بدمزہ صورت حال نے جموں اور کشمیر میں جمہوریت کو بحال کرنے کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کردی تھی۔ ان حالات نے وہ سیکولرزم کی فضا خراب کردی تھی جہاں پر مختلف مذاہب کی شناخت کو احترام اور قبولیت مل سکے۔ شیخ صاحب نے فیصلہ کن سخت الفاظ میں اپنا خط مکمل کرتے ہوئے لکھا کہ ، “تاریخ نے کئی غدار پیدا کئیے ہیں لیکن دنیا عوام کے ہر دشمن کی تباہی سے باخبر ہے۔”

شیخ صاحب کے لکھے ہوئے احتجاج اور اکبر جہاں کی ان کو کشمیر میں پھیلانے کی ان تھک کوششوں کے باوجود ان کی قید کا اکیلا پن اور دورانیہ مختصر نہیں ہوا۔شیخ صاحب کی طویل قید کے دوران اکبر جہاں اور ان کی اولاد نے جو محرومی محسوس کی اس سے شائد کوئی اور ہوتا تو اس کی ہمت جواب دے جاتی لیکن وہ اپنی جگہ ڈٹی رہیں۔ میں اب بھی اپنی والدہ میں کشمیر کی تاریخ کی ریاستی تفہیم اور ترقی پسند سیاست کو مجرمانہ قرار دئیے جانے پر بددلی دیکھتی ہوں جو اپنے بے چین بچپن میں ان کے ذہن پر ثبت ہوچکی ہے۔ لیکن اکبر جہاں ایک طاقت تھیں جو خاموشی کے ساتھ اس وقت جنگ لڑتی رہیں جب نوآبادیاتی اور جاگیردارانہ نظام کے مخالف آزادی کے سپاہی شیخ محمد عبدللہ، مرزا افضال بیگ اور دیگر سپاہی ایک جیل سے دوسری جیل میں ایک قید تنہائی سے دوسری قید تنہائی میں دھکیلے جارہے تھے۔

 میں نے اپنی کتاب “کشمیر، اسلام ، خواتین اور کشمیر میں تشدد (2000)” میں اس جوش اور جذبے کا ذکرکیا ہے جو کشمیر کے ٹھہرے ہوئے سیاسی ماحول میں جمہوریت کی امید سے پیدا ہوا۔ قارئین کی معلومات کے لئیے میں اس بات کا ذکر کرتی چلوں کہ اگست1955 میں جموں اور کشمیر کی اسمبلی کے آٹھ قانون دان اکٹھے ہوئے اور انہوں نے پلیبیسائٹ فرنٹ کے نام سے کشمیر میں سیاسی مہم کا آغاز کیا۔اس آرگنائزیشن کے پہلے صدر مرزا افضل بیگ تھے جو ایک وقت میں شیخ صاحب کے قابل اعتبار اور وفادار لیفٹیننٹ تھے۔ اکبر جہاں اور دیگر خواتین پس پردہ ان تھک محنت کے ساتھ لوگوں کے لئیے خاص کر خواتین کے لئیے نئے راستے تلاش کرنے میں لگی رہیں تاکہ وہ معاشرے کے فعال رکن بن سکیں۔ کشمیر کی تاریخ کا یہ باب نہایت کم افراد جانتے ہیں۔

اس زمانے کی دیگر کشمیری خواتین نے بے مثال ہمت کا مظاہرہ کیا اور ضروری خدمات انجام دیں۔مثال کے طور پر مشہور جرنلسٹ اے آر نیر پلیبیسائیٹ فرنٹ میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “دیہات کی خواتین بھی ان سیاسی مجمعوں میں مردوں کی طرح جوشیلی تھیں۔ “نیر نے ایک بیوہ کے بارے میں بتایا جن کے تانگہ چلانے والے شوہر کوان کے ساتھیوں کے ساتھ اس وقت ہلاک کردیا گیا تھا جب وہ 1947 کی خانہ جنگی کے دوران ہندو خواتین اور بچوں کو محفوظ جگہ پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اس مقتول تانگے والے کی بیوی نے آگے چل کر کشمیر پلیبیسائٹ فرنٹ میں ایک جوشیلی خاتون رہنما کا کردار نبھایا۔نیر نے ان خاتون کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھا کہ وہ ایک ان پڑھ خاتون تھیں لیکن انہوں نے اپنی زندگی سے سبق سیکھا اور انہیں سیاسی نظام کے بارے میں متاثر کن معلومات تھیں۔ ان خاتون نے نیر سے کشمیر کی جانب انڈیا کی حکومت کے روئیے سے متعلق مشکل سوالات کئیے جس سے ان کوحیرانی ہوئی۔ حالانکہ یہ خاتون کبھی اسکول نہیں گئی تھیں لیکن وہ کسی بھی قیمت پر مقاصد حاصل کرنے میں عوامی جدوجہد، حق خودارادیت اور کشمیر کے عوام کی آواز کی اہمیت کو سمجھتی تھیں۔ پلیبیسائٹ فرنٹ نے کشمیرکی وادی میں اپنے قدم جمائے جہاں ان کا مضبوط گڑھ بنا۔ فرنٹ کی علاقائی اور مرکزی حکومت سے باغی خیالات نے عوامی حمایت حاصل کی جس سے جابرانہ حکومت کمزور پڑگئی۔ میں پلیبیسائٹ فرنٹ کی سیاست کا مزید ذکر اگلے حصے میں کروں گی۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan