رشی کپور کا زہر اور عامر لیاقت کے کپورے


پاکستان میں اوول کے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑے تو ہر دل جھوم اٹھا اور کیوں نہ جھومتا یہ شکست کسی عام ٹیم کو نہیں بلکہ وطن عزیز کے دیرینہ اور بدترین حریف بھارت کو دی گئی۔ فتح پر جشن منانا اور شکست کھانے والے کو اس کے دعوے یاد دلانا کچھ غلط نہیں مگر کچھ روایتوں کی پاسداری ضروری ہے ۔

سرحد کے اطراف رہنے والے نا جانے کیوں فتح و شکست کے بعد اختلاقیات کے اصول بالائےطاق رکھ دیتے ہیں

بھارت میں شکست پر اپنی ٹیم کو گالیاں دیکر اور ٹی وی توڑ کر غصے کا اظہار کیا گیا تو پاکستان میں شکست خوردہ ٹیم کے حوالے سے وہ واہیات رویہ اپنایا گیا جس کا اخلاقیات میں کوئی جواز نہیں ۔

میں اپنے ملک کی بات اس لیے کروں گی کہ مجھے پڑوسی کی آگ کی پرواہ نہیں۔ ہمیں اپنا گھر شعلوں سے محفوظ رکھنا ہے جس کی چنگاری ہمیں جلانے کے درپے ہے۔ ہم غم و خوشی میں انتہائی جارحانہ انداز اپناتے ہیں ، گزشتہ رات ملک بھر میں جیت کے بعد جشن مناتے وقت اس قدر ہوائی فائرنگ کی گئی کہ کئی لوگوں کے گھروں کی خوشیاں بجھ گئی، ہوائی فائرنگ سے ہلاکتوں کی خبریں ملک بھر سے اب تک مسلسل نشر ہورہی ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ ہمیں محبِ الوطنی ثابت کرنے کے لیے اس قسم کی اشتعال انگیزی کی ضرورت پڑ جاتی ہے؟

آخر کیوں ہم کھیل کے میدان کو میدانِ جنگ تصور کرلیتے ہیں؟

کیوں ہم نے کرکٹ جیسے لائٹ کھیل کو دفاعی اداروں کی جنگ سمجھ لیتے ہیں؟

آخر کیوں ہم ان ہی لوگوں کے نفرت انگیز بیان نشر کرتے ہیں جن سے ہمارے چینلز کی سرخی سب سے پہلے سرخ ترین دکھائی دے؟

ہم نے رشی کپور اور عامر لیاقت کی طوفان بدتمیزی کو پسند کیا مگر ہم نے دھونی کی محبت کا دھواں سرفراز کے بیٹے کے لیے اٹھتا نہیں دیکھا کیوں کہ شاید ہماری تعلیمات نے ہمیں نیشنلزم کی تعریف محض نفرت بتائی ہے جب ہی آج ہمیں اُدھر بال ٹھاکرے اور اِدھر حافظ سعید جیسے مزاج رکھنے والے چاھئیے ورنہ سرحد کے اُس پار امن سے رہنے کی تمنا کرنے والوں پر آئی ایس آئی کا ایجنٹ اور سرحد کے اِس پار رہنے والوں پہ را کے ایجنٹ کے الزامات لگنے کو تیار رہتے ہیں ۔

میچ سے قبل لفظوں کے تیر رشی کپور کے ٹویٹ سے شروع ہوا کہ باپ کون ہے؟ مگر رشی کپور کو شاید بالکل اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان میں خود کو ایک مذہبی اسکالر کہلانے والے کی جانب سے یہ جنگ کپوروں پر جاکر اختتام پزیر ہوگی ۔

عامر لیاقت صاحب تو سب کو کفر اور غدار کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے نظر آتے ہیں۔ وہ گزشتہ روز انتقام پلس محبِ الوطنی کے جوش میں ہوش بھی کھو بیٹھے ۔

موصوف کُھلے عام ٹی وی اسکرین کے سامنے رشی کپور کے نام کی مناسبت سے ان کو لاہور کے کپورے کھلانے کا دعوت نامہ دے رہے ہیں ۔ اس نازیبا بات پر انکو ڈھیروں محبِ وطنوں کی جانب سے داد موصول ہورہی ہیں ۔

مگر اچنبھے کی بات یہ ہے کہ بانی بول حضرت پاشا بھی بابائے شعیب کو اس بات کی تلقین کرنے سے رہے کہ بھائی نسل کو حب وطن کی گھٹی ضرور پلانا مگر درسِ اختلاقیات ضرور یاد رکھنا !!

 کیا اثر پڑرہا ہوگا ہمارے بچوں کی تربیت پر جب وہ اپنے والدین سے پوچھ رہے ہوں گے کہ بابا کپورے کیا ہوتے ہیں ؟

کیا کسی مذہبی اسکالر , دُنیا کے کسی بھی اداکار یا کسی بھی مہذب انسان کو کو ایسی غیراخلاقی بات کرنا زیب دیتی ہے ؟

کیا رشی کپور کو کسی اور انداز میں رسوا نہیں کیا جاسکتا تھا ؟

بحیثیت قوم کے، کیا اس طرح کی انتہائی سطحی گھٹیا باتیں کرنے والوں کو سراہنے کے بجائے اس بات کی تلقین نہیں کرنی چاھئے کہ  صاحب آپ کسی بھی شخصیت ، دشمن سے بھرپور اختلاف رکھیں مگر اخلاقیات، اعلی ظرفی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر اپنی تربیت کا اصل روپ پوری دنیا کو نہیں دکھائیں کیوں کہ یہ آپ کی ذاتی رائے تو ہوسکتی ہے یہ آپ کی اختلاقیات تو ہوسکتی ہیں مگر پوری پاکستانی قوم ایسی گندی زبان نہیں بولتی۔

میری نوجوان نسل سے مودبانہ گذارش ہے کہ بےشک ہندوستان کو دُشمن مانیں مگر اس دُشمنی میں اپنے کردار کے دُشمن نہ بنیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).