کرکٹ کے ساتھ ساتھ جذبوں کی توہین بھی نہ کریں


آج راحیل افضل صاحب کا بلاگ کرکٹ کی توہین نہ کریں پڑھا۔ میں ان کی بات سے کسی حد تک اتفاق بھی کرتا ہوں اور کسی حد تک اختلاف بھی۔ اتفاق تو اس بات سے کہ واقعی کھیل کو کھیل کی طرح لینا چاہیے اور اچھے کھلاڑی کی تعریف کرنی چاہیے چاہے وہ کسی جانب کا بھی ہو۔ ہم واقعی جذباتی لوگ ہیں کوئی شک نہیں ہے۔ مگر کل جس طرح پڑوسی ملک میں رونا دھونا مچا ہوا تھا اسے کیا کہیں گے؟ لوگوں نے ابھی تو ٹی وی توڑے ہیں انڈین ٹیم کے واپس پہنچنے پر کیا کیا ٹوٹے؟ کچھ خبر نہیں۔ ایک علاقے میں تو فوج تک بلوا لی گئی۔ واقعی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو ٹیم ہارتی ہے وہ جیت بھی تو جاتی ہے۔ ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ ہر فریق جیتنے کے لئے میدان میں اترتا ہے مگر جیت صرف ایک کا مقدر ٹہرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا ہوتا کیوں ہے؟ دراصل وجہ کچھ اور نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم پیدائشی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ اور حریف کا تھوڑا سا بھی نقصان باعث راحت ہوا کرتا ہے۔ میدان کوئی بھی ہو کھیل کوئی بھی ہو حریف سے جیتنے کی خواہش ہر قوم میں ہوتی ہے۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے انہوں نے ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ بحث ذرا طول نہ پکڑ لے اس لئے مختصر طور پر صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جس طرح پاکستان کو لے کر وہاں کے عوام، سیاستدان، میڈیا اینکرز اور تمام شعبہ جات کے لوگ انتہائی جذباتی ہیں اور کسی حد تک نفرت بھی کرتے ہیں اور موقع بہ موقع اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں اسی کا رد عمل یہاں سے بھی ویسا ہی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کسی بھی ٹیم سے ہار جائے اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا انڈیا سے ہار کے ہوتا ہے اور اتنی خوشی کسی ٹیم سے جیتنے کی نہیں ہوتی جتنی انڈیا سے جیت کے ہوتی ہے۔ اسی لئے جب پاکستانی ٹیم انڈیا کے مدمقابل آتی ہے تو صرف وہ ٹیم نہں بلکہ پوری پاکستانی قوم کا جذبہ میدان میں اترتا ہے۔ یہی جذبہ ہوتا ہے جو دعاوں کی صورت ہر وقت ٹیم کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے اسے صرف کھیل کہنا میرے خیال میں جذبوں کی توہین ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).