عورت، اسلام اور ملا


اس پر سقراط کہتا ہے کہ مردوں کے لیے تو ورزش اور موسیقی کی تعلیم ہے تو کیا عورتوں کے لیے بھی یہی تعلیم مناسب ہو گی۔ اور اگر یہ مناسب ہو گی تو کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہو گا کہ عورت بھی کپڑے اتار کر مردوں کے ساتھ اکھاڑے میں ورزش کر رہی ہو۔ عاقل لوگ یقینا اس جدت کا مذاق اڑائیں گے۔ اس موقع پر سقراط نے بہت پتے کی بات کی ہے۔ وہ ان معترضین کو یاد دلاتا ہے کہ بہت دن نہیں گزرے جب مردوں کا کپڑے اتار کر اکھاڑے میں ورزش کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اور جب پہلے پہل کریٹ کے باشندوں نے اور اس کے بعد لیسی ڈی مونیا کے باسیوں نے اس رسم کو شروع کیا تھا اس زمانہ کے عاقلوں نے بھی اس کا اسی طرح مذاق اڑایا تھا۔ مگر جب ہم نے اس تبدیلی کی وجوہ پر غور کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ یہ تبدیلی بہتر ہے تب اس سے مضحکہ خیزی کا پہلو غائب ہو گیا اور عقل کا بہترین کے حق میں فیصلہ غالب آ گیا۔ (اردو ترجمہ از ڈاکٹر ذاکر حسین)

اب یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ مردوں اور عورتوں کے جداگانہ دائرہ کار کا تصور فطرت کے کسی قانون پر مبنی نہیں بلکہ معاشرتی رسم و رواج اور عادت کا نتیجہ ہے۔ رسم اور عادت کا دستور ہے کہ وہ ہر غیر مانوس فعل کو ناممکن اور خلاف فطرت قرار دے دیتی ہے۔ رائج الوقت رسوم و رواج پر نکتہ چینی اور ان کو بدلنے کی کوشش کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ عقل غیر مانوس سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس پر غورو تامل کرتی ہے اوررواج کو ناقابل تغیر اور فطری تسلیم کرنے سے انکاری ہوتی ہے۔ عقل تعصب سے پاک، شواہد پر مبنی استدلال کی بنیاد پر اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسوم و رواج عورت کے دشمن اور عقل اس کی حامی ہے، عورت عقلی دلائل کی بنیاد پر مساوی حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس خطرناک راستے کو بند کرنے کے لیے مردوں نے عورت کو ناقص العقل قرار دے دیا۔ ڈی۔ ایچ۔ لارنس کا کہنا تھا کہ مرد اور عورت کی منطق میں فرق ہوتا ہے۔ مرد کی منطق عقل پر اورعورت کی منطق جذبات پر مبنی ہوتی ہے۔ چنانچہ عورت جذبات سے ہٹ کر خالصتاً عقل کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ اسی بنا پر عورت کا مزاج شاعری، ادب اور دیگر فنون لطیفہ کے لیے تو موزوں ہو سکتا ہے مگر منطق، فلسفہ اور سائنس کے لیے ناموزوں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مغرب میں تحریک نسائیت کی علم برداروں نے بھی اس موقف کو اپنا لیا ہے اور منطق، عقل اور معروضیت کو اپنا دشمن اور مردانہ غلبہ و تسلط کا آلہ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ روتھ گنزبرگ نے، جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں فلسفہ کی استاد ہے، modus ponens کو، جو قضیاتی منطق کا ایک بہت بنیادی اصول ہے، مردانہ تخلیق اور عورتوں پر جبر کا وسیلہ قراردیا ہے۔ اس کے نزدیک استدلال کی یہ صورت مکمل طور پر مردانہ اور عورتوں کے لیے ناقابل فہم ہے کیونکہ اس کہ اکثر طالبات کو اسے سمجھنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ اس نے تو تمام تر علامتی منطق کو ہی عورتوں کے لیے اجنبی قرار دے دیا ہے۔ یہاں پر صرف اس قدر ذکر کرنا چاہوں گا کہ میں نے تقریباً پچیس برس تک منطق کی تعلیم دی ہے بالخصوص علامتی منطق کی۔ میرا تجربہ تویہ ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی کارکردگی عموماً بہتر ہوتی تھی۔

ا گر اس تصور کو تسلیم کر لیا جائے کہ عورت اور مرد کی عقل اور منطق میں بنیادی فرق ہے تو عورتوں کی مساوات ثابت ہونے کے بجائے الٹا یہ ہو گا کہ عورتیں بعض کاموں کے لیے غیر موزوں قرار پائیں گی۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ تاریخ میں بہت کم عورتیں فلسفی، سائنس دان اور ریاضی دان ہوئی ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کو بہت کم وہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے جو ان علوم کے لیے درکار ہے۔ معاشرتی دائرے میں عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے، یعنی وہ ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، سائنس دان، پروفیسر بننے کے لیے اسی طرح موزوں اوراہل ہے جس طرح مرد۔

یہ ایک عظیم تاریخی المیہ ہے کہ مردوں نے کبھی عورت کی مساوی انسانی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے نزدیک عورت کی تخلیق کا واحد مقصد مرد کی جنسی خواہشات کی تسکین کرنا ہے۔چنانچہ عورت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اپنے آپ کو بنانے سنوارنے پر مرکوز رکھے تاکہ مرد کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذب نظر ہو، اس کو لبھا سکے، رجھا سکے۔ مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورت کے لیے آرائش و زیبائش کا سامان فراہم کرے۔ جنسی لذت پر بھی مرد کا ہی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے لیے مرد آزاد ہے کہ وہ جتنی عورتوں سے چاہے تمتع کر سکتا ہے۔ یک زوجگی کو خلاف فطرت قرار دیا گیا۔ یعنی مرد ایسا جانور ہے جو ہر چراگاہ میں چرنے کے لیے آزاد ہے۔ بادشاہوں کے حرم، لونڈیوں کی خرید و فروخت کے لیے سجنے والی منڈیاں اور طوائفوں کے بازار انہی تصورات کی پیداوار رہے ہیں کیونکہ مرد جنسی تلذذ کی خاطر تنوع کا متلاشی رہا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments