عورت، اسلام اور ملا


 مرد اور عورت کے باہمی تعلق کی صحیح تفہیم، دونوں کے حقوق و فرائض کا درست تعین انسانی تمدن کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان مسائل پر ہونے والی بحث کا بڑا حصہ جذباتیت کا شکار ہے۔ عقلی انداز میں اس پر گفتگو بہت کم ہوئی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب فریقین کے مابین پائی جانے والی بد اعتمادی ہے۔ مرد عورت کوحقیر، کم عقل، مکار، دھوکہ باز اور پاؤں کی جوتی کہتے ہیں تو عورتوں نے مرد کو ناقابل اعتبار، ہرجائی اور سرہانے کا سانپ قرار دیا ہے۔

زمانہ حاضر میں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ عورت اور مرد مساوی ہیں یا عورت مرد سے کم تر ہے؟ ان سوالات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اگر اس بحث کا منطقی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کا زیادہ تر حصہ محض خلط مبحث پر مشتمل ہے۔ تاریخی اعتبار سے مردوں کا غالب نقطہ نظر یہی رہا ہے کہ عورت مرد سے کم تر ہے۔ اس کم تری کے حق میں بہت سے دلائل دیے جاتے ہیں مثلاً  یہ کہ عورت اور مرد کی فطرت جدا جدا ہے۔ اس لیے عورت بعض کاموں کے لیے طبعاً ناموزوں ہے۔ کہ قانون فطرت کے عین مطابق ہے کہ عورت امور خانہ داری انجام دے اور مرد بیرون خانہ سرگرمیوں میں حصہ لے۔

کیا عورت اور مرد کا جداگانہ دائرہ کار قانون فطرت کا تقاضا ہے یا اس کا سبب کچھ اور ہے؟ یہ بات درست ہے کہ عورت اور مرد میں بعض حیاتیاتی امتیازات ہیں جس طرح دیگر جانوروں کے نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ مگر ان حیاتیاتی امتیازات سے کیا یہ نتائج اخذ کرنا درست ہے کہ عورت اور مرد کی فطرت بھی جداگانہ ہے اور اسی بنا پر الگ الگ دائرہ کار اور الگ تعلیم و تربیت کا تقاضا کرتی ہے۔

ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے لازم ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ قانون فطرت کیا ہوتا ہے اور اس کے خصائص کیا ہوتے ہیں۔ قانون فطرت اس کائنات میں پائی جانے والی باقاعدگی کو بیان کرتا ہے۔ اس اعتبار سے فطری قوانین ناقابل تغیر اور اٹل ہوتے ہیں۔ انسان نہ انہیں توڑ سکتا ہے اور نہ ان کو نافذ کر سکتا ہے۔ یہ قوانین حقائق کو بیان کرتے ہیں جیسا کہ وہ ہوتے ہیں۔اسی بنا پر ان کے جھوٹ یا سچ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی مزعومہ قانون حقیقت کو درست طور پر بیان کرتا ہے تو وہ سچ ہو گا بصورت دیگر باطل ہو گا۔

ان قوانین کے برعکس انسانی معاشرے کے نظم و ترتیب کو بیان کرنے والے قوانین فطری نہیں بلکہ معیاری ہوتے ہیں۔ یہ معیارات قوانین فطرت سے جدا گانہ خصوصیات کے حامل ہیں۔ ان معیارات کے نفاذ کی ذمہ داری انسانوں پر عاید ہوتی ہے۔ ہم انہیں اچھا یا برا، صحیح یا غلط تو قرار دے سکتے ہیں مگر جھوٹ یا سچ نہیں کہہ سکتے۔ یہ معیارات حقائق کو بیان نہیں کرتے بلکہ ہمارے طرز عمل کے لیے رہنما اصول متعین کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ معیارات فطری نہیں بلکہ رسمی اور رواجی ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ انسانوں نے اپنی شعوری کوشش سے وضع کیے ہوتے ہیں۔ یہ معیارات انسانوں کے ہزاروں سال پر محیط باہمی تعامل کا نتیجہ ہیں۔

اس موقع پر یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ حقائق اور معیارات میں حائل خلیج کی طرف بھی اشارہ کر دیا جا ئے۔ حقائق بس حقائق ہوتے ہیں، وہ نہ اچھے ہوتے ہیں نہ برے۔ اسی بنا پراخلاقی اصول اور معیار حقائق سے اخذ نہیں کیے جا سکتے۔ مثلاً مساوات انسانی کے اصول کو لیجیے۔ اس اصول کی دلیل اس بات کو بنانا غلط ہو گا کہ چونکہ سب انسان مساوی پیدا ہوتے ہیں اس لیے وہ دیگر امور میں بھی مساوی ہوتے ہیں۔ انسان بس پیدا ہوتے ہیں مساوی یا غیر مساوی نہیں۔ انسانی مساوات کا تصور اصلاً ایک اخلاقی اصول ہے جس کے قبول اور نفاذ کی ذمے داری ہمارے اوپر عاید ہوتی ہے۔ اسی طرح مرد اور عورت مساوی ہیں یا غیر مساوی۔ یہ بھی اخلاقی فیصلہ ہے جس کی ذمے داری ہمارے اوپر عائدہوتی ہے نہ کہ فطرت پر۔ فطرت صرف عورت اور مرد کو پیدا کرتی ہے، انہیں مساوی یا غیر مساوی پیدا نہیں کرتی۔اس لیے فطرت کی بنیاد پر کیا جانے والا استدلال سر تا سر غلط ہے۔

عورت اور مرد کی مساوات کے نظریہ اور اس کے مضمرات پر افلاطون نے اپنے مکالمے ریاست کی کتاب پنجم میں بحث کی ہے۔ افلاطون کے نزدیک مردوں کی معاشرے میںوہ حیثیت ہے جو گلے میں محافظ اور نگران کتے کی ہوتی ہے۔یہاں سقراط ایک سوال اٹھاتا ہے۔ کیا کتوں میںنر اور مادہ کی تفریق ہوتی ہے؟ یا وہ سب کے سب شکار، نگہبانی اور دوسرے فرائض یکساں انجام دیتے ہیں؟ یا ایسا ہوتا ہے کہ ہم صرف نر کتوں کو تو گلے کی نگہداشت کے لیے چھوڑ دیں اور کتیوں کو یہ سمجھ کر گھر پر پڑا رہنے دیں کہ بچے دینا اور انہیں دودھ پلانا ان کے لیے بس کافی محنت ہے؟

گلاکن اس کا جواب دیتا ہے کہ نہیں، وہ تو سب یکساں ان کاموں میں شریک ہوتے ہیں، صرف اتنا فرق ہے کہ نر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور مادہ ذرا کمزور۔

سقراط: اچھا بتاؤ کہ اگر جانوروں کو ایک سی تربیت اور خوراک نہ دی جائے تو کیا وہ دونوں ایک ہی کام کر سکیں گے؟

گلاکن: نہیں

سقراط: چنانچہ اگر مردوں اور عورتوں کے فرائض ایک سے ہیں تو ان کی تعلیم اور تربیت بھی ایک سی ہونی چاہیے۔

گلاکن: جی ہاں

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments